AWAZ E DOST آواز دوست
لفظ لفظ قابلِ داد۔ بعض فقرے لاجواب اور بعض صفحات داد سے بالا۔
(ملّا واحدی)
اُردو کا تمام نثری سرمایہ میری نگاہ میں ہے اور اس بنا پر بلاخوفِ ابطال یہ بات دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ جہاں تک کہ الفاظ کی برمحل نشست، ابلاغ کی بے نظیر صلاحیت اور طرز بیاں کی بےمثال ندرت کا تعلق ہے مختارمسعود صاحب ایک جدید طرزِ انشا کے موجد ہیں، اور اُن کو محمد حسین آزادؔ، رتن ناتھ سرشار، شبلی نعمانی، حالیؔ پانی پتی، ابوالکلام آزادؔ، نیاز فتح پوری اور عبدالماجددریا بادی کے دوش بدوش بٹھایا جا سکتا ہے۔
(جوش ملیح آبادی)
اس سفر میں مسافر کی چشم نگراں بڑی مستعدی سے مصروفِ کار ہے۔ جو کچھ سامنے آئے، اُس کا نقش دل میں اترتا جاتا ہے۔ ہر منظر اپنے ساتھ ایک نئی کیفیت لاتا ہے اور یہ سب کیفیتیں دل میں بسیرا کر لیتی ہیں۔ دوسرا سفر حسّاس مسافر نے ذہن کے سہارے، تصور اور تخیل کے سہارے اور قلب کی دی ہوئی روشنی کے سہارے طے کیا ہے۔ یہ سفر طویل ہے اور اس میں بے شمار موڑ اور اَن گنت اُتار چڑھائو ہیں اور منظروں کی بھرمار، عروج و زوال کے ولولہ انگیز اور عبرت خیر منظر اعلیٰ اور ارفع قدروں کی توقیر اور تحقیر کے منظر اور ان منظروں میں گِھرے ہوئے وقت کے طوفانوں کے تھپیڑے کھاتے ہوئے انسان، کبھی طوفانوں پر غالب اور کبھی اس سے مغلوب۔
(سید وقار عظیم)
’’آوازِ دوست‘‘ پڑھ کر مجھے حیرت ہوئی کہ اتنا شیوہ بیان، نغزگو اور کامِل انشا پرداز کہاں سے نمودار ہو گیا۔ مختار مسعود کی نثر میں محمد حسین آزادؔ کی برجستگی، لطیف ظرافت، شگفتہ بیانی اور ابوالکلام آزادؔ کی بلاغتِ تحریر، شکوہِ بیان اور صداقتِ فکر پائی جاتی ہے۔ ان کی تحریر میں ایک ایسا نغمہ ہے جو صرف کلاسیکی شاعر میں ملتا ہے۔
(رئیس امروہوی)
’’آوازِ دوست‘‘ بنیادی طور پر ایک خالص علمی بلکہ نیم آسمانی سی کتاب معلوم ہوتی ہے اور موضوع کی طہارت کی وجہ سے ہم اِسے بے وضو چھو بھی نہیں سکتے۔
(کرنل محمدخان)
’’آوازِ دوست‘‘ کا بنیادی موضوع پاکستان، نظریۂ پاکستان، تاریخِ پاکستان، تحریک پاکستان، قیام پاکستان اور ناگزیر تاریخی تقاضوں کی کارفرمائیوں سے منکر لوگوں کے ہاتھوں پاکستان کی شکست وریخت ہے۔ میرا خیال ہے کہ آئندہ پاکستان کے موضوع پر جو بھی کتاب لکھی جائے گی، اُس کا مصنف ’’آوازِ دوست‘‘ کے حوالے دینے پر مجبور ہو گا۔
(احمدندیم قاسمی)
مختار مسعود کے اسلوب میں بلا کی روانی ہے۔ حروف لفظوں میں، لفظ سطروں میں اور سطریں ایک دوسری میں اس تیزی کے ساتھ مدغم ہوتی ہیں کہ قاری کو محسوس ہوتا ہے جیسے اُسے پَر عطا ہو گئے ہوں۔ ہر آٹھ دس سطروں کے طوفانی بہائو کے بعد کوئی نہ کوئی مزیدار اور معنی خیز فقرہ ضرور آ جاتا ہے۔
(ڈاکٹروزیرآغا)
یہ ایک مینار کی کہانی نہیں اور نہ یہ سوانح عمری ہے اُن مشاہیر کی، جن کے ناموں اور کارناموں کا اس میں ذکر آ گیا ہے۔ یہ ایک متحدہ اور اٹوٹ مسلم قومیت کے خواب اور اُس کی تعبیر کی دل افروز داستان ہے۔ برِّکوچک کے ایک نشاۃ ثانیہ کا عظیم ’’ساگا‘‘ ہے اس تحریک کے آغاز سے اس تحریک کے انجام تک، مصنف کے خانۂ دل میں
محفوظ ہیں سب یادیں اور یاد ہیں سب باتیں
(مشتاق احمدیوسفی)
پہلے مقالے میں مینار ہائے عالم کا فنونی شجرہ اور پاکستان کی سیاسی جدوجہد کا نقشہ، دوسرے میں کریکٹر اور کردار کا ناموافق معاشرے پر فاتحانہ غلبہ۔ ایک سیاسی جہاد ہے اور دوسرا اخلاقی۔ لیکن اثر دونوں کا ایک۔ سبق دونوں کا ایک۔ صرف مختلف ہے تو وہ دوست جو اس آواز کی پشت پر ہے۔
(اختر ریاض الدین)
’’آوازِ دوست‘‘ کی مقبولیتِ عام کی ایک وجہ وہ دردِ مشترک ہے جو مصنف نے واضح طور پر محسوس کیا اور اُس درد کو الفاظ کا پیرہن عطا کیا جو خود قاری کے یہاں، کہیں محسوس اور کہیں غیر محسوس انداز میں، بہرحال موجود تھا کہ اس کتاب میں پاکستان کے دل کی دھڑکنیں شریک ہیں۔
(ادا جعفری)
ہم نے ایک دنیا دیکھی ہے، لیکن اگر 1971ء میں قرطبہ اور غرناطہ نہ دیکھے ہوتے تو ’’آوازِ دوست‘‘ ہماری سمجھ میں نہ آتی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کتاب میں قرطبہ اور الحمرا کے نقش و نگار گلے مِل رہے ہیں۔
(جمیل الدین عالیؔ)
اس کتاب کا لب و لہجہ ایسا باوقار اور مصنف کا انداز اس قدر پُرشکوہ ہے کہ اگر ہارون الرشید کے زمانے میں عربی کا رواج نہ ہوتا تو ’’آوازِ دوست‘‘ کی زبان شرفا کے تکلّم کا معیار ٹھہرتی اور بغداد کی نشریات اسی نہج پر ڈھالی جاتیں۔
(اشفاق احمد)
ان کے اس مضمون (مینارِ پاکستان) کو سب سے پہلے پڑھا گیا۔ بہت اچھا ہے۔ بہت ہی اچھا۔ ان کا یہ مضمون یا ایسا مضمون پہلی بار پڑھنے کا اتفاق ہوا کہ ان میں فکر و نظر کی کتنی وسعت، گہرائی، ثروت اور تخیل کتنی شگرف کار ہے جن کا طرح طرح سے اور بہتر سے بہتر طور پر اظہار کرنے پر وہ کتنے قادر ہیں۔ فن کار کے کمالِ فن اور گراں مایہ شخصیت کی یہ بڑی مستند اور مستحسن نشانی ہے۔
(برعظیم کے ایک عہد ساز مزاح نگار اور انشا پرداز)
کچھ روز پہلے کسی نے پوچھا کہ کیا آج کے زمانے میں بھی اولیا اللہ موجود ہیں؟ کہا اللہ کا ایک دوست توچند ہی روز پہلے آنکھوں سے اوجھل ہوا ہے۔ اس نے پوچھا اب کوئی اور موجود ہے؟ کہا مختارمسعود کی ’’آوازِ دوست‘‘ توجہ سے پڑھ لو تمہیں خود نظر آنے لگیں گے۔ اُس نے استہزائیہ لہجے میں پوچھا، کیا اس کتاب میں اسمِ اعظم پوشیدہ ہے؟ کہا کائنات کو پیدا کرنے والے کی قسم! کئی مقامات پر! کہنے لگا میں خدا کو نہیں مانتا۔ پوچھا ’’خود کو مانتے ہو؟‘‘ بولا کیوں نہیں۔ سوال کیا، خود کو جانتے بھی ہو؟ سوچ میں پڑگیا تو خاموشی گہری ہوگئی۔ خاموشی ہی خاموشی--- خاموشی ہی خاموشی تھی، خاموشی ہی خاموشی رہتی اگر--- اگر آوازِ دوست ظہورنہ کرتی۔
(علی محمد فرشی)
مختار مسعود-- ایک اور ’’آوازِ دوست‘‘ بھی خاموش ہوئی۔ بیوروکریٹس کی وہ آخری نسل جو شعور رکھتی تھی۔ جو کتاب پڑھتی اور لکھتی تھی۔ جو سوچتی تھی۔ اس کےساتھ ہی بہاولپور میں برسوں یا شاید صدیوں پہلے کے نعیم بھائی یاد آئے جنہوں نے مجھے مختار مسعود کی کتا ب ’’آوازِ دوست‘‘ پڑھنے کو دی تھی۔ کیا کمال نثر لکھی۔ پھر انقلاب ایران پر کتاب لکھی اور خوب لکھی۔ بہت کم لکھا لیکن کمال لکھا۔ وہ دنیا کے ان چند لکھاریوں میں جگہ پاسکتے ہیں جن کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ ایک ہی کتاب یا ناول یا کہانی لکھتے تو بھی زمانوں میں یاد رکھے جاتے۔ ’’آواز دوست ‘‘کا شمار بھی ان کتابوں میں کیا جاسکتا ہے۔
(رؤف کلاسرا)
نامور ادیب اور ’’آوازِ دوست‘‘ کے مصنف مختار مسعود صاحب انتقال کر گئے۔ اگر آپ نے یہ کتاب نہیں پڑھی ہے تو آپ اُردو ادب کی ایک شاندار تحریر سے، ماضی، حال اور مستقبل کے ایک زبردست علمی تجزیئے سے محروم رہ گئے ہیں۔مختار مسعود کا کمالِ فن قابل رشک ہے۔ انہوں نے خود اپنی تحریر میں ایک جگہ بُری کتابوں کے بارے میں کہا ہے کہ
’’رزق نہیں کتابیں بھی ایسی ہوتی ہیں جن کے پڑھنے سے پرواز میں کوتاہی آجاتی ہے۔‘‘
اگر اس ترتیب کو الٹ دیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ کچھ کتابیں ’’آوازِ دوست‘‘ جیسی ہوتی ہیں کہ جن کوپڑھنے سے پرواز میں بلندی، ذہن میں وسعت، قلب میں گہرائی اور ذائقوں میں حلاوت گھلتی جاتی ہے۔ دراصل ’’آوازِ دوست‘‘ وہ آئینہ ہے جس میں ہماری ایک پوری نسل اپنی اجتماعی شکل دیکھ سکتی ہے۔ مصنف کا انداز بیان اور اسلوب ایک خاص ذوق سلیم کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ ایک عام قاری کے لیے نہیں ہے بلکہ قاری کو بلند سطح پر لانے کا باعث بن جاتی ہے۔ اس کتاب میں تاریخ فلسفہ اور انسانی نفسیات جیسے علوم کا پختہ شعور ملتا ہے ۔ ایک عظیم فن پار ے میں فن اور فکر کا توازن ہونا چاہیے وہی اس کتاب کی خاص خوبی ہے۔ بلاشبہ اُردو ادب میں اس پائے کی تحریریں نادر و نایاب ہیں۔
(قاسم علی شاہ)