SHAHEED-E-KASHMIR COL HAQ NAWAZ KIYANI شہید کشمیر کرنل حق نواز کیانی





PKR: 2,000/- 1,400/-
Author: PROF. SAEED RASHID ALIG
Pages: 263
Year: 2025
ISBN: 978-969-662-596-4
Categories: HISTORY BIOGRAPHY PAKISTANIAT
Publisher: BOOK CORNER
کردار نگاری کے جوہر کے سوتے کردار شناسی سے پھوٹتے ہیں اور کردار نگاری کا بنیادی مقصد کردار سازی ہے۔ قوموں کی زندگی کا انحصار اس کے ان سپوتوں پر ہوتا ہے جو اپنا سب کچھ اپنے ملک اور قوم پر نچھاور کر سکیں۔ ’’جس سرحد کو اہلِ شہادت میسر نہ آئیں، وہ مٹ جاتی ہے۔‘‘ مختار مسعود کے اس قول میں جو جذبہ اور فکر کار فرما ہے، وہ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اہلِ شہادت کا تذکرہ ہی ضروری نہیں بلکہ ان اقدار کو بھی اجاگر کرنا ضروری ہے جو ایک فرد کو اپنی جان قربان کر کے ملک و وطن کی حفاظت پر ابھارتی ہیں۔ ان اقدار کی آبیاری کے لیے ہمارے اہلِ قلم میں سے جن افراد نے اپنی صلاحیتیں وقف کی ہیں، ان میں سعید راشد صاحب سب سے اہم ہیں۔ ان کے قلم سے ہمارے بہت سے شہدا کے حالاتِ زندگی نکلے ہیں۔ کرنل حق نواز کیانی ہمارے ان شہدا میں سے ہیں جنھوں نے شہادت بھی پائی ہے اور غازی کے طور پر بھی جیے ہیں۔ 1965ء میں وہ سربکف کشمیر میں لڑے ہیں، ہر موقع پر انھوں نے بہادری کے جوہر دکھائے ہیں۔ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دادِ شجاعت دی ہے لیکن قدرت کو اُن کا جینا عزیز تھا، اس لیے موت ہی ہر قدم پر ان کی حفاظت کرتی رہی ہے۔ بڑے بڑے نازک مقامات پر وہ بچ گئے جب کہ ان کے ساتھیوں نے جامِ شہادت نوش کیا۔ 1971ء میں جب مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد ہم دل گرفتہ تھے اور دشمن کے حوصلے اپنوں کی کوتاہیوں اور غیروں کی سازشوں سے بڑھ گئے تھے، اس وقت قوم میں نئی زندگی کی روح پھونکنے کے لیے کرنل کیانی آگے بڑھے، اُنھوں نے فتح کے نشے میں چُور مخالفین کو للکارا اور ایک انتہائی دشوار گزار، کٹھن اور نازک مقام پر اپنی عسکری قوت سے کئی گنا زیادہ عسکری قوت رکھنے والی دشمن سپاہ کو شکست دے کر جان نثاری کی ایک روشن مثال قائم کر دی۔ اس معرکے کی سرگزشت سعید راشد صاحب نے بالتفصیل بیان کی ہے۔ ’’شہیدِ کشمیر کرنل حق نواز کیانی‘‘ یوں ایک شخص کی رودادِ حیات نہیں، بلکہ قلب و نظر کی دنیا کو بدلنے کی دعوت ہے، نظامِ تعلیم اور پوری زندگی کو ایسے ڈھانچے میں ڈھالنے کا پیام ہے جو نئی نسل میں بلند اقدار و روایات کے لیے مرنے اور جینے کا جذبہ بیدار کرے۔
(ڈاکٹر غلام حسین اظہر)
یوں تو جنگ کسی قوم کی اجتماعی کوشش ہی ہوتی ہے لیکن ہر اجتماعی عمل میں افراد کی ہمت اور استقلال کارفرما ہوتا ہے لہٰذا کسی جنگ کی تاریخ افراد کے کارنامے بیان کیے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ زیرِ نظر کتاب ہماری فوج کے ایک اہم ترین ہیرو کے بارے میں ہے۔ شہیدوں کے کارناموں پر روشنی ڈالنا اور ان کی یاد تازہ رکھنا ہمارا اخلاقی اور مذہبی فرض بھی ہے اور نئی نسل کے لیے وَلولے کا ایک مستقل سرچشمہ بھی۔ حق نواز کیانی شہید غیر معمولی جنگی صلاحیتوں کے مالک تھے۔ اُنھوں نے 1965ء کی جنگ میں کشمیر میں کمانڈو کارناموں کی بدولت ستارئہ جراَت کا اعزاز حاصل کیا پھر 1972ء میں وادئ لیپا کا حیرت انگیز کارنامہ انجام دیا اور شہید ہوئے۔ ان کی دلیری اور ثابت قدمی نے ہماری فوج کا بلکہ ساری قوم کا مورال بلند کر دیا۔ اس کتاب کے مصنف پروفیسر سعید راشد ملٹری کالج کے بہت پرانے اساتذہ میں سے ہیں اور شعبۂ تحقیق و ترقی کے تحت کئی کتابیں ان کے قلم سے نکل چکی ہیں۔ اس کتاب کا انداز بیان میں نے عام فہم اور دلچسپ پایا۔ مصنف نے ڈرامائی تکنیک اختیار کی ہے۔ انٹرویوز اور مختلف افراد سے گفت و شنید کی بنیاد پر انھوں نے معتبر ذرائع سے ایک بسیط اور جامع سوانح حیات مرتب کر دی ہے۔ مصنف نے اپنی طرف سے زیادہ کہنے کی بجائے دوسروں کے تاثرات کی مدد سے اپنے ہیرو کی تصویر کھینچی ہے جس کے لیے وہ تحسین کے مستحق ہیں۔
(جنرل محمد اقبال خان)
نشانِ امتیاز(ملٹری) ستارئہ بسالت
چیئرمین جائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی
کچھ مصنف کے بارے میں:
پروفیسر سعید راشد 20 جنوری 1927 ء کو پیدا ہوئے۔ پرائمری تعلیم کوتوالی سے جبکہ درجہ چہارم سے ایف اے تک اسلامیہ انٹر کالج، بریلی میں تعلیم حاصل کی۔یہ کالج سر سید احمد خان کی تعلیمی تحریک کی وجہ سے وجود میں آیا تھا۔ ان کے عہدِ شباب میں بریلی میں تحریکِ پاکستان اپنے پورے جوبن پر تھی۔ انھوں نے1942 ء میں عطاءاللہ شاہ بخاری، ظفر علی خان اور قائداعظم محمد علی جناح کے دل نشیں خطاب بھی سنے۔ 1949 ء میں اُردو میں ماسٹرز کرنے کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ٹیچر ٹریننگ کالج میں داخلہ لیا۔ یہاں ڈاکٹر ذاکر حسین، ڈاکٹر ہادی حسن، ڈاکٹر خواجہ غلام السیدین، پروفیسر رشید احمد صدیقی اور پروفیسر حبیب الرحمٰن جیسے اساتذہ سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا۔ انھوں نے سر سید احمد خاں کی تحریک اور تحریکِ پاکستان سے زبرد ست اثر لیا۔ 11 جون 1950 ء میں پاکستان کی دھرتی پر قدم رکھا اور یہاں آتے ہی ملٹری کالج جہلم سے منسلک ہوگئے۔ 1990ء میں ملازمت سے سبکدوش ہوئے اور اگلے چار برس تک آرمی پبلک سکول جہلم اور منگلا کینٹ کے پرنسپل رہے۔ اسلام آباد تعمیرِ ملت انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن ریسرچ کے ڈائریکٹر رہے۔ سلطانہ فاؤنڈیشن، اسلام آباد میں تعمیرِ کردار اور پاکستانیت کے ڈائریکٹر بھی رہے۔ وہ معلّم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین مؤرخ بھی تھے۔ ان کی درجنوں کتب آج بھی مقبولیت کا درجہ رکھتی ہیں۔ پاکستانیت اور کردار سازی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ 19 جون 1999 ء کو راولپنڈی میں علالت کے بعد اس جہانِ فانی میں اپنے انمٹ نقوش اور یادگار تحریریں چھوڑ کر ہمیشہ کےلیے رخصت ہو گئے۔