Jahane Hairat

JAHANE HAIRAT جہان حیرت

JAHANE HAIRAT

PKR:   700/- 490/-

Author: DR. SHAHID MASAUD KHATTAK
Pages: 200
Year: 2021
Categories: TRAVELOGUE ONAY PONAY
Publisher: MISC

’’جہانِ حیرت‘‘
ذوالفقار احمد چیمہ ، بدھ 28 اپريل 2021

2005میں مجھے ڈی آئی جی ڈیرہ اسماعیل خان لگایا گیا تومیں دوری کی وجہ سے اس تعیناتی پر آزُردہ تھا۔ مگر کچھ عرصہ وہاں گذرا تو ڈیرہ دل کو بھاگیا ۔ ڈیرہ کے لوگ بڑے ذہین اور مخلص ہیں۔ جرائم اتنے کم ہوتے ہیں کہ پورے ڈی آئی خان ڈویژن کے تھانوں میں اندراج ہونے والے جرائم سے گوجرانوالہ کے ایک تھانے کے جرائم زیادہ ہو تے ہیں۔

راقم نے وہاں تھانہ کی سطح پر مصالحتی کمیٹیاں بنانے کے علاوہ علمی اور ادبی سرگرمیوں کو فروغ دینے کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ اِس ضمن میں چند اصحابِ علم و دانش سے ملکر’’گومل تھنکرز فورم‘‘قائم کیا جس کی مہینے میں ایک بار میٹنگ ہوتی تھی جہاں ملک کے اہم مسائل پر سیرحال بحث ہوتی، حل تجویز کیا جاتا اور سفارشات مرتب ہوتیں۔ اس کے اجلاس پہلے سرکٹ ہاؤس میں ہوتے تھے مگر جب پولیس کا خوبصورت ریسٹ ہاؤس تعمیر ہوگیا تو اجلاس وہاں ہونے لگے۔
گومل تھنکرز فورم میں اسلم اعوان، ڈاکٹر شاہد مسعود اور جہانگیر خان جیسے دانشور اور ڈاکٹر عبداللہ شاہ اور ڈاکٹر عصمت اللہ جیسے نفیس لوگ بھرپور حصہ لیتے۔ اُن پر خلوص حضرات سے اُس وقت کی دوستیاں اور روابط ابھی تک قائم اور دائم ہیں۔ آجکل گومل تھنکرز فورم کے صدر ڈاکٹر شاہد مسعود جو ماہر ِنفسیات، اعلیٰ پائے کے ادیب ، دانشور اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں اور جنرل سیکریٹری اسلم اعوان ہیںجو معروف صحافی، کالم نگار، مصنف اور دانشور ہیں۔

چھ عرصہ قبل ڈاکٹر شاہد مسعود کی کتاب ’’جہانِ حیرت‘‘ موصول ہوئی۔ اُسوقت میں کچھ اور موضوعات پر کام کر رہا تھا، اس لیے پڑھ نہ سکا۔ اب پڑھی ہے تو واقعی ایک جہانِ حیرت کھل گیا ہے، جس میں قاری ڈوبتا چلا جاتا ہے۔ یہ پانچ ملکوں کے پانچ شہروں کا ایسا دلچسپ سفرنامہ ہے جو قاری کو ساتھ ساتھ لیے پھرتا ہے۔ یہ کتاب، جہاں معلومات کا بیش قیمت خزینہ ہے، وہاں یہ مستقبل کے سیاحوں کے لیے ایک مکمل گائیڈ ہے۔ مجھے ماسکو، سینٹ پیٹرزبرگ اور استنبول جانے کا اتفاق ہوا ہے مگر جس باریک بینی سے مصنف نے ان جگہوں کا مشاہدہ کیا ہے وہ میں نہ کرسکا۔

کتاب پڑھ کر میری معلومات میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ ڈاکٹر شاہد مسعود نے سینٹ پیٹرز برگ کے بارے میں بتایا ہے ’’اس شہر میں221میوزیم،81تھیٹرز، 82سینماہال ، 100 کنسرٹ ہال، 45آرٹ گیلریاں، 80 ثقافتی مراکز اور 200سے زائد لائبریریاںہیں۔ یہاں ہر سال سو سے زائد عالمی فیسٹیول ہوتے ہیں۔‘‘

مصنف نے دنیا بھر میں آرٹ اور پینٹنگز کے دوسرے سب سے بڑے میوزیم State Hermitage Museumاور ونٹر پیلس (جسکے سامنے 1905میں آزادی مانگنے والوں کا قتلِ عام کیا گیا اور جہاں سے 1917 میں سوشلسٹ انقلابیوں نے روس کے آخری زار کو گرفتار کیا تھا) کا ذکرکیاتو میرے ذہن میں 2011کی وہ یادیں تازہ ہوگئیں جب ہم لوگ وہاں دنیا کے عظیم پینٹرز اور مجسمہ سازوں کے تخلیقی شاہکار دیکھ کر واہ واہ کرتے رہے تھے۔ دوسری جنگِ عظیم میں جرمن فوجوں نے 900 روز تک اس شہر کا محاصرہ کیے رکھامگر شہر کے باسیوں اور محافظوں نے بہادری اور استقلال کی نئی تاریخ رقم کردی، جسکے نتیجے میں حملہ آورفوجیں روس کے برف زاروں میں دفن ہوگئیں۔

جاپان پہنچ کر مصنف ٹوکیو کے معروف ریلوے اسٹیشن شنجو کوکیسے فراموش کرسکتا تھا(ہم خود 1998 میں ٹوکیو گئے تو مسلسل تین ہفتے اس اسٹیشن سے ٹرینوں پر چڑھتے اور اترتے رہے)۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں، “یہ دنیا کا معروف ترین ریلوے اسٹیشن ہے جہاں سے روزانہ 36لاکھ سے زیادہ افراد سفر کرتے ہیں ۔

وسیع و عریض انڈر گراؤنڈ پلیٹ فارم، جاپانی خواتین کے مغربی لباس اور اونچی ہیل کے جوتوں کی ٹک ٹک سے گونجتا رہتا ہے‘‘۔ مصنف نے جہاں جاپان کی مادّی ترقی اور خوشحالی کا ذکر کیاہے وہاں اس معاشرے کا دوسرا پہلوبھی نظروں سے اوجھل نہیں رہا۔ وہ لکھتے ہیں، ’’لوگوںمیں ایک پرفسوں سی افسردگی اور آنکھوں میں دکھ محسوس ہوتا ہے۔ ایک یونیورسٹی پروفیسر نے بتایا، ’’ہمارا معاشرہ اور نظامِ تعلیم بہترین صنعتی کارکن تو پیدا کررہا ہے مگر معاشرے کی کوئی سمت، روح کو سکون پہنچانے والا کوئی ذریعہ اور کوئی منزل دکھائی نہیں دیتی۔ ایک خالی پن سااندر رہ گیا ہے۔ کوئی بنیادی مذہب، عقیدہ یا نظریہ نہیں ہے، شاید ان سوالات سے تنگ آکر ہر شخص کانوں پر ہیڈفون لگائے پھرتا ہے کہ اندر کی اور باہر کی آوازیں اس میں دب کر رہ جائیں۔‘‘

جاپانی معاشرے کی تصویر کشی کرتے ہوئے ایک اور جگہ مصنف لکھتا ہے ،’’ اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے سے ملنے کے بعد واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ یہ طبقہ امریکا اور امریکی معاشرے سے بہت متاثر ہے۔‘‘ ہم نے خود محسوس کیا تھاکہ جاپانی امریکا سے بری طرح مرعوب ہیںاور ان کا احساسِ کمتری شاید ہم سے بھی کچھ بڑھ کر ہے۔

اس احساسِ کمتری سے نکلنے کے فی الحال وہاں بھی اور یہاں بھی کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ ٹوکیو اور اوساکا کے بعد ڈاکٹر شاہد مسعود قارئین کو ایٹم بم کا نشانہ بننے والے دنیا کے پہلے شہر ھیروشیما کی بھی مکمل سیر کراتے ہیں۔ ایک جگہ لکھتے ہیں ،’’ پیس میوزیم کے وزٹ کا سب سے دکھ بھرا حصّہ ان ریکارڈ شدہ آوازوں کا سنناتھا جو حملے کے بعد تڑپتے، زخمی اور مرتے ہوئے بچوں اور بڑوں کی تھیں۔‘‘

ڈاکٹر صاحب نے کتاب میں استنبول کے حسن و جمال کا بھی خوب نقشہ کھینچا ہے اور قارئین کو اس کے سیاحتی مراکز یعنی آیا صوفیہ، توپ کاپی محل (جہاں نبی کریمﷺ کے اور خلفائے راشدینؓ کے ذاتی استعمال کی اشیاء رکھی گئی ہیں)، نیلی مسجد، حضرت ایوب انصاریؓ کا مزار اور استقلال اسٹریٹ کی بھی بھرپور سیر کرائی ہے۔

وہ ملکوں ملکوں کی سیر کرتے ہوئے لاہور پہنچتے ہیں اور لاہور سے فضائی پرواز کے ذریعے تیمور کے دیس تاشقند اور ثمرقند پہنچ جاتے ہیں۔ 25لاکھ آبادی کا شہر تاشقند ازبکستان کا دارالحکومت ہے ۔ امیر تیمور کو 1991 میں روسی تسلط سے آزاد ہونے والے اس ملک کا قومی ہیرو قرار دیا گیا ہے، اس کے مجسّمے شہر کے مختلف چوکوں اور پارکوں میں نظر آتے ہیں۔

میں بھی کئی سالوں سے ازبکستان جانے کا پروگرام بنا رہا ہوں تاکہ تیمور اور بابر کا پایہ تحت ثمرقند دیکھنے کے علاوہ اُس ہستی کے مزارِ اقدس پر حاضری دی جائے جسے مسلم دنیا امام بخاری ؒ کے نام سے یاد کرتی ہے اور جنہوں نے بے پناہ محنت کرکے ہزاروں احادیث جمع کیںاور مسلمانوں پر احسانِ عظیم کیا ، مگر فی الحال ڈاکٹر شاہد مسعود کی کتاب جہانِ حیرت کی دلچسپ تحریر پڑھ کر آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچا رہا ہوں۔ لکھتے ہیں، ’’امام ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل البخاری کا مزار اور اس کے ساتھ امام بخاری کمپلیکس ثمر قند شہر سے 30کلو میٹر دور ایک چھوٹے سے قصبے ہرتنک میں واقع ہے۔ امام بخاریؒ نے دنیائے اسلام کے دوردراز علاقوں میں مستند احادیث کے حصول کے لیے کئی طویل سفر کیے اور پھر اپنی زندگی کے آخری ایام یہیں اس چھوٹے سے گاؤں میں گزارے ۔ 870 میں وفات پائی اور یہیں مدفون ہوئے۔‘‘

مصنف روس، جاپان ، ترکی ، سینٹرل ایشیا سے ہوتا ہوا بھارت پہنچتا ہے جہاں وہ قارئین کو دہلی ، جے پور، اجمیرشریف اور آگرہ کی سیر کراتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب اجمیر شریف گئے جہاں خواجہ معین الدین چشتی ؒ (جو خواجہ غریب نواز کے لقب سے مشہور ہیں) کی درگاہ اور مزار ہے۔

تیرویں صدی میں یہ مردِدرویش سنجر ایران سے چلا اور لاہور سے ہوتا ہوا دور صحرا کے کونے پر بت کدۂ ہند میں آگیا اور اسی کی برکت سے اس پورے خطّے میں اسلام کی روشنی پھیلی۔ آگرہ میں ڈاکٹر صاحب نے تاج محل ہر زاویے سے دیکھا، دن کو بھی اور رات کو بھی اور پھر چودھویں کی رات کو بھی اس کا نظارہ کیا جس نے واقعی ایک حساس سیاح کو مسحور کرکے رکھ دیا۔ مصنف کے اسلوب میں سلاست اور روانی ہے جس نے کتاب کو دلچسپ اور معلومات افزاء بنادیاہے۔ اس کتاب کے ذریعے قارئین گھر بیٹھے دنیا کے اہم ترین شہروں کی سیر کر لیتے ہیں۔ سفر نامے کا کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ قارئین کے دل میں مذکورہ ملک یا شہر دیکھنے کا اشتیاق پیدا کردے ، اس میں ڈاکٹر شاہد مسعود پوری طرح کامیاب نظر آتے ہیں۔

RELATED BOOKS