AZADI E HIND آزادئ ہند
PKR: 2,500/- 1,750/-
Author: ABUL KALAM AZAD
Translator: SHAMIM HANFI
Pages: 383
ISBN: 978-969-662-305-2
Categories: HISTORY AUTOBIOGRAPHY PARTITION 1947 TRANSLATIONS
Publisher: BOOK CORNER
1959ء- پہلی مرتبہ مختصر متن انگریزی میں "India Wins Freedom" کے ٹائٹل سے دہلی (ہندوستان) سے ادارہ ’اورینٹ لونگ مین لمیٹڈ‘ نے شائع کیا۔
1988ء- تیس صفحات کے اضافے کے ساتھ ہمایوں کبیر کا مرتب کردہ مکمّل متن ادارہ ’اورینٹ لونگ مین لمیٹڈ‘ نے ہی انگریزی میں شائع کیا۔
1991ء- شمیم حنفی نے ہمایوں کبیر کا مرتب کردہ مکمّل متن اُردو میں منتقل کیا جسے ’’ہماری آزادی‘ کے نام سے ’اورینٹ لونگ مین لمیٹڈ‘ نے شائع کیا۔
2020ء- شمیم حنفی کا ترجمہ ’’آزادئ ہند‘‘ کے نام سے جہلم (پاکستان) سے ’بک کارنر‘ نے نستعلیق کمپوزنگ، تصاویر اور جدید طباعت کے ساتھ شائع کیا۔
-----
’’انڈیا ونس فریڈم‘‘ نے آخرکار خود اپنی آزادی جیت لی۔ اس خودنوشت بیانیے کا مکمّل متن، مہربند کرکے نیشنل لائبریری کلکتہ اور نیشنل آرکائیوز نئی دہلی میں تیس برس تک محصور رکھا گیا۔ 1958ء میں ’’راوی‘‘ مولانا ابوالکلام آزاد اور ’’راقم‘‘ ہمایوں کبیر نے اشاعت کے لیے ایک قدرے مختصر اور نظرثانی شدہ مسودہ پیش کیا تھا جس میں سے ایسے واقعات اور تاثّرات جو بالخصوص ذاتی نوعیت کے تھے، الگ کر دیے گئے تھے۔ اشاعت کے پہلے ہی سال میں اس مسودے کے تین بڑے ایڈیشن نکلے اور اس وقت سے یہ بارہا شائع کیا جا چکا ہے۔ اب ہمارے سامنے مکمّل متن ہے جسے ایک عدالتی ہدایت کے ذریعے ستمبر 1988ء میں رہائی ملی۔ نہ صرف یہ کہ اصل عبارت کے تمام الفاظ اور فقرے جوں کے توں پیش کر دیے گئے ہیں بلکہ عبارت کا اصل لہجہ اور مزاج بھی پوری طرح بحال کر دیا گیا ہے۔ یہ متن اب اس امر کا انکشاف کرتا ہے کہ اب تک کے غیرشائع شدہ صفحات کے بارے میں بہت مدّت سے جو قیل و قال جاری تھی، وہ پوری طرح حق بجانب تھی۔ جنھوں نے پرانا ایڈیشن پڑھ رکھا ہے انھیں ایسے نکات کا اندازہ فوراً ہو جائے گا جن کے باعث یہ بیانیہ سابقہ بیانیے سے مختلف ٹھہرتا ہے۔
---
مولانا ابو الکلام آزاد (1888ء -1958ء) کا نام پیدائش پر فیروز بخت رکھا گیا مگر جوانی میں وہ محی الدین احمد کے نام سے جانے گئے اور اُس کے بعد انھوں نے ابو الکلام آزاد کا قلمی نام اختیار کیا۔ اُن کا تعلق ایک ایسے خاندان سے تھا جو بابر کے زمانے میں ہرات سے ہندوستان آیا۔ ان کے بزرگوں میں معروف علما اور عہدےدار شامل تھے۔ مکہ معظمہ میں ان کی پیدائش کے دو برس بعد، جہاں ان کے والد مولانا خیر الدین 1857ء کے غدر کے بعد ہجرت کر گئے تھے، ان کے خاندان نے کلکتے میں اقامت اختیار کر لی۔ آزاد کو ابتدائی تعلیم گھر پر اپنے والد اور پرائیویٹ اساتذہ سے ملی۔ ان کی سیاسی بیداری کو 1905ء میں بنگال کی تقسیم (جو بعد میں مسترد کر دی گئی) سے تحریک ملی۔ اُنھوں نے عراق، مصر، ترکی اور فرانس میں دُور دُور تک سفر کیے۔ مولانا آزاد نے جولائی 1912ء میں کلکتے سے اُردو ہفتہ وار ’’الہلال‘‘ کا اجرا کیا۔ انھوں نے جدوجہدِآزادی میں علی گڑھ کے علیحدگی کے رویے کی مخالفت کی ۔ یورپ میں 1914ء کی لڑائی چھڑنے پر ان کا اخبار پریس ایکٹ کے تحت بند کر دیا گیا۔ اس کے بعد نومبر 1915ء میں، کلکتے ہی سے انھوں نے ایک اور اُردو ہفتہ وار ’’البلاغ‘‘ جاری کیا۔ مارچ 1916ء میں ڈیفنس آف انڈیا رولز کے تحت آزاد کی شہر بدری تک برابر نکلتا رہا۔ بمبئی، پنجاب، دہلی اور صوبہ جات متحدہ کی سرکاروں نے ان کے داخلے پر پابندی لگا دی اور وہ بہار چلے گئے۔ یکم جنوری 1920ء تک وہ رانچی میں نظر بند رہے۔ رہائی کے بعد آزاد کو (1920ء کے کلکتہ اجلاس میں) آل انڈیا خلافت کمیٹی کا صدر اور 1924ء میں دہلی کی اتحاد کانفرنس کا صدر منتخب کیا گیا۔ انھوں نے 1928ء میں نیشنلسٹ مسلم کانفرنس کی صدارت کی۔ 1923ء میں، بعد ازاں 1940ء وہ انڈین نیشنل کانگریس کے صدر منتخب کیے گئے اور اس منصب پر 1946ء تک فائز رہے۔ 1946ء میں انھوں نے برٹش کیبنٹ مشن سے کانگریس پارٹی کے مذاکرات کی قیادت کی۔ اس کے بعد آزاد ہندوستان کی پہلی حکومت میں وزیرِ تعلیم کی حیثیت سے شامل ہوئے اور وہ اس منصب پر 22 فروری 1958ء کو اپنے انتقال تک کام کرتے رہے۔ان کی دوسری مطبوعہ کتابوں میں ’’البیان‘‘ (1915ء) اور ’’ترجمان القرآن‘‘ (1933ء-1936ء) جو تفسیریں ہیں، ’’تذکرہ‘‘ (1916ء) جو خودنوشت سوانح ہے اور ’’غبارِ خاطر‘‘ (1943ء) جو مکاتیب کا مجموعہ ہے، شامل ہیں اور یہ تمام کتابیں اُردو میں ہیں۔
---
ہمایوں کبیر (1906ء - 1969ء) کلکتہ اور آکسفرڈ یونیورسٹی میں ایک ممتاز تعلیمی کیریئر کے بعد وہ پہلے والٹیئر کے مقام پر آندھرا یونیورسٹی میں، اور پھر کلکتہ یونیورسٹی میں لیکچرر کی حیثیت سے 1933ء تا 1945ء کام کرتے رہے۔ 1937ء میں انھیں بنگال لیجسلیٹو کونسل کے لیے کسان پارٹی کے قائد کی حیثیت سے منتخب کر لیا گیا۔ 1946ء میں آزاد نے ان کا انتخاب اپنے سیکریٹری کے طور پر کیا۔ چنانچہ آزاد سے ان کا قریبی تعلق رہا۔ حکومت ہند کے مشیرِ تعلیم کی حیثیت سے وہ 1956ء تک کام کرتے رہے، پھر وہ مستعفی ہوگئے اور 1957ء میں وہ کانگریس پارٹی کے ایک رکن کی حیثیت سے پارلیمینٹ کے لیے چن لیے گئے۔ انھیں (1957ء - 1958ء) وزیر برائے شہری ہوابازی، (1958ء - 1963ء) وزیر برائے سائنسی تحقیقات اور ثقافتی امور اور (1963 ء تا 1968ء) وزیربرائے پٹرولیم اور کیمیکلز مقرر کیا گیا۔ انگریزی اور بنگلا زبانوں میں وہ بیس سے زیادہ کتابوں کے مصنف ہیں جو فلسفے، ادبیات، سیاسیات اور ثقافت کے موضوعات پر لکھی گئیں۔ ان کے دو ناول اور تین شعری مجموعے بھی شائع ہوئے۔
---
شمیم حنفی (17 مئی 1938ء) اُردو کے ایک معروف نقاد، ڈراما نگار، مترجم اور شاعر ہیں۔ سلطان پور (یو پی) میں پیدا ہوئے اور ابتدائی زندگی وہیں پر گزاری۔ الٰہ آباد یونیورسٹی سے ایم اے اُردو اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ ان کے اساتذہ میں ستیش چندردیب، فراق گورکھپوری، احتشام حسین اور اعجاز حسین ایسے صاحبانِ علم وفضل شامل تھے۔ چھ برس علی گڑھ یونیورسٹی میں تدریس سے متعلق رہنے کے بعد 1976ء میں جامعہ ملیہ اسلامیہ سے وابستہ ہو گئے، جہاں 2003ء میں اپنی ریٹائرمنٹ تک پڑھایا۔ اس کے بعد سے اسی تعلیمی ادارے میں پروفیسر ایمریطس کی حیثیت سے منسلک ہیں۔ شمیم حنفی کاشمار عہدِ حاضر کے اہم ترین ناقدین میں ہوتا ہے۔ ان کی تنقید بھی اپنے ہم عصروں سے کئی سطحوں پر مختلف ہے۔ ان کے یہاں تنقید لکھنے کا عمل ایک معنی میں وسیع تر تخلیقی سرگرمی سے عبارت ہے۔ فن پاروں کے اسرار تک پہنچ جانے کی جو چند مثالیں اُردو تنقید میں ملتی ہیں ان میں شمیم حنفی کی تحریریں بھی شامل ہیں ۔ایک گہرا وجودی طرزِ فکر واحساس ان کی تحریروں کی شناخت کے طور پر ابھرتا ہے۔ ان کے اُردو تراجم میں زیرِنظر کتاب کے علاوہ ’قومی یکجہتی اور سیکولرازم‘‘ (ڈاکٹر تاراچند کے خطابات)، ’’یادوں کا اُجالا‘‘ (ڈاکٹر بھگوان سنگھ کی خودنوشت)، ’’شہرِ خُوں آشام‘‘ (معاصر بنگالی زبان کی شاعری)، ’’منتخب تحریریں: جدوجہد کے سال‘‘ (پنڈت جواہر لعل نہرو کی تحریر Years of Struggle کا ترجمہ) شامل ہیں۔ شمیم حنفی ایک شاعر، نقاد، ڈراما نگار اور مترجم ہونے کے ساتھ ساتھ کئی عملی فنون، مصوری، کمہار کے فن وغیرہ میں بھی گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔