FIQH HAZRAT UMER فقہ حضرت عمر
PKR: 1,200/- 600/-
Author: DR. MUHAMMAD RAWAS QALAJI
Translator: SAJID UR REHMAN SIDDIQUI
Pages: 852
Categories: ISLAM ARABIC LITERATURE ONAY PONAY TRANSLATIONS
Publisher: IDARA MARIF E ISLAMI
*فِقہ حضرت عُمر رضی اللہ عنہ*:
*ویسے تو یکم محرم کو لوگ قمری سال کے آغاز کےطور پر جانتے ہیں لیکن اِسی یکم محرم کو ایک عظیم سانحہ پیش آیا کہ خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓ کو شہید کیا گیا، ایک ایسی شخصیت جس کے لئے سردار دوجہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بارگاہِ الٰہی میں التجا کی کہ ”اے اللہ اِسلام کو عمر فاروق یا عمروبن ہشام سے عزت عطا فرما۔“ ایک ایسی شخصیت جس کی عظمت کا اعتراف اپنوں اور بیگانوں سبھی کو ہے۔ آپؓ کی خدمات، نظریات اور فقہی آرا ٕ نہ صرف مسلمانوں بلکہ پُوری انسانیت کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ آپؓ کے حالاتِ زندگی، علمی و سیاسی خدمات، داخلی و خارجی معاملات اور اِنتظامی، حربی، معاشی و عدالتی اُمور اور ان کی فقہی آرا ٕ پر بے تحاشہ کام ہو چکا ہے-*
*زیرِ نظر گرانقدر تصنیف سعودی عرب یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر محمد رواس قلعہ جی کے مرتب کردہ فقہ انساٸیکلوپیڈیا کا عربی ترجمہ ہے۔ اس سلسلے کا پہلا موسوعہ ”فقہ حضرت ابوبکرؓ“ کے نام سے نومبر ١٩٨٩ء میں شاٸع کیا تھا جبکہ دوسرا موسوعہ ”فقہ عمرؓ“ کے نام سے جنوری ١٩٩٠ء میں شاٸع کیا گیا۔*
*اِس فقہ انساٸیکلو پیڈیا کے فاضل مصنف کا پختہ یقین ہے کہ آج کی دُنیاۓ قانون ایک ایسے انساٸیکلو پیڈیا کی پیاسی ہے جس میں فقہ اِسلامی کا ہر مسلک اور ہر اجتہاد پیش کیا گیا ہو۔ چنانچہ اس ضرورت کو پورا کرنے کی خاطر اُنہوں نے تقریبا بیس سال گوشہ عزلت میں بیٹھ کر خُلفاۓ راشدینؓ، فقہا صحابہ کرامؓ اور تابعین عظامؒ کی فقہی آراء اور اجتہادات کو مختلف مآخذ سے جمع کیا، جن کی فقہ اِس وقت تک مرتب نہیں ہو سکی تھی۔ فاضل مصنف کی یہ ریاضت اور تحقیقی محنت قابل داد ہے۔*
*ڈاکٹر محمد رواس قلعہ جی نے اکابر صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ کی فقہ کو ایسے دلنشین انداز میں مرتب کیا ہے جو جدید فقہی اسالیب سے مطابقت رکھتا ہے۔*
*اس موسوعہ یعنی فقہ حضرت عمرؓ کی اہمیت اس لحاظ سے بہت زیادہ ہے کہ دوسرے خلیفہ راشد حضرت عمر بن خطابؓ کے دور خلافت میں کٸ ممالک اِسلامی حکومت میں شامل ہو گۓ تھے اور مسلمانوں کو ایسی تہذیبوں اور تمدنوں سے سابقہ پڑا جن سے وہ پہلے واقف نہ تھے لہذا خلیفہ دومؓ نے ان تہذیبی اور ارتقاٸی حالات میں اِسلامی شریعت اور اس کے عمومی اُصولوں کی روشنی میں ارتقاٸی اُصول وضع کۓ۔ چنانچہ اُنہوں نے زندگی کے تمام پہلوٶں میں خواہ وہ سیاسی ہوں یا اقتصادی، معاشرتی ہو یا قانونی، ایسی ترقی پذیر تبدیلیاں کر دیں جو ایک طرف اُمت مسلمہ کی ضرورتوں کو پُوری کرتی ہوں اور دوسری طرف معاشرے کو اِسلام کے بُنیادی اُصولوں سے دُور بھی نہ ہونے دیا۔ اُنہوں نے مختلف علاقوں اور شہروں کے قاضیوں کے نام ایسے احکام جاری کۓ جو آج کے دور میں بھی ججوں، قانون دان حضرات اور حکومت کے ذمہ داروں کیلۓ راہنما اُصولوں کا کام دیتے ہیں۔*
*یہ بھی امر واقعہ ہے کہ سولہ مقامات ایسے ہیں جن میں قرآن مجید نے حضرت عمرؓ کے اجتہاد اور راۓ سے اتفاق کیا۔ دوسرے لفظوں میں وحی کا فیصلہ وہی تھا جو حضرت عمرؓ کا خیال تھا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمرؓ کے اجتہادات اور ان کی فقہی آراء کی اِسلامی نقطہ نگاہ سے ایک خاص اہمیت اور قدر و قیمت ہے اور ان پر صرف اللہ تعالٰی کے ارشادات یعنی وحی جلی اور حضور نبی کریمﷺ کی احادیث یعنی وحی خفی کو برتری حاصل ہے۔*
*الحمدللہ علماۓ کرام، وکلاء اور عدلیہ سے تعلق رکھنے والے فاضل حضرات نے اس سلسلے کو بہت پسند کیا ہے۔ کٸ وکلاء حضرات نے ان کتابوں کو مختلف اعلٰی عدالتوں میں قانونی حوالے کی کُتب کے طور پر پیش کیا ہے۔ سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ میں سُودی نظام اور قوانین کے خاتمے کے معاملے میں بھی اِس انساٸیکلوپیڈیا کی کُتب کو بطورِ قانونی حوالہ پیش کیا گیا تھا۔ الغرض اِس اعلٰی و ارفع اور بیش قیمت کتاب کی اہمیت کو چند الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا ہے۔