GHAZI ILM DIN SHAHEED غازی علم الدین شہید
PKR: 800/- 480/-
راجپال لاہور کا ایک کتب فروش تھا، یہ ہندوؤں کی متعصب جماعت آریہ سماج کا ممبر اور اس متعصب تنظیم کا فعال رکن تھا۔ یہ لاہور میں کتابیں بیچتا تھا لیکن اس کا زیادہ تر وقت مسلمانوں کے خلاف شر انگیزی میں گزرتا تھا۔ 1925-26ء میں اس کے ذہن میں شیطانی خیال آیا، اس نے متنازعہ اسلامی کتب سے مختلف واقعات اور ضعیف احادیث جمع کیں، ان میں اضافہ اور کمی کی، ان کو ان کے پسِ منظر سے الگ کیا، انہیں کتابی شکل دی اور 1928ء میں (نعوذ باللّٰہ) رنگیلا رسول کے نام سے انتہائی واہیات اور گستاخانہ کتاب شائع کر دی۔ آریہ سماج کے کارکنوں نے یہ کتاب چند دن میں ہندوستان بھر میں پھیلا دی، مسلمانوں کی طرف سے شدید ردِ عمل سامنے آیا، ہندوؤں نے بے حسی کا مظاہرہ کیا اور یوں فسادات کا سلسلہ شروع ہو گیا، امیرِ شریعت سیّد عطاء اللّٰہ شاہ بخاری اور مولانا ظفر علی خان سمیت اس وقت کے عظیم سیاسی اور مذہبی رہنماؤں نے راجپال کے خلاف جلسے اور جلوس شروع کر دئیے، لاہور کی فضا مکدر ہو گئی چنانچہ پولیس نے نقص امن کے جرم میں راجپال کو گرفتار کر لیا لیکن مقدمہ عدالت میں پہنچا تو معلوم ہوا، انڈین ایکٹ میں مذہبی جذبات کی توہین کے بارے میں کوئی دفعہ نہیں ہے چنانچہ راجپال کے وکیل نے دلائل دئیے اور جج نے راجپال کی رہائی کا حکم دے دیا، راجپال کی رہائی لاہور کے مسلمانوں کے زخمی دلوں پر نمک کی بارش ثابت ہوئی اور یہ سسکیاں لے لے کر رونے لگے جبکہ ہندوؤں نے خوشی کے شادیانے بجانا شروع کر دئیے، ہندوؤں کا خیال تھا، یہ فیصلہ ہندوستان میں ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہو گا اور ہندو اب کھل کر نبی رسالت صلی اللّٰہ علیہ وآلہٖ وسلم کے خلاف گستاخی کر سکیں گے اور کوئی قانون اب انہیں روک نہیں سکے گا کیونکہ ان کے پاس عدالت کا حکم نامہ موجود ہے، اس ساری صورتحال نے ایک غریب ترکھان کو عالم اسلام کی عظیم شخصیت بنا دیا، اس شخص کا نام علم الدین تھا، یہ دھیاڑی دار ترکھان تھا، یہ اوزار لے کر گھر سے نکلتا تھا دن کو ایک آدھ روپے کی مزدوری مل جاتی تھی تو کر لیتا تھا ورنہ دوسری صورت میں خالی ہاتھ گھر واپس چلا جاتا تھا۔ یہ 6 ستمبر 1929ء کو مزدوری کے لئے گھر سے نکلا، راستے میں امیرِ شریعت عطاء اللّٰہ شاہ بخاری اور مولانا ظفر علی خان راجپال کی گستاخانہ حرکت کے خلاف تقریر کر رہے تھے۔ علم الدین تقریر سننے کے لئے رُک گیا خطاب کے چند فقروں نے اس کی ذات میں طلاطم برپا کر دیا، اس نے اسی وقت بازار سے چاقو خریدا، سیدھا راجپال کی دکان پر گیا، راجپال کو اطمینان سے قتل کیا اور خود کو پولیس کے حوالے کر دیا اور تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے غازی علم الدین شہید کے نام سے روشن ہو گیا، غازی علم الدین شہید کے خلاف مقدمہ چلا اور انہیں 31 اکتوبر 1926ء کو میانوالی جیل میں پھانسی دے دی گئی، غازی علم الدین شہید پھانسی پا گئے، لیکن عشقِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہٖ وسلم آج تک زندہ ہے اور یہ قیامت تک زندہ رہے گا۔
ہم اگر آج اکیسویں صدی میں بیٹھ کر اس واقعے کا تجزیہ کریں تو تین چیزیں سامنے آتی ہیں۔ اوّل راجپال 1929ء کا جنونی، شدت پسند اور دہشت گرد تھا، اس کی متعصبانہ، جنونیت سے بھرپور اور دہشت گردانہ سوچ نے پورے ہندوستان میں فسادات شروع کروا دئیے اور ان فسادات میں اس سمیت بے شمار لوگ مارے گئے۔ دوم، انگریز سرکار نے توہین رسالت، مذہبی توہین اور نظریاتی چھیڑ چھاڑ کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا تھا، قانون کی اس کمی نے راجپال جیسے لوگوں کو شہ دی، اس نے کتاب لکھی، گرفتار ہوا اور بعد ازاں قانون کی کمی کی وجہ سے رہا ہو گیا۔ راجپال کی رہائی نے جلتی پر تیل کا کام کیا، انگریز حکومت اگر اس مسئلے کو حقیقی مسئلہ سمجھتی، یہ توہین رسالت کے خلاف سخت قانون بناتی اور اس پر سختی سے عمل کرواتی تو راجپال کو ایسی کتاب لکھنے کی جرأت ہوتی، یہ جیل سے رہا ہوتا اور نہ ہی یہ عبرت ناک انجام کو پہنچتا اور سوم، رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہٖ وسلم ایسی بابرکت ذات ہیں جن کے بارے میں توہین اسلامی دنیا کا عام سا مزدور بھی برداشت نہیں کرتا، اور یہ توہین اسے چند لمحوں میں غازی علم الدین شہید بنا دیتی ہے حضور نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذاتِ بابرکت پر جان دینے اور جان لینے کے لئے کسی مسلمان کا عالم، حافظ یا پرہیزگار ہونا ضروری نہیں لبرل سے لبرل ، ماڈرن سے ماڈرن، پر لکھے سے پڑھا لکھا اور گنہگار سے گنہگار مسلمان بھی توہین رسالت پر تڑپ اٹھتا ہے اور یہ یورپ، امریکا، کینیڈا اور جاپان جیسے ماڈرن ممالک میں رہنے کے باوجود گستاخوں کو قتل کرنے کے لئے گھر سے نکل کھڑا ہوتا ہے اور اس کے بعد سلمان رشدی ہو، سام باسیل یا پھر ٹیری جونز ہو، ان لوگوں کو جان بچانے کے لئے حلیہ بھی بدلنا پڑتا ہے، مکان اور شہر بھی تبدیل کرنا پڑتے ہیں اور اپنا نام بھی چینج کرنا پڑتا ہے۔
(جاوید چودھری، روزنامہ ایکسپریس)