DASTAN E HAREM SARAA داستان حرم سرا
PKR: 1,500/- 1,050/-
Author: NISHAT SULTANA
Tag: NISHAT SULTANA
Pages: 328
ISBN: 978-969-662-258-1
Categories: HISTORY AUTOBIOGRAPHY
Publisher: BOOK CORNER
نشاط خانم جارجیا کے ایک مسلمان قبیلے کے سردار کی لڑکی تھی۔ خوبصورت، سمن بر، پری پیکر۔ اس کے جمال و رعنائی کو آسمان کے تارے جُھک جُھککر دیکھتے تھے۔ اس کی برنائی اور زیبائی کے سامنے چاند ماند تھا۔ وہ شہسوار تھی، قادر انداز تھی۔ وہ وادیوں کی سیر کرتی، کوہستانی علاقوں میں بُوئے گل کی طرح عنبر افشانی کرتی لیکن ایک روز اس کی شاندار حویلی پر قزاقوں نے حملہ کیا۔ وفادار اور جاںنثار خادمائوں اور غلاموں نے خون کے آخری قطرے تک حقِ وفا نبھایا۔ خود نشاط خانم آخر وقت تک بندوق اور پستول چلاتی رہی۔ آخر وہ گرفتار کر لی گئی۔ گرفتار ہو کر غلاموں کے بازار میں پہنچی، نیلام ہوا، اور سَو اشرفی میں وہ خرید لی گئی۔ وہ قسطنطنیہ لے جائی گئی جو خلافتِ عثمانیہ اور حکومتِ ترکیہ کا پایۂ تخت تھا۔ یہاں وہ حَرم سرا میں باندی کی حیثیت سے داخل ہوئی اور ایک روز سلطان عبدالحمید ثانی کی منظورِ نظر بن کر نہ صرف حَرم سرا کی ملکہ، بلکہ سارے مُلک کی فرماںروا بن گئی۔
قسمت کا کھیل! .....عثمانی سلطان اور اس کی حَرم سرا کے بارے میں افواہوں، سازشوں اور جھوٹ پر مبنی بہت سی داستانیں انگریزوں نے لکھی ہیں، جن کا ایک حرف بھی سچ نہیں۔ نشاط سلطانہ نے اپنی سرگزشتِ حیات "My Harem Life" کے نام سے لکھی ہے جو دلچسپ بھی ہے، سبق آموز بھی اور عبرت انگیز بھی! یہ ناول بھی ہے اور تاریخ بھی!.....ناول سے زیادہ دلچسپ اور تاریخ کی طرح مستند!.....اس میں محلات کی سازشیں، حَرم سرا کی زندگی، ترکوں میں آزادی اور استقلال کی تحریک، سلطان کی معزولی، نئی حکومت کے قیام اور نئی ترک عورت کی کہانی نشاط خانم نے لکھ کر قلم توڑ دیا ہے۔ کتاب اتنی دلچسپ ہے کہ ایک مرتبہ شروع کرنے کے بعد ختم کیے بغیر چین نہیں آ سکتا۔
(رئیس احمد جعفری)
داستاں بھی نہیں داستانوں میں
عثمانی سلطنت کی شیرازہ بندی ٹوٹی تو کتنے ہی کردار بکھر کر رہ گئے۔ کچھ تاریخ کی سرخیوں میں آئے، کچھ کے ماتھوں پر ذلت رقم کر دی گئی اور چند بد نصیب ایسے بھی ٹھہرے جنھیں تاریخ نے اپنے صفحات میں جگہ بھی دینا مناسب نہیں سمجھا۔
زیرِ نظر کتاب کی مصنفہ عثمانی سلطنت کا ایسا ہی کردار ہے جو اپنی شناخت کھو کر طاقِ نسیان میں دھرا ہے۔ نشاط سلطانہ کی شناخت اس حد تک گُم ہوچکی ہے کہ اس کی لکھی خودنوشت "My Harem Life" کا بطور حوالہ بھی کسی کتاب میں ذکر شاذ ہی ملتا ہے۔
نشاط سلطانہ کون تھی، یہ تحقیق طلب مسئلہ ہے۔سرِدست اس کی اپنی خودنوشت کے مطالعے کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ جارجیا کے کوہستانی علاقے کی رہنے والی تھی جسے رہزنوں نے اغوا کر کے استنبول کے بازارِ غلاماں میں لا بیچا اور یہاں اس کا خریدار کوئی اور نہیں بلکہ حرمِ عثمانیہ کے چیف خواجہ سرا قیزلر آغا کا معاون تھا، جس نے اسے حرمِ سلطانی کے لیے پیش کر دیا۔ یہ’ خرید ‘ والدۂ سلطان پرستو قادین کی نظر میں پسندیدہ ٹھہری اور انھوں نے نشاط کی شاہی آداب میں تربیت اور مختلف فنون و علوم سکھانے میں خصوصی دلچسپی لینا شروع کر دی۔
نشاط جو اغوا کے بعد اپنے نصیب کی سیاہ بختی پر کُڑھتی و شاکی رہتی تھی، یک لخت اوجِ کمال کی سیڑھیاں چڑھنے لگی اور ترقی کے مختلف مدارج طے کرتے کرتے حرم سرا میں مناسبات کے شعبے کی انچارج بنا دی گئی؛ اب اس کی مرضی کے بغیر نہ تو حرم سرا سے کوئی گزارش باہر جا سکتی تھی، نہ کسی کی عرض داشت منظور ہو سکتی تھی۔ مستزاد یہ کہ سازشوں و رقابتوں سے رچے اس ماحول میں وہ اپنی صاف دلی کے سبب والدۂ سلطان کے بہت قریب ہوگئی، جو عثمانیوں کی حرم سرا میں سب سے مقتدر ہستی تھیں۔ والدۂ سلطان پرستو قادین نے نشاط کو اپنے لے پالک بیٹے اور چونتیسویں عثمانی سلطان، عبدالحمید ثانی کو پیش کیا جسے سلطان نے قبولیت بخشی۔ یہ نشاط سلطانہ کا اوج تھا... اونچائی کی وہ حد جس کے بعد زوال منہ کھولے کھڑا تھا۔
سلطان عبدالحمید ثانی کا آسان ترین تعارف یہی ہو سکتا ہے کہ وہ عثمانی سلطنت کا اورنگ زیب عالمگیر تھا، یعنی اس کا آخری ’مقتدر‘ بادشاہ۔ افسردہ آنکھوں والا یہ سلطان جس پر بچپن سے ہی الم ناکی نے اپنا جالا بننا شروع کر دیا تھا کہ اس کی سگی ماں بچپن میں ہی چل بسی، سگے بہن بھائی بھی زندگی کی چند بہاروں سے زیادہ نہ دیکھ سکے اور جب تخت ملا تو پے در پے مشکلات نے سلطان کی اقتدار پر گرفت کمزور کر دی۔ پھسلتی ریت کو مُٹھی میں رکھنے کے لیے جتنا زور سلطان نے لگایا، اس نے سلطنت کی چولیں ہلا دیں۔ سیاسی حالات ایسےگنجلک ہوئے کہ سلطان کو معزول کر کے سالونیکا (Salonica) ’جلا وطن‘ کر دیا گیا اور نشاط سلطانہ، جس کا ستارہ اوجِ کمال پر پہنچا ہی تھا، یک لخت ڈوب گیا۔
کچھ عرصہ قبل موجودہ ترک صدر رجب طیب ایردوان کی اہلیہ کے اس بیان نے ترکی و یورپی پریس میں خاصی ہلچل مچائی کہ عثمانی سلاطین کی حَرم سرا ایک تعلیمی انسٹیٹیوشن اور اچھی چیز تھی۔ خاتونِ اوّل کا یہ بیان اس کتاب میں درج واقعات کی روشنی میں خاصا درست معلوم ہوتا ہے۔ اخبارات میں ہوئی تنقید کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ یورپی مستشرقین نے عثمانیوں کی حَرم سرا کو اپنے تخیل کی قباحتوں سے خوب ’رنگین ‘ کیا ہے، جب کہ درحقیقت حرم سرا ایک ایسا عزلت خانہ تھا جس کے بارے میں استنبول کے باسی بھی زیادہ نہیں جانتے تھے، چہ جائیکہ سینکڑوں میل دُور یورپی دارالحکومتوں میں بیٹھے علما کو درست خبر مہیا ہوتی۔ یہ تو عام، سب کی دیکھی بھالی بات ہے کہ جس چیز کے بارے میں معلومات کم ہوں اور تجسس زیادہ ہو تو خبروں کےاس فقدان کو افواہ سازی و رنگین کاری سے پُر کیا جاتا ہے کہ کچھ تو گلشن کا کاروبار چلتا رہے۔ یہی ستم عثمانی حَرم سرا پر بھی ڈھایا گیا۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ جو دانستہ یا نا دانستہ، مصدقہ یا غیر مصدقہ باتیں عثمانی حَرم سرا پر لکھی گئیں تھیں، امتدادِ زمانہ نے ان کو تاریخ کے مسند پر بٹھا کر سچ کی سند عطا کر دی ہے۔ حَرم سرا کا تاثر عوام میں کچھ اس ڈھب کا بن چکا ہے کہ جب بھی حَرم سرا کا ذکر ہو تو اس قصے کو سنجیدہ محفلوں میں دوہرایا نہیں جا سکتا۔
۱۹۰۵ء میں سلطان عبدالحمید ثانی کے ہی دَور میں ترکی کی معاشرت پر خالد خلیل کی یادداشتیں "The Diary of a Turk" کے نام سے منظر عام پر آئی (اس کا اُردو ترجمہ بھی بک کارنر کے پلیٹ فارم سے جلد ہی ہدیۂ قارئین کیا جا رہا ہے)، اس کتاب میںخالد خلیل نے حَرم سرا کا منظرنامہ کچھ ان الفاظ میں پیش کیا:
’’ترکی میں وہ حصۂ مکان جہاں مستورات رہتی ہیں حرم کہلاتا ہے اور مردوں کے حصۂ مکان کو سلاملق کہتے ہیں جو کہ عام ملاقات کے لیے مخصوص ہوتا ہے۔ گو مکان کی تمام مستورات کو مجموعی طور پر حَرم ہی کہتے ہیں تاہم اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ سب صاحبِ خانہ کی بیبیاں ہیں۔ ہر شخص کی زوجہ، والدہ، ہمشیرہ، دختر نیز وہ عورتیں جو شرعاً بلانقاب اس کے سامنے ہو سکتی ہوں، اس کے حرم میں داخل ہیں۔ ہر خاندان میں مفصلۂ ذیل اشخاص کو حرم سرا میں داخل ہونے کی اجازت ہے۔ صاحبِ خانہ، اس کے بیٹے، والد، خسر اور نسبتی بھائی۔ بڑے بڑے شہروں مثل قسطنطنیہ، سمرنا اور ادرنہ میں لوگ اپنے دُور کے رشتے داروں کو بھی اندر جانے کی اجازت دے سکتے ہیں اور جو کہ یورپین رسم و رواج اختیار کرتے ہیں، اپنے گہرے دوستوں کو بھی داخل کر سکتے ہیں، لیکن پرانی وضع کے خاندانوں میں جو کہ آبادی کا سب سے بڑا حصہ ہیں، صاحبِ خانہ کا کوئی مرد رشتے دار تیرہ یا چودہ برس کی عمر کے بعد حرم سرا میں نہیں جانے پاتا اگر اس سے اور دختر صاحبِ خانہ یا دوسری قابل نکاح لڑکیوں سے شادی ہونا ممکن ہو۔ یہ پابندیاں متمول اشخاص میں زیادہ تر ہیں۔ ایسے خاندانوں میں حرم سرا اور مردان خانہ میں ایک گھومنے والی الماری کے ذریعہ سے کاروبار عمل میں آتا ہے اور پارسل اور کھانے کے برتن منگائے یا بھیجے جاتے ہیں۔ یہ الماری اس دیوار میں سوراخ کر کے لگائی جاتی ہے جو کہ مردان خانہ کو حرم سرا سے جدا کرتی ہے۔ عورتوں کو مردوں کی نظر سے بچانے کے لیے ایک اور ترکیب یہ کی جاتی ہے کہ حرم سرا کی کھڑکیوں میں جالی لگاتے ہیں جس کا یہ منشا ہوتا ہے کہ عورتیں تو باہر کی ہر شے اس جالی کے پیچھے سے دیکھ سکتی ہیں، لیکن کوئی مرد قریب کی سڑکوں، باغوں اور مکانوں سے انھیں نہیں دیکھ سکتا۔‘‘
اُردو میں غالباً عثمانیوں کی شاہی حَرم سرا سے معنون کوئی بھرپور کتاب موجود نہیں۔ اس لحاظ سے اس کتاب کی حیثیت بارش کے پہلے قطرے کی سی ہے جو تاریخ کی ’تحریف شدہ‘ زمین پر جب پڑے گا تو اسے صاف توکرے گا ہی، کیا پتا مذکورہ موضوع پر مزید تحقیق کا شوق ابھارنے میں بھی ثمر آور ثابت ہوسکے۔
اس کتاب کو اُردو میں جناب رئیس احمد جعفری مرحوم نے ترجمہ کیا ہے جو اپنی سند آپ ہیں۔ پہلی مرتبہ یہ کتاب ۱۹۵۹ء میں ’’سلطانہ‘‘ کے نام سے شائع ہوئی تھی۔ ادارہ بک کارنر نے محنت، سلیقے اور خوب صورتی کے ساتھ بامقصد کتب کی اشاعت کے سلسلے کو آگے بڑھایا ہے اور کتاب کے اس ایڈیشن کو نایاب تصاویر سے مزین، تسہیل و تصحیح کے ساتھ اور رائج اُردو املا سے ہم آہنگ کر کے، مکمل حروف خوانی کے بعد خوب صورت طور پر شائع کر رہا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ میں اس کام میں ان کا معاون بن سکا۔
(سلمان خالد)