WOH BARI ALIG THA YARO وہ باری علیگ تھا یارو- شخصیت و فن
WOH BARI ALIG THA YARO وہ باری علیگ تھا یارو- شخصیت و فن
PKR: 795/-
باری صاحب کو مُصلح بننے کا شوق تھا۔ اُن کی دلی آرزو تھی کہ وہ ایک بہت بڑے رہنما بن جائیں۔ ہر چوک میں اُن کا بُت نصب ہو۔ وہ کوئی ایسا کارنامہ سر انجام دیں کہ آنے والی تمام نسلیں یاد رکھیں مگر اُس کے لیے جرأت اور بے باکی کی ضرورت تھی، لیکن جب کبھی اُن سے ایسی جرأت اور بے باکی سرزد ہوجاتی تو وہ وضو کرکے نماز پڑھنا شروع کردیتے اور اس کی آلائشوں سے خود کو پاک صاف کرلیتے۔
وہ قینچی کو اُنگلیوں میں پھنسا کر اپنے خیالات و افکار کے زرد زرد کتابت شُدہ کاغذوں کو کاٹ کاٹ کر ساری عمر اپنی زندگی کی کاپی جوڑتے رہے مگر اُسے پتھروں پر کبھی منتقل نہ کرسکے۔ شاید اس خیال سے کہ وہ اِن کے بوجھ تلے پِس جائیں گے۔ اُن کو ہمیشہ کسی نہ کسی چیز کے پِس جانے کا خدشہ لاحق رہتا تھا حالانکہ وہ تمام کو پیس کر سُفوف بنانا چاہتے تھے اور اس سُفوف کو نسوار کے طور پر استعمال کرنے کے خواہشمند تھے۔
وہ انگریزوں کے سخت دشمن تھے لیکن طُرفہ تماشا ہے کہ جب انگریز چلا گیا تو وہ اُسی کے نوکر ہوگئے۔ انہوں نے "کمپنی کی حکومت" جیسی باغیانہ کتاب لکھی لیکن اس کمپنی کے سابق ٹھیکیداروں کی ملازمت میں اُنہوں نے اپنی زندگی کے چند آخری اور بڑے قیمتی برس گزارے۔
باری صاحب بہت معمولی باتوں پر خوش ہوجایا کرتے تھے، بالکل بچوں کی سی خوشی ہوتی تھی۔ اُس میں تالیاں پیٹنے کا شور ہوتا تھا۔ اُن کی توند بڑھی ہوئی تھی جب وہ ہنستے تھے تو یہ بھی ہنسا کرتی تھی۔
( سعادت حسن مَنٹو کی کتاب "گنجے فرشتے" سے اقتباس )