Aasman Dar Aasman (Pictorial Edition)

AASMAN DAR AASMAN (PICTORIAL EDITION) آسماں در آسماں (مصور ایڈیشن)

AASMAN DAR AASMAN (PICTORIAL EDITION)

PKR:   1,995/- 1,397/-

’’آسماں در آسماں‘‘ کی پہلی خوبی، اس کی انفرادیت ہے۔ دوسری یہ کہ اسے ڈاکٹر شاہد صدیقی نے قلم بند کیا ہے۔ ادق اور پیچیدہ موضوعات پر رَواں رَواں، سادہ و شگفتہ اندازِ بیاں میں انھیں کمال حاصل ہے۔ ’’آسماں در آسماں‘‘ میں شامل نام وراں نے مجبوری اور بے دلی سے ہجرت کی تھی۔ ہندوستان جاکے آباد ہوگئے۔ بہت عزّت اور نام کمایا لیکن اپنے آبائی گھر اور شہر چھوڑ جانے کی خلش تا دمِ آخر برقرار رہی۔ اِن ناقابلِ فراموش، یادگارِ زمانہ شخصیات میں ہر ایک پر کتابیں لکھی جا سکتی ہیں، لکھی بھی گئی ہیں۔ لیکن جس جامع و اکمل اختصار سے ڈاکٹر شاہد صدیقی نے انھیں ایک کتاب میں یک جا اور چشم گزار کیا ہے، انہی کا حصہ، انہی کا خاصہ ہے۔
(شکیل عادل زادہ)

لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو ہماری کئی نسلیں یاد رکھیں گی کہ جس نے ایک ہی صحن کے پیڑ پودوں اور پھولوں کو اپنی شمشیرِ آبدار سے کاٹ کر تقسیم کر دیا اور پلک جھپکتے ہی سارا منظر بدل گیا۔ ’’چلی سمتِ غیب سے اک ہوا کہ چمن ظہور کا جل گیا‘‘ کتنے ہی دل گزیدہ ہمیشہ کے لیے اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو گئے جن کے دل آخری وقت تک اپنے چھوڑے ہوئے گھروں، محلوں اور دوستوں کے لیے دھڑکتے رہے۔ یہ انہی زمین زادوں کی کہانیاں ہیں جن کی زندگیوں میں عزت، دولت اور شہرت ہونے کے باوجود ایک کسک باقی رہی۔ شاہد صدیقی نے ان دل زدگان کی داستان کو اپنے سحر کار قلم سے امر کر دیا ہے۔ شاہد صدیقی کی نثر کا خاص اسلوب ہے کہ وہ جس موضوع پر خامہ فرسائی کرتے ہیں کسی ماہر فن زردوز کی طرح موتی اور مرجان ٹانکتے چلے جاتے ہیں۔ ’’وہ کہیں اور سنا کرے کوئی‘‘ میرے خیال میںیہ اپنی نوعیت کی منفرد کتاب ہے جس میں تاریخ، ادب، آرٹ، شاعری، موسیقی اور دل فریب بیانیہ یک جا ہو گئے ہیں۔
(زاہدہ حنا)

شاہد صدیقی کی نثر میں جو تاثیر اور تہذیبی رچاؤ ہے، اُس کا ایک زمانہ گرویدہ ہے۔ ہندوستان کی تاریخ کے تہذیبی و ثقافتی مزاج کے طلسم اور فسوں کو وہ اپنی روح میں بسائے ہوئے ہیں اور اُسی ساحری میں ہمیں بھی شامل کر لیتے ہیں۔ شاہد صدیقی ایک فطری قصہ گو ہیں جن کے تمام کردار اُن کے اپنے زمانوں کی مٹی میں گُندھے ہوئے ہیں۔ یہ کون لوگ ہیں جو نئے جہانوں کو تخلیق کرنے کے ساتھ ساتھ کئی صدیوں کو اپنے احساس اور بصیرت سے معطر کیے رکھتے ہیں۔ بلراج ساہنی سے دلیپ کمار تک اور خوشونت سنگھ سے بلونت سنگھ تک اور امرتا پریتم سے شیلندر تک۔ شاہد صدیقی نے علوم و فنون کے ان پُر اسرار نابغوں کی زندگیوں میں شریک ہونے کا ہنر آزمایا ہے۔ اب آپ بھی ان کی طلسم کاری کے تجربے کا حصہ بن جائیں۔
(اصغر ندیم سید)

شاہد صدیقی کی لازوال باکمال تحریروں کا مجموعہـ ’’آسماں در آسماںـ‘‘ میری روح کے لیے کسی تحفے سے کم نہیں۔ کیسے کیسے روشن ستارے اس کہکشاں کا حصّہ ہیں۔ سنیل دت، گلزار، مدن موہن اور میرا پسندیدہ اداکار دلیپ کمار جس کی حویلی ابھی تک پشاور میں ہے۔ پرتھوی راج اور اس کا بیٹا راج کپور جو رہتے تو پشاور میں تھے لیکن جن کا آبائی گھر میر ے شہر لائل پور کے نزدیک سمندری میں تھا۔ کامنی کوشل جو کنیئرڈ کالج میں پڑھتی تھی اور سائیکل پر کالج آتی جاتی تھی اور جو میری پھوپھی جمیلہ کی سہیلی تھی۔ اور پھر ساحر، شیلندر، اور آنند بخشی۔ کیسے کیسے لوگ تھے جن کے دم سے ایک جہان آباد تھا۔ ’’آسماں در آسماں‘‘ انھیں لوگوں کی داستان ہے۔
یہ کتاب سفر کا ایک پڑاؤ ہے۔ شاہد صدیقی کا کہنا ہے کہ اس کی اگلی کتاب ان فن کاروں کے حوالے سے ہو گی جنھوں نے تقسیم کے بعد ہندوستان سے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا اور یہاں آکر فن کی دنیا میں نئے رنگ بکھیرے۔ یوں یہ داستان یہاں ختم نہیں ہو گی بلکہ اور آگے بڑھے گی۔
آخر میں مجھے یہ کہنا ہے، میرے صحافتی کیریئر میں ’’آسماں درآ سماں‘‘ وہ پہلی کتاب ہے جسے لکھنے والا ہی نہیں، شائع کرنے والا ادارہ بک کارنر جہلم یعنی امر شاہد اور گگن شاہد بھی مجھے بہت عزیز ہیں۔
(حسن نثار)

ڈاکٹر شاہد صدیقی کا قلم مسلسل رواں ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کی نئی کتاب کا بیج، گزشتہ کتاب ہی میں موجود ہوتا ہے۔ ابتدا میں ان کا اختصاص تعلیم، لسانیات اور صنفی مطالعات پر فاضلانہ انداز میں لکھی گئیں انگریزی کتب تھیں۔ اب ان کا امتیاز اُردو میں جگہوں، مقامات اور شخصیات پر لکھی گئی تحریریں ہیں جنھیں کسی ایک صنف میں مقید کرنا ممکن نہیں۔ کھوئے ہوؤں کی جستجو، ان سب تحریروں میں مشترک بھی ہے اور ان کی قوتِ محرکہ بھی، کہ ان کے اسلوب میں جہاں گزرے دنوں اور کھوئے ہوئے لوگوں کی یاد سے مسرّت و بشاشت کا عنصرپیدا ہوا ہے، وہیں دبادبا ایک نیم ناستلجیائی، المیاتی احساس بھی ظاہر ہوا ہے۔ زیرِ نظر کتاب ان شخصیات سے متعلق ہے جن کا تعلق فن اور تخلیق کی دنیا سے تھا اور جنھیں تقسیم نے ہجرت پر مجبور کیا۔ تقسیم کا المیہ ان شخصیات کی روحوں میں، ان کی آخری سانسوں تک گونجتا رہا۔ شاہد صاحب نے ہجرت کے اسی تجربے کو اپنے مخصوص دل کش اسلوب میں کچھ اس طرح بیان کیا ہے کہ ایک پورے عہد کوگویا زندہ کردیا ہے۔
(ناصر عباس نیّر)

RELATED BOOKS