ASMA E ELAHIYA KAY ASRAR O MAANI - ARABIC WITH URDU اسمائے الٰہیہ کے اسرار و معانی ۔ عربی متن مع اردو ترجمہ
PKR: 1,450/-
Author: SHEIKH AKBAR MOHAYYUDDIN MUHAMMAD IBN AL ARABI
Tag: ABRAR AHMED SHAHI
Categories: ISLAM SUFISIM TASAWUF / MYSTICISM
Publisher: IBN AL ARABI FOUNDATION
کشف المعنی (اسمائے الہیہ کے اسرار و معانی)؛ ایک تعارف
اللہ تعالی فرماتا ہے: ﴿وَلِلَّـهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا﴾[الأعراف: 180] بیشک اللہ کے خوبصورت نام ہیں سو اِن ناموں سے اُسے پکارو، اور فرمایا: ﴿قُلِ ادْعُوا اللَّـهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَـٰنَ أَيًّا مَّا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى﴾ (الإسراء: 17) چاہے اللہ کے نام سے پکارو یا الرحمن کے نام سے پکارو، اُسے جس نام سے پکارو تو اُس کے سب نام اچھے ہیں۔ بقول شیخ یہ اسما "اسما کے اسما" ہیں، کائنات کی ابتدا ہیں اور نسبتوں کی جا ہیں۔ یہ جامعیت کی نسبت سے ذات پر دلالت کرتے ہیں لیکن انفرادی طور پر ہر اسم کا مفہوم جدا ہے۔ بقول شیخ یہی اسما اعیان کائنات ہیں کہ جب حق نے ان اسما کے اعیان کو دیکھنا چاہے تو کائنات کو ایجاد کیا۔ پھر کائنات میں ان کا اثر یوں ہے کہ ہر بندہ اسم الہی کے ظہور کی جا ہے، اور انہی اسما میں سے کوئی اسم اس کے حال پر حاکم ہے۔
انہی اسما سے تعلق، تحقق اور تخلق کا ہمیں حکم ہے:
اسم سے تعلق؛ یہ اِس حیثیت سے تیرا اِن اسما کا مطلق محتاج ہونا ہے جس (حیثیت) سے یہ ذات پر دلالت کرتے ہیں۔
اسم سے تحقق؛ تحقق حق تعالیٰ کے لحاظ سے اور خود تیرے لحاظ سے اِن کے حقیقی معانی کا جاننا ہے۔
اسم سے تخلق؛ جبکہ تخلق یہ ہے کہ تو ان سے ویسے قائم ہو جو تیرے لائق ہے، جیسا کہ یہ (اسما) اُس پاک ذات سے ویسے منسوب کیے جاتے ہیں جیسا اُس کے شایان شان ہے۔
کتاب املائی انداز میں لکھوائی گئی ہے اور مختصر انداز میں حقائق کی طرف اشارات کیے گئے ہیں۔ اب بغیر کسی سابق فہم کے ان اشارات کو سمجھنا ممکن نہیں۔ اگر قاری اسمائے حسنی اور کائنات پر اِن کے اثرات سے ناواقف ہے تو وہ اِن اسما کے حقائق سے بھی شناسا نہیں، اور جو اسما کے حقائق نہیں جانتا وہ انہیں سمجھ بھی نہیں سکتا، اپنانا تو دور کی بات ہے۔
عربی متن کی تدوین اور اردو ترجمہ
ہمیں جب کتاب کا عربی متن میسر آیا تو یہ ہسپانوی محقق پابلو بانیٹو کا تحقیق شدہ ایڈیشن تھا جو انہوں نے ایک سے زائد عربی مخطوطات سے اخذ کیا تھا۔ ابتدائی طور پر دیکھنے سے ہمیں یہ متن کافی حد تک بہتر معلوم ہوا اور لگا کہ اب اس متن کی دوبارہ سے تحقیق کی ضرورت نہیں کیونکہ پابلو بانیٹو نے اسے کافی بہتر انداز میں پیش کیا تھا اور یہ آپ کا ہسپانوی زبان میںphd کا تھیسس تھا۔ لیکن جب ہم نے اللہ کا نام لے کر ترجمہ شروع کیا تو ہمیں متن میں منہج کا فرق نظر آیا جس کو استعمال میں لا کر کوئی محقق تدوین کا کام کرتا ہے۔ اس متن میں ہمیں یہ بات نمایاں نظر آئی کہ محقق نے ہر مخطوط کے ہر لفظ کو اصل عبارت میں لکھ رکھا ہے۔ یہ منہج ہمارے منہج تحقیق سے جدا تھا؛ کیونکہ ہم مخطوطات کی درجہ بندی کے بعد صرف اسی مخطوط کو اصل متن میں لکھتے ہیں جس کی نسبت حتمی ہو اور جس میں غلطی کی گنجائش کم ہو۔ اگر کہیں کہیں اس مخطوط سے انحراف بھی کرنا پڑے تو ہر طرح کا یقین کر لینے کے بعد ہی ایسا ہو۔ اس وقت میرے پاس اس کتاب کے دو مخطوط موجود تھے، لہذا ہم نے دوبارہ سے مکمل عربی متن چیک کرنے کی ٹھانی۔ یہ بات واضح رہے کہ مخطوطات کا انتخاب ہی کسی متن میں سب سے اہم کام ہوتا ہے، چونکہ ہمارے پاس وہ مخطوطات بھی تھے جو پابلو بانیٹو کے پاس نہ تھے لہذا متن میں فرق کا ظاہر ہونا عام بات تھی۔ اب ہم نے تہیہ کیا کہ اس کتاب کا ایک نیا متن مدون کیا جائے تاکہ عربی متن کو بھی ان قدیمی مخطوطات سے ہم آہنگ کیا جا سکے۔ ہم نے ابن عربی سوسائٹی کی لائبرین محترمہ جین کلارک کو اپنے ارادے سے آگاہ کیا، انہوں نے ہماری طلب پر لبیک کہا اور ہمیں مزید تین مخطوطات ارسال کر دئیے۔ کتاب کا عربی مسودہ تیار ہوا اور نظر ثانی، تصحیح اور تحقیق کے لیے مخطوطات کے ساتھ استاذ عبد العزیز منصوب کو یمن روانہ کر دیا گیا۔ آپ نے انتہائی کم وقت میں اپنی ٹیم کے ہمراہ اس کو مکمل چیک کیا اور حتمی متن تیار کر کے ہمارے حوالے کیا۔
عربی متن کو نئے سرے سے مرتب کر لینے کے بعد بھی کتاب آسان معلوم نہ ہوتی تھی۔ اس کے بعد اردو ترجمے کو دوبارہ عربی متن سے ملا کر چیک کیا گیا اور جس جس مقام پر غلطی نظر آئی اسے ٹھیک کیا گیا، شرح میں بھی مشکل مقامات مزید آسان کیے گئے۔ جو عربی عبارات پھر بھی سمجھ سے بالاتر رہیں انہیں عبد العزیز المنصوب کو بھیجا گیا تاکہ وہ ان مقامات کی شرح کر دیں اور ہم اِسے سمجھ کر آسان زبان میں ترجمہ کر لیں۔ اس محبت اور محنت کے باوجود بھی اگر کوئی کمی یا کوتاہی رہ گئی ہو، یا ہم نے عربی متن ویسے پیش نہ کیا ہو جیسا کہ شیخ کی مراد تھی تو ہم ان سے معافی کے خواستگار ہیں۔ قارئین سے بھی یہ گزارش ہے کہ وہ اگر کہیں لفظی یا معنوی غلطی پائیں تو ہمیں آگاہ کریں تاکہ اگلے ایڈیشن میں اسے ٹھیک کر دیا جائے۔
حواشی
مسودہ مکمل ہونے کے بعد ہمیں لگا کہ اس کتاب کو شرح کے بغیر سمجھنا تو ممکن ہی نہیں۔ یوں ہم نے شرح اور حاشیہ بندی کی ٹھانی، اس سلسلے میں شیخ اکبر کی ہی دیگر کتب سے مدد لی گئی۔ خاص طور پر فتوحات مکیہ کیونکہ شیخ اکبر نے اس کے باب نمبر 558 میں حاضرات اسما کافی تفصیل سے ذکر کیے ہیں۔ چنانچہ اس باب سے ہمیں کافی مدد ملی، ہم نے اس کتاب کے مشکل مفاہیم کو سامنے رکھا اور پھر موضوع کی مناسبت سے جو کچھ ہمیں اللہ کی توفیق سے سمجھ آیا اُسے حاشیے میں نقل کر دیا۔ اس عمل کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ وہ لوگ – جن میں ہم بھی شامل ہیں – جو ان مفاہیم سے واقف نہیں وہ کسی حد تک ان سے واقف ہو جائیں اور اُن پر اِن کا سمجھنا آسان ہو، حالانکہ نہ یہ مفاہیم آسان ہیں اور نہ ہی وہ انداز جس میں انہیں بیان کیا گیا ہے۔
اشاعتی معیار
ہم آپ حضرات کو یہ یقین دہانی بھی کروانا چاہتے ہیں کہ آپ کے ہاتھوں میں موجود یہ ایڈیشن اس وقت روئے زمین پر اِس کتاب کا بہترین؛ قدیمی مخطوطات سے اخذ شدہ مستند ترین اور مصدقہ ایڈیشن ہے۔ ہم نے عبارت کو اشاعت کے بنیادی اصولوں سے مزین کر کے شائع کیا ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:
1. عربی عبارت میں موجود تمام قرآنی آیات کی تخریج کی گئی ہے۔
2. کتاب کا مکمل عربی متن دیا گیا ہے تاکہ وہ حضرات جو اردو نہیں جانتے اور عربی متن تک رسائی حاصل کرنا چاہتے ہیں اُن کے لیے آسانی ہو۔
3. کتاب کا ترجمہ نہایت سلیس رکھا گیا ہے اور ہر مشکل عربی لفظ کے مقابل اردو لفظ لانے کی کوشش کی گئی ہے، الاّ یہ کہ وہ شیخ اکبر کی اصطلاح ہو۔ اردو ترجمے میں مفاہیم کی روانی اور سلاست پر توجہ دی گئی ہے لیکن بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر مکمل ترجمہ کماحقہ کرنا ممکن نہیں۔ عربی متن ساتھ پیش کرنے کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے کہ دلیل پکڑنے کی غرض سے اصل عربی سے رجوع کیا جائے اور ترجمے کو صرف فہم کا ایک ذریعہ سمجھا جائے، بلکہ جو حضرات عربی پڑھنے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں انہیں عربی متن ہی پڑھنا چاہیے۔
4. علوم شیخ اکبر کے ترجمے کا حق ادا کرنا تو کسی کے بس کی بات نہیں، ہم نے اپنی سی کوشش کی ہے کہ ترجمہ علوم شیخ اکبر کی عمومی فہم کے مطابق سلیس اور آسان ہو لیکن اگر کسی مقام پر ہم عربی متن اور ترجمے کو شیخ اکبر محی الدین ابن العربی – رحمہ اللہ – کی مراد کے مطابق پیش نہیں کر سکے تو ہم آپ سے معافی کے خواستگار ہیں۔
5. کتاب کو بڑے سائز پر بہترین صورت میں شائع کیا گیا ہے۔ اشاعتِ کتاب کے سلسلے میں بین الاقوامی معیار کو سامنے رکھا گیا ہے۔