ZAMEEN ZAD زمین زاد
PKR: 800/- 480/-
Author: ARSHAD ALI
Pages: 384
ISBN: 978-969-662-348-9
Categories: AUTOBIOGRAPHY BOOKS ON SALE
Publisher: BOOK CORNER
پروفیسر ارشد علی کی خود نوشت ’’زمین زاد‘‘ ایک Down to Earth اور خود ساز شخصیت کی داستانِ حیات ہے جس کی سب سے نمایاں خوبی اس کی مطالعیت (Readability)ہے۔ ان کی نثر کو ہم آسانی سے مرتکز، مربوط اورمبسوط نثر (Measured Prose)کہہ سکتے ہیں۔ صاحبِ اسلوب نثر نگار مختار مسعود نے اچھی نثر کی شناخت اور معیار یہ متعین کیا ہے،’’اچھی نثر کی اصل پہچان یہ ہے کہ اس میں حُسن، زرخیزی اور خیر ہو؛ حُسن عبارت کا، زرخیزی فکر کی اور خیر جو ان دونوں کاحاصل ہے۔ اچھی نثر کا فیضان یہ ہے کہ وہ لکھنے والے کے لیے نعمت اور نیکی ہوتی ہے اور پڑھنے والے کے لیے انعام و اکرام۔‘‘
پروفیسر ارشد علی کی نثراس اعلیٰ معیار کی بہترین مثال ہے۔ عبارت ایسی رواں دواں جیسے اونچے پہاڑ کی ڈھلوان سے بہنے والا چشمہ۔ یادش بخیر، احمد ندیم قاسمی کے عہد ساز ادبی جریدے ’’فنون‘‘ کے صفحات پر ارشد علی کے نثرپارے چھپتے رہے ہیں۔ میرا اُن سے پہلا غائبانہ تعارف انھیں نثر پاروں کے ذریعے ہوا۔ ان نثر پاروںمیں شعر اور نثر کی Domainمعدوم ہوتی نظر آتی ہیں۔ میرے نزدیک شاعری آنسوؤں اور نثر خونِ جگر سے کشید ہوتی ہے۔ شاعری (Inspiration) اور نثر (Perspiration) کا نتیجہ ہوتی ہے؛ لیکن ارشد علی جیسے صاحبِ اسلوب تخلیق کار کی نثر بیک وقت ان دونوں صفات سے متصف ہے۔ انہوں نے ’’زمین زاد‘‘ میں اپنی زندگی کے مدو جذر کا اس طرح جائزہ لیا ہے کہ اُن کے قاری کو کہیں بوریت کا احساس نہیں ہوتا بلکہ اُن کی رواں دواں نثر اپنے بہائو میں بہائے لیے جاتی ہے۔ پروفیسر ارشد علی نے حرف کی خوشبو اور بیان کے ذائقے کو کاغذ کی تہوں میں یوں گوندھ دیا ہے کہ جب تک پڑھنے والا کتاب کا مکمل مطالعہ نہ کرلے وہ کتاب کی سرحدوں سے باہر نکلنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
ڈاکٹر غفور شاہ قاسم
Reviews
Mriza Sikandar Baig
زمین ذاد
پروفیسر ارشد علی صاحب کی حال ہی میں منصہ شہود پر آنے والی خود نوشت ہے جو ایک زمین زادے کی اپنے اور اپنے عہد کے چلتے پھرتے کرداروں کے بارے میں لکھی گئ نہایت عمدہ اور دلچسپ تصنیف ہے ارشد علی صاحب کا تعلق کھوجکی تحصیل دینہ کے ایک معزز گوجر قبیلے سے ہے جس کے افراد کئی نسلوں سے کاشتکاری کے علاوہ درس و تدریس اور عسکری شعبوں سے وابستہ ہیں ۔۔
مصنف نے تیزی سے بدلتی ہوئی اس دنیا کے خدوخال بنظر غائر دیکھے ہیں جب راستے ناپختہ اور مکانات کچے تھے پینے کا صاف پانی میسر نہیں تھا سکولوں اور ہسپتالوں تک رسائی مشکل تھی راستے دشوار گزار تھے انہوں نے ایسے نامسائد حالات کا سامنا کیا اور زندگی میں پیش آنے والے واقعات اور بے مہر زمانے کی بے مروتی اور نصف صدی پہلے کے معاشی معاشرتی سیاسی سماجی حالات مہارت اور سلیقے سے اس کتاب میں قلمبند کئے ہیں اس کے علاوہ معاشرے میں رائج ریتوں رواجوں رسموں کلچر تقافت کھیل تماشے اور دم توڑتی قدروں کے متعلق کھل کر لکھا
اس سے پیشتر نثری نظموں پر مشتمل ان کا کام ہر خاص و عام کی بارگاہ میں پذیرائی حاصل