Shah Jahan

SHAH JAHAN شاہجہاں

SHAH JAHAN

PKR:   1,200/- 840/-

شاہجہاں کی کردارنگاری کے وقت اس کو نہایت عیاش، ظالم، عیار اور غیرمحتاط دکھایا گیا ہے۔ یہ بات بمشکل صحیح ہے۔ خواہ اس کا عہد ہو یا اس کے بعد کا زمانہ ہو ایشیا کے دوسرے تاجداروں کے عام دستور کے مطابق اس نے بھی قریبی رشتہ داروں کو اپنے راستے سے ہٹانے میں پیش و پس نہ کیا۔ ان ہی حکمرانوں کی طرح لذت نفس پرستی سے بھی اسے گریز نہ تھا۔ لیکن وہ کاہلی میں وقت گزارنے والا بھی نہ تھا، اس کو اپنے شاہانہ فرائض کا مثالی احساس تھا۔ اس بات کا ثبوت کثرت سے ملتا ہے کہ اس کی زندگی محنت شاقہ کا نمونہ تھی۔ بڑھتی ہوئی عمر میں اس پرنفس پرستی کا الزام جس کو مغربی سیاحوں نے مبالغہ سے پیش کیا ہے۔ اس کو اس روشنی میں دیکھنا چاہیے کہ اپنی اہلیہ مرحومہ سے اسے والہانہ فریفتگی تھی جو چودہ میں سے بارہ اولادوں کی ماں تھی اس کے مرنے کا غم اور اپنی دل شکستگی کا احساس کتنا تھا۔ ان ہی تاثرات کی یادگار آگرہ کے شاہانہ حسن میں جلوہ افروز ہے۔ دہلی کے محل اور دوسری بہت سی عمارتیں شاہجہاں کے ذوقِ تعمیر کی امتیازی خصوصیات ہیں لیکن تاج محل، یادگار محبت کا جواب دنیا بھر میں نہیں۔ تعجب ہے کہ ایسے حکمران کی حکومت اب تک کسی انگریزی لکھنے والے مؤرخ کی توجہ کا مرکز نہیں ہو سکی۔ مرحومہ مسز بیورج نے اپنی تصنیفات سے بابر اور اس کے لڑکے کو یادگارِ زمانہ بنا دیا۔ دوسرے اور لوگ جنہوں نے تاریخ یا افسانے کو اپنے فکر و فن کا مرکز بنایا، انہوں نے خواب دیکھنے والوں شہزادوں کے شہزادے یعنی اکبر کے بارے میں اتنا کچھ لکھا کہ فہرست پیش کرنے کی گنجائش یہاں نہیں، جہانگیر بھی یہاں نظر انداز نہیں کیا گیا، اورنگ زیب کا تفصیلی بیان قابل قدر مورخ سر جادوناتھ سرکار نے کیا لیکن شاہجہاں کا مطالعہ اب تک نہیں کیا گیا، اس کے عہد کی اطلاعات جو تاریخوں میں عام طور سے شائع ہوئی ہیں، ہنوز تشنہ ہیں۔ مصنف کا کہنا ہے کہ یہ مقالہ اسی خلا کو پُر کرنے کی ایک کوشش ہے۔ اس پر میں اور کہنا چاہتا ہوں کہ یہ اقدام بہت کامیاب ہے۔ ڈاکٹر سکسینہ نے یہ موضوع زیر بحث قابل تعریف غیر جانب داری سے قلم بند کیا ہے، ان کے ہاتھ میں شاہجہاں نہ تو اتنا نیک کردار ہے کہ اس کے دامن پر کوئی دھبہ نہ ہو، جیسا کہ ہندوستانی مؤرخین نے لکھا ہے۔ برخلاف اس کے نہ تو اخلاقی نظریہ سے اتنا معرا ہے کہ عفریت صفت سمجھا جائے جیسا کہ بعض مغربی سیاحوں نے اس کو پیش کیا ہے۔ ان سیاحوں نے اپنی تحریر کو دربار کی گپ بازی کی چاشنی سے دلکش بنانے کی کوشش کی ہے۔ اس کتاب کو تیموریہ تاریخ کے طالب علموں کو مطالعہ کرنے کی تہہ دل سے سفارش کرتا ہوں اس لیے کہ اس موضوع پر یہ مقالہ ہماری معلومات میں بیش بہا اضافہ ہے۔ (ولز لے ہیگ، لندن)

RELATED BOOKS