MERI RANI MERI KAHANI میری رانی میری کہانی
PKR: 1,500/-
Author: QUDDUS SEHBAI
Pages: 296
ISBN: 978-969-662-296-3
Categories: AUTOBIOGRAPHY MEMOIRS
Publisher: BOOK CORNER
میرا نام قدوس صہبائی ہے۔ میں 1910ء میں ایک فوجی خاندان میں پیدا ہوا جو قندھار (افغانستان) سے ہندوستان آیا تھا۔ پہلے 20 سال دین اور قرآن کی تعلیم حاصل کی کیوںکہ زبردستی کرائی گئی تو میں باغی ہو گیا اور فوج میں افسر بننے کی بجائے انگریز فوج کے خلاف کام شروع کر دیا۔ اشتراکی نظریہ اپنا لیا۔ لکھنا پڑھنا شروع کر دیا اور صحافی، ادیب اور سیاست دان بن گیا۔ 25-24 سال کی عمر میں اخباروں اور جریدوں کا ایڈیٹر بن گیا۔ سیاست شروع کر دی اور کئی دفعہ جیل گیا۔ جیل میں 10- 12 افسانوں کی کتابیں لکھیں۔ بےشمار مضمون لکھے۔ پورا ہندوستان گھومتا رہا۔ جوانی کے شوق پورے کیے۔ عشق کیا، شادیاں کیں، در بدر کی نوکری کی اور پاکستان آ گیا اور اخباروں اور کتابوں کے درمیان عمر گزار دی۔ کئی دوست بنائے جو مجھ سے بہت زیادہ مشہور ہوئے۔ سب اچھے اور سچے لوگ تھے۔ یہ کتاب میری ایک کہانی ہے۔ 1985ء میں پانچ بچوں کو کراچی میں چھوڑ کر اس دُنیا سے رخصت ہو گیا۔
--------
میں ابھی زندہ ہوں، کون جانے، کب زندگی کی دوڑ میں تھک ہار کر رُخ موڑ جائوں، بہت سے محبوب دوست اور ساتھی چلے گئے۔ اشتراکی ادیب باری علیگ اور دیوانہ (سعادت حسن) منٹو بھی مر گیا۔ ان دونوں نے جب زبانی یہ قصہ مجھ سے لاہور میں سنا تو اسے لکھ ڈالنے پر زور دیا تھا۔ میری بہت پیاری بیوی معصوم بھی 25-24 سال کی رفاقت کے بعد ساتھ چھوڑ گئی۔ وہ اس محبّت کی عینی گواہ تھی۔ اس کی خواہش تھی کہ یہ کہانی لکھ ڈالوں مگر اس کی خواہش خود اس کی زندگی کے ہزار ہا جھمیلوں کی وجہ سے میں پوری نہ کر سکا۔ اب وہ باقی نہیں لیکن اس کی خواہش میرے ذہن پر تسلط جمائے ہوئے ہے۔ اس لیے میں دوسرے بہت سے کاموں کی تکمیل کر سکوں یا نہ کر سکوں، اس کہانی کو ضرور لکھ ڈالنا چاہتا ہوں۔ انسانوں کے عجیب ارمان اور خواہشیں ہوتی ہیں اور میری اس خواہش کی تکمیل کا نعم البدل یہ ہے کہ یہ کہانی کاغذ پر منتقل ہو گئی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ اس کہانی کی تاریخی اہمیت نہیں لیکن تھوڑی افسانوی اور کافی سماجی اہمیت ضرور ہے کیوںکہ اس میں ایک زبردست سماجی مسئلہ سامنے آیا ہے جو شاید برصغیر میں ابھی نصف صدی تک حل نہ ہو سکے گا۔ یہ ایک رومان ہے جیسے عام رومان ہو سکتے ہیں لیکن حقیقی رومان ہونے کی وجہ سے اس کی کچھ نہ کچھ اہمیت ہے۔ میں بیسیوں بار روپ متی کے محل میں گیا ہوں اور اس کی مشہور اور لازوال محبّت کے نقوش میں نے اس تاریخی محل کے ہر طاق دیوار پر کندہ دیکھے ہیں اور میری اس کہانی کا کردار مہارانی وجے روپ ہے۔ ممکن ہے اپنے چھتیس گڑھ کے شیش محل میں اس محبّت کے نقوش نہ چھوڑ سکے لیکن اس کا کردار بھی میری اس کہانی لکھے جانے کے بعد بہت دن زندہ رہے گا۔
قدوس صہبائی
1970ء
--------
میرے لیے یہ ایک بڑی پیچیدہ کہانی ہے اور اکثر دوستوں نے مشورہ دیا کہ اس کتاب کو نہ چھپوایا جائے۔ اس میں بہت سی ایسی باتیں ہیں جو آج کل کے دورمیں ہر ادیب، شاعر یا صحافی اپنے اوراپنے خاندان کے بارے میں لکھنے سےکتراتا ہے۔ یہ ایک دماغ کو ہلانے اور جھنجھوڑنے والی کہانی ہے۔ والد صاحب نے اس کتاب کو اپنی آپ بیتی کے طور پر لکھا ہے۔ 1950ء میں لاہور میں سعادت حسن منٹو کے اصرار پر لکھنا شروع کیا اور کچھ صفحات لکھے مگر پھرلاہور سے پشاور ہجرت کی تو وہ صفحات کئی سال کے لیے گُم ہو گئے۔ 1964ء میںمیری والدہ کا انتقال ہوا اور گھر کی صفائی کی گئی تو وہ صفحات مل گئےپھر والد صاحب باقاعدگی سے لکھتے رہے، بہت محنت اور مشقّت کے ساتھ وہ نوکری کے علاوہ کتاب پر بھی کام کرتے رہے اور 1970ء تک کوئی 300 صفحات اپنےہاتھ سے لکھ چکے تھے۔ 1970ء میںالیکشن کی مہم کے دوران زخمی ہونے کے کئی مہینے بعد کچھ زندگی اور طاقت دوبارہ بحال ہوئی مگر اب وہ کام نہیں کر سکتے تھے لیکن وہ کتاب کو بیٹھے بیٹھے آہستہ آہستہ لکھتے رہے اور 1973ء میں اسے پورا کر دیا۔ اس کی بڑی مضبوط جلد کروائی اور محفوظ جگہ رکھ دیا۔ مجھے یا کسی اور کو کچھ نہیںبتایا کہ اس میں کیا لکھا ہے اور اس کا کیا کرنا ہے مگر والد صاحب بہت پُرسکون اور مطمئن ہو گئے تھے اور وہ کتاب رکھی رہی۔ سال 1973ء سے 2015ء تک والد صاحب کی ہاتھ سے لکھی ہوئی کتاب منظر سے غائب رہی۔ کسی کو کچھ پتا نہیں تھا کہ وہ مسودہ کہاں ہے اور اس میں کیا لکھا ہے یعنی 42 سال یہ خزانہ کہیں محفوظ رہا پھر میری خوش قسمتی تھی کہ کسی طرح بہنوں اور ان کے بچوں کے سامان میں سے یہ کتاب برآمد ہوئی اور جب مجھے ملی توانکشاف ہوا کہ اس میں کیا ہے۔
شاہین صہبائی