KHUD SE KHUDA TAK (DELUXE) (8TH EDITION) خود سے خدا تک (ڈیلکس)
PKR: 2,000/- 1,200/-
Author: MUHAMMAD NASIR IFTIKHAR
Pages: 456
ISBN: 978-969-662-399-1
Categories: ISLAM CHARACTER BUILDING
Publisher: BOOK CORNER
اس کرم کا کروں شکر کیسے ادا ...
اللہ ربُّ العزت جب کسی پر مہربان ہوتو’’عطا‘‘کیا کرتا ہے۔ عطائے سلطان السلاطین ذوالجلال والاکرام بڑی بات ہے۔ عطا کردیا جانا، متلاشی عاصیوں کے لیے بڑے نصیبے کی بات ہوتی ہےکہ ریگ زاروں میں ہزارسال ایڑیاں رگڑی ہوتی ہیں۔ سیاہ ماتمی سوگوار روحیں بجھتی آنکھوں کے قدیم شکستہ زندانوں کی زنگ خوردہ سلاخوں سے نجانے کتنی صدیاں لپٹ کے روئی ہوتی ہیں کہ کوئی ہنر نہ کمال ہم جیسےشکستہ حال تھکے ہارے روندے ہوئے مسافروں میں ہواکرتا ہے۔
رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ کا چمکتا سنہری کاسہ ہاتھوں میں لیےہم جیسوں کو تو بس لامتناہی تلاش کے تپتے ریگ زاروں میں جلتے، مرتے، روتے ہوئے سرگرداں چلتے ہی چلے جانا ہوتا ہے۔ کیاخبر،کون جانے کس ساعت سعید میں دربار عالیہ سے ایک بے نیاز مگر محبّت سے بھری ہوئی نظرِ کرم ہو اور سارے جہاں سے ہارے ہوئے خود اپنی ذات میں بچھی ہوئی شطرنج پر چلی جاتی چالوں سے ہرلحظہ مات کھاتے ہوئے بس کسی بھی لمحے ڈھے جانے والے گمشدہ جاں بلب مسافر کے لیے ارشاد خداوند متعال کا نزول ہو اور حکم عالی شان جاری ہو.... عطا کیا گیا۔
جسم و جاں پر کرب وبلا اور تلاش کی تیزدھار لاحاصلیت دس سال مکمل ترین کاملیت سے چھائی رہی اور پھر جب پگھلتی ہوئی آنکھیں پتھر ہوجانے کو تھیں.... جب جسم جھلستی ہوئی ریت بن کر ہوا میں بکھرنے کو ہوا تو.... تھام لیا گیا، کرم ہوگیا،جلتے ہوئے زخم ٹھنڈے کردئیے گئے، قرار دیا گیا، دم جو نکلنے کو تھا اُسے واپس پلٹ جانے کا حکم ہوا.... ذہن کے دریچے وا ہوگئے اور علم کا ایک دروازہ پوری شان اورآب وتاب سے روشن ہوگیا.... فقیر کو ، نامراد،راندہ درگاہ کو.... مارکر دوبارہ زندہ کیا اور خود سے خدا تک عطا ہوئی۔کوئی شک نہیں ولم اکن بداعائک ربِّ شقیا کا ہی سہارا تھا لیکن خود پر ایسی عطا اور ایسے ہوجانے پر ایسی حیرت طاری ہوئی وہ عجب چھایا کہ جب تک فقیر اب جیے گا حیران شُد جیے گا۔
جتنی بڑی عطا ہوتی ہے اُتنا ہی بڑا پھر امتحان بھی لگتا ہے سو ادھر بھی لگا ہوا ہے۔ کتاب لکھنے والے خوب جانتے ہیں کیسے اپنے ہی لہو کی روشنائی سے لکھوایا جاتا ہے.... مسودہ ہوا.... سکھ کا سانس راستے میں تھا خبر پہلے آپہنچی کہ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔ مجھ جیسا پست ہمت انسان کمپوزنگ، پرنٹنگ ، ڈیزائننگ اور پبلشنگ کے جنگلوں میں کھوجائے تو باہر کیسے نکلے.... پہلی چھپائی کے تجربہ میں ہی زبردست دھوکا کھایا اور کئی مہینے چپکا ہورہامگر کب تک....
چاروناچار پھر ہمت کرنا پڑی اور اب کی بار پبلشر تو بہت ایماندار اور مخلص ملامگر ستم ظریفی یہ ہوئی کہ اُن کے ہاں صرف قرآن پاک کی اشاعت اور سلیبس کی کتب ہی چھپا کرتی تھیں، اس لئے وہاں کتاب کی قاری تک رسائی کاکوئی نیٹ ورک موجود نہیں تھا۔ بہرحال کتاب چھپی، اچھی چھپی اور چل گئی.... ایسی چلی کہ گماں تک نہ تھا.... اللہ سند قبولیت عطا کردے تو مخلوق کے دلوں میں محبت اُترآیا کرتی ہے۔پہلا ایڈیشن دس دن میں ہی نکل گیا....
اب اتنی زیادہ فروخت ہوتی ہوئی کتاب سنبھالنا مشکل ہو گیا۔ ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کاجن بوتل سے باہر نکل آیا اور ایسے ایسے مسائل سامنے آئے کہ چھکّے چھوٹ گئے۔ لے دے کے ڈیڑھ سال گزرا اور اس عرصے میں کتاب کے سات ایڈیشن چھپے اور ہر ایڈیشن بلامبالغہ کئی کئی بار چھپا۔ قرین قیاس ہے کہ 40,000 سے زائد کاپیاں قارئین کے ہاتھوں میں پہنچ چکی ہیں اور گُوگل پلے سٹور پر موجود پی ڈی ایف ایک لاکھ سے زیادہ ڈاؤن لوڈ ہوگئی ہے.... غیرقانونی پی ڈی ایف توانٹرنیٹ پر خداجانے کتنی ڈاؤن لوڈ ہوئی ہے اس کا حساب ہی ممکن نہیں....
غالب گمان ہے گزشتہ ڈیڑھ سال کے عرصہ میں خود سے خدا تک پاکستان میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہوسکتی ہے.... شُکر تو صرف اُس ربُّ العالمین کا ہے جوجسے چاہے بے حساب عطاکرتا ہے۔
کتاب کی اس قدر پذیرائی چونکہ وہم وگمان میں نہ تھی، اس لئے کئی بار پبلشنگ وقت پر نہ ہونے یا کمپوزنگ میں بہتری کے عمل کے دوران مارکیٹ سے کئی کئی دن کتاب غائب رہنا ایک معمول بن گیا تھا۔ اس کےمستقل حل کے لیےمیدان میں نکلا تو انکشاف ہوا کہ اللہ نے پاکستان میں کتاب چھاپنے اور چھپوانے والے بڑے ’’بابوں‘‘ کا ڈیرہ اب لاہور، کراچی نہیں بلکہ ’’بُک کارنر‘‘ کے نام سےجہلم میں لگا دیا ہے۔ یاحیرت.... یہ کیا ماجرا ہے.... اللہ بادشاہ ہے، دینے پر آجائے تو جس کو چاہے بے حساب دے ڈالتا ہے لیکن اُصول اُس نے ایک یہ بھی طے کررکھا ہے کہ محنت دیکھ کر دیتا ہے، خُوب اچھی طرح تول پرکھ کر دیتا ہے، اس بات کا اندازہ بُک کارنر آمد پر اس شاندار ادارے کی باکمال اور خوبصورتی کے اعلیٰ معیار کو چھوتی ہوئی کتابیں دیکھ کر خُوب ہوگیا۔
اللہ خوش رکھے کیا ہی خوبصورت لوگ ہیں۔ گگن شاہد اور امرشاہد دونوں بھائیوں کی ایک دوسرے سے محبّت،اتحاد اور کام کی لگن دیکھ کران کے والد گرامی اور ادارے کے بانی جناب شاہد حمیدؒ کی پروقار شخصیت اور تربیت کی ستائش کرنے کو بے ساختہ جی چاہتا ہے۔ جس باپ کی اولاد اُس کے جانے کے بعد اُسے اپنا ہیرو کہتی ہو یہ اللہ کا انعام ہے جو اُس نے اپنے بندے کواُس کی اولاد کی تعلیم و تربیت پر کی گئی شب و روز محنت کی جزا کی شکل میں عطا کیا ہے۔ اور بلاشبہ یہ ایسا عظیم انعام ہے جو دُنیا و آخرت دونوں میں شاہد حمیدؒ صاحب کے لیے جاری و ساری ہے۔ اللہ سے دُعا ہے کہ اُن کے درجات بلند فرمائے۔آمین!
’’خود سے خُدا تک‘‘ اب بُک کارنر کے پلیٹ فارم سے شائع ہورہی ہے اور ان شاء اللہ امیدِ واثق ہے کہ یہ آپ کے معیار پر پورا اُترے گی۔ آخر میں امرصاحب ،گگن صاحب سے ملنے کے بعد اور ان کی محنت، ادارے کا معیار اور قارئین کی محبّت دیکھ کر میں یہ بات ضرور کہنا چاہوں گا کہ.... میری کتاب ’’خُود سے خُدا تک‘‘ کو جہاں ہونا چاہیے تھا، آخرکار وہاں پہنچا دی گئی ہے۔شکر الحمدللہ!!
اللہ آپ کا اور میرا حامی و ناصر ہو!
محمد ناصر افتخار