Dhaka Main Aaunga

DHAKA MAIN AAUNGA ڈھاکہ میں آؤں گا

Inside the book
DHAKA MAIN AAUNGA

PKR:   1,500/- 900/-

Author: SOHAIL PARWAZ
Pages: 448
ISBN: 978-969-662-318-2
Categories: NOVEL FALL OF DHAKA / EAST PAKISTAN BOOKS ON SALE
Publisher: BOOK CORNER
★★★★★
★★★★★

Reviews

K

Khan Abdul Rasheed (Rawalpindi)


M

Ms. Mehwish Virk (Lahore)


Z

Zaara Mazhar (Islamabad)

جب گگن شاہد نے خبر دی کہ سہیل پرواز سر کا ناول آنے والا ہے اور وہ سقوطِ ڈھاکہ کے پسِ منظر میں لکھا گیا ہے تو میری بے چینی عروج پہ پہنچ گئی ۔۔ ڈھاکہ میرے لئے پرستان کی سی اہمیت رکھتا ہے ماں اور بابا اسی زمانے میں ڈھاکہ کے رہائشی تھے اور بابا ڈھاکہ کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت اور نمایاں نام رکھتے تھے اور اسیری سے رہائی کے بعد لوٹے تھے ۔ اس پرستان کے ایسے ایسے قصے ہم نے سن رکھے ہیں کہ ہم تمام اولادوں کے دل میں ایک ایک ڈھاکہ بستا ہے ۔۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عالمی نقشے پر پاکستان کی پیدائش ١٩٤٧ء کے حوالے سے کئی خون رنگ کہانیاں ہمارے ادب کی زینت ہیں لیکن ان کہانیوں کے آخر میں قربانیوں میں شہزادے شہزادیوں کے ملن کی طرح ایک آزاد وطن کا انعام مل جانا تقویت کا باعث ہے ۔ یہ دوسری بڑی حقیقت ہے کہ بنگلہ دیش کو کاٹ کر پاکستان کو اپاہج کر دینا بہت بڑا المیہ اور سازش تھی وہ زخم کبھی بھرا نہیں جا سکا بلکہ خون رستا ہی رہتا ہے اور سانحے کے انجام پہ نظر ڈالیں تو زخم چِھل کر دہکنے لگتے ہیں ایک ایسا گھاؤ جو کبھی بھرا نہیں جا سکا ۔۔۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے حسّاس ادیب نے اس تکلیف دہ موضوع کو زیادہ اہمیت کیوں نہیں دی یعنی اس موضوع پہ اتنا نہیں لکھا گیا جیسا لکھنے کا حق تھا ۔۔
خیر ناول کا موضوع علم ہوتے ہی میں نے گگن بھائی سے کتاب کی ایڈوانس بکنگ کروا لی اور ٹھیک بیس پچیس روز بعد ناول پبلش ہوگیا ۔۔۔ اگلے ہی روز مجھے مل بھی گیا ۔۔۔
میری ڈھاکہ کے ساتھ ایک جذباتی وابستگی تھی ۔ دل کے ایک کونے میں چھوٹا سا ڈھاکہ سو رہا تھا یہ ناول پڑھتے پڑھتے میرے اندر دھماکے ہونے لگے جیسے چاغی کے پہاڑوں کا رنگ ٢٨مئی ١٩٩٨ء کو بدلا تھا اور سویا ہوا ڈھاکہ انگڑائی لے کر اٹھ بیٹھا ۔۔۔
ناول کی بنیاد مشرقی و مغربی پاکستان کے دو خوشحال خاندانوں کے ساتھ رکھی گئی ۔۔ ناول کا ہیرو مشفق الاسلام مشرقی پاکستان سے پاک فوج کے لئے منتخب ہو کر تربیت کے لئے ڈرتا جھجھکتا مغربی پاکستان میں آتا ہے جہاں مغربی پاکستانیوں کی بے پناہ محبت اس کے دل میں گھر کر لیتی ہے ۔ وہ ان محبتوں کا اسیر ہو جاتا ہے اور ایک اتفاق کے تحت اسے یہاں اپنے روم میٹ کیڈٹ کے گھر اور فیملی سے ہمدردی ہو جاتی ہے جو بعد میں رشتہ داری میں بدل جاتی ہے اور وہ اس گھر کا بیک وقت بیٹا اور داماد بن جاتا ہے ۔
شروع میں تو لگا کہ دو الگ بھاشا بولنے والے علاقوں کے لوگوں کی محبت و معاشرت کی ایک ہلکی پھلکی داستان ہے ۔ ہلکی سی اکتاہٹ ہوئی لیکن مجھے ناول ہر حال میں پورا پڑھنا تھا ۔۔ جلد ہی مجھ پہ آشکار ہوا وہ اکتاہٹ نہیں بلکہ اسیری سے پہلے والی احتیاط اور بے چینی تھی جوں جوں کہانی آگے بڑھتی گئی مجھے اسیری کے سنہرے پنجرے میں جکڑنے لگی ۔ داستان میں محبت کے ساتھ سرفروشی اور جذبۂ حب الوطنی غالب آنے لگی ۔۔۔ کہیں کہیں میٹھی بنگلہ بھاشا کے جملے سماعتوں میں رس گھولنے لگے وہی جملے جو ماں اور بابا آپس میں بولتے تھے ۔۔ سیاسی و معاشی کئی طرح کی غلط فہمیاں کھل کر سامنے آنے لگیں جو آخر تک دھل گئیں ۔ ( یہ مصنف کا کمال ہے )
شیخ مجیب الرحمان اور انکی عوامی لیگ کی وجوھات اور انڈین آقاؤں کے ہاتھوں کھیلنے بلکہ بکنے کی روداد سے صحیح معنوں مین واقفیت ہوئی ۔ تاریخ کی طالب علم ہونے کے باوجود مکتی باہنی فورس کی داغ بیل کیوں اور کیسے پڑی یہ گتھی کبھی نہیں سلجھتی تھی یہاں مصنف نے اتنی نرمی سے یہ گرہ کھولی کہ سب کچھ واضح ہوگیا ۔
اصل کہانی تو ڈھاکہ فال کے بعد شفو بھیا کے ہتھیار نہ ڈالنے سے شروع ہوئی ۔ انکے فرار اور جنگلوں میں رفت و قیام کے آلام اور مفلسی کے واقعات , اتنے دلگداز تھے کہ بعض دفعہ تو رونگھٹے کھڑے ہوگئے ۔ کئی دفعہ دل بھر آیا ۔۔ یکے بعد دیگرے ان کے دو عزیز از جان ساتھیوں کی شہادت اور کسمپرسی پہ دل لہو ہوگیا ۔ مجھے خود پہ حیرت ہے میں نے ناول کے کئی پیراگراف باآوازِ بلند پڑھ کر خود کو سنائے ۔ بھرے گلے کو دل میں اور بجتے دل کو اپنے کانوں میں سنا ۔۔ شائد میں ناول کو آنکھوں اور دل دونوں طرح سے منظر کرنا چاہتی تھی ۔
برما کی جیل میں پندرہ برس کی قید کے بعد بھی ایک محب الوطن مجاہد کے ہتھیار نہ ڈالنے کی کہانی نے دل میں کئی زخم ڈالے لیکن اپنی فوج کے ایک ایک سپاہی پہ اعتماد اور بھی بڑھ گیا ۔ ناول سپاہی کے فرض اور محبت کی ایک خوبصورت داستان بھی ہے جس نے وطن کی آن پہ اپنے بشری تقاضے قربان کر دئیے لیکن شکست تسلیم نہیں کی ۔ طویل قید و بند کی صعوبتوں کے بعد اچانک رہائی اور اپنے گھر والوں سے ملنے کی داستان بھی دل کو کئی بار رقیق کر گئی ۔۔ آخر میں مصنف نے جس شان کے ساتھ ہیرو مشفق کو اس کے آبائی شہر اور خاندان کی طرف واپس لوٹایا ملک دو لخت ہونے کے باوجود دل اش اش کر اٹھا ۔۔ اور ناول کے عنوان کا مقصد بھی سمجھ میں آگیا ۔
مجھے یقین ہے کہ یہ ناول ادب کے افق پہ ایک تابندہ ستارے کی مانند جگمگانے جا رہا ہے ۔ ناول کو بے پناہ پذیرائی ملےگی اور یہ بھی یقین ہے کہ اسے جلد یا بدیر فلمایا بھی جائے گا ۔ اس کہانی کو زیادہ پراثر کرنے کے لئے اور نسلِ نو کی آگاہی کے لئے اسے فلمایا جانا بے حد ضروری ہے ۔ میری نیک تمنائیں ہیں کہ ناول چودھویں کے چاند کی مانند ادب کے بام پہ جگمگائے ۔ میں تو اس ناول کی اسیر ہو گئی ہوں جلد رہائی ممکن نہیں ۔۔


K

KD Muzammil (Sargodah)

کاغذ کی یہ مہک ' یہ نشہ روٹھنے کو ہے
یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی
( سعود عثمانی نے برسوں پہلے یہ شعر لکھا تھا جو زبان زد عام بھی ہوا اور کتاب عاشقوں کی دل کی دھڑکنوں کو بے ترتیب کرنے کا سبب بھی۔
کتاب کی جاگ جسے لگی ہو جو کرم کتابی کی حیثیت رکھتا ہو بھلا اس کو یہ کہا جاٸے کہ کتاب کا نشہ روٹھنے کو ہے تو اس کی سانسوں کا اٹکنا تو بنتا ہے ۔۔۔
کتاب کے حوالے سے اس دور پرآشوب میں شاہد حمید کے صاحبزادوں گگن شاہد اور امر شاہد نے عشاقان کتاب کی سانسوں کو ترتیب میں رکھنے کا بیڑا اٹھایا ہے یہ دو صاحبان کتاب کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے بل بوتے پر وہ حسن دلکشی اور رعناٸی عطا کردیتے ہیں کہ کتاب دوست کے لیے کتاب آنکھوں کی ٹھنڈک بن جاتی اور اس کی خوشبو مسام جاں کو معطر بھی رکھتی ہے۔
کافی دنوں سے ایک ایک روپے کو سینت سینت کر رکھنے کا پروگرام بنا رکھا تھا اس پر کاربند بھی تھا لیکن بک کارنر جہلم سے اشاعت کردہ سہیل پرواز کی "ڈھاکہ میں آٶں گا" فیس بک پر نظر آٸی تو سارے پروجیکٹ بچتوں کے سب پروگرام چھٹ سے ٹوٹ گٸے اور فورا کتاب کی درخواست بھیج دی ۔کتاب کی ترسیل میں حیران کن حد تک تیزی دیکھی۔کسٹمرسےان کا رابطہ بھی قابل تحسین رہا۔ دودن میں میرے ہاتھ میں کتاب آگٸی ۔اب صاحب کتاب نے کیا لکھا میں اس سے کتنا متفق ہونگا یہ تو بہت بعد کی بات ہے لیکن اس بات پر میں صدقےواری ہورہا ہوں بک کارنر والوں کا کہ اللہ اکبر کتاب سے اتنی محبت۔
دیدہ زیب سرورق جس کی کھردری سطح پر انگلیوں کے پور مس ہوں تو ایک عجیب سا لطف محسوس ہو۔ کتاب کی باٸنڈنگ بہت اعلیٰ یعنی صوری خوبیوں سے مزین کتاب اب میری لاٸبریری کا حصہ بن چکی ہے اور سونے پر سہاگہ کتاب پر شاید صاحب کتاب سہیل پرواز صاحب کے دستخط بھی موجود ہیں۔ میں بک کارنر والوں کی کتاب سے محبت کو دیکھتے ہوٸے بخدا کہہ سکتا ہوں کہ گگن شاہد اور امر شاہد کے ہوتے ہوٸے انشااللہ یہ صدی کتاب کی آخری صدی نہیں ہوگی یہ دو شہزادے کتاب سے محبت کرنا سکھا جاٸیں گے اردو دان طبقہ کو ۔۔
حافظ خداداد مزمل


S

Sufyan Sabir (Gujrat)

الحمدللہﷻ میری لائیبرری میں175 کتابیں ہو گئی ہیں جن میں سب سے زیادہ 100 کے قریب بک کارنر جہلم والوں سے آنلائن خریدی ہیں ۔بک کارنر والوں نے کتابیں پڑھنے کا ایسا ,چسکا، ڈالا ہے کے الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتا شکریہ گگن شاھد اور امر شاھد کا


I

Irfan Hameed Mirza (Karachi)

شکریہ بک کارنر شو روم، اس سے زیادہ برق رفتار کتب کی ترسیل ممکن نہیں 24 گھنٹے میں کتاب آپ کے ہاتھوں میں


N

Naeem ur Rehman (Karachi)

”ڈھاکا!میں آؤں گا” ایک دلچسپ ناول توہے ہی،اس میں دھیمادھیمارومان،تاریخ،ثقافت،جنگی واقعات ومنصوبہ بندی،مہم جوئی اور فرار بھی موجود ہیں۔جوناول کی دلچسپی کوفزوں ترکرتے ہیں اورقاری کوکسی مرحلے پربھی بورنہیں ہوتا۔ جہلم بک کارنرکے روایتی حسن طباعت نے مطالعے کے لطف کودوبالاکردیاہے۔ جس میں دیدہ زیب سرورق،شاندارکتابت وطباعت،بہترین جلدبندی کے ساتھ ساڑھے چارسوصفحات کی کتاب کی نوسوروپے قیمت بہت مناسب ہے۔


B

Bukhari Bukhari

پچھلے کچھ دنوں سے جاری ڈھاکہ کا سفر آج اختتام کو پہنچا!
میں تاریخ کی طالبہ رہی ہوں اور کچھ طبعی رحجان بھی تاریخ پڑھنے اور کھوجنے کی طرف ہے۔
"ڈھاکہ!میں آؤں گا"سہیل پرواز کا سقوط ڈھاکہ سے متعلق ایک عام فہم ناول ہے جس میں سیدھے سادھے اور دلچسپ انداز میں تاریخ کے اوراق سے پردہ اٹھایا گیاہے ۔
یقیناً یہ مٹی اور محبت کی کہانی ہے مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک ایسے فوجی کی کہانی جس نے صوبائی عصبیت سے زیادہ پاکستان سے محبت کا ثبوت دیا۔اور اس کےلیے ہر قسم کی قربانیاں دیتے ہوئے پندرہ سال کا بن باس کاٹا۔
ایک سیدھے سادھے پیرائے اور آسان اسلوب سے شروع ہونے والی اس کہانی نے 100صفحات کے بعد ایسے جکڑا کہ کتاب کو مکمل کیے بغیر رکھنا بہت مشکل ہو گیا۔
محب وطن مشفق السلام کی قربانیوں،فرار کی صعوبتوں،اردلی عاشق اور کیپٹن اسدکی دیارغیر میں شہادت نے سچ میں رلا دیا۔
کیپٹن مشفق کی سترہ سال بعد گھر والوں سے ملاقات میں تو میں بھی مائرہ اور مائزہ کے ساتھ کیپٹن مشفق کے گلے لگ کے روئی اور ربابہ سے بات کرتے ہوئے میری بھی ہچکیاں بندھ گئی۔
آہ ہا😰😰😰کتنا بڑا سانحہ گزرا اس ملک وملت کے ساتھ۔
کتنے جان سے گئے۔کتنے زمین گور ہوئے اور کتنے زندہ درگور ہوئے۔
کتنے ہوں گے جو کل کے بچھڑے آج تک نہ مل پائے😭😭
یہ ایک ایسا سانحہ ہے جس کے بارے میں ہمارے بچے بچے کو پتہ ہونا چاہیئے اس کتاب کو بھی ہر پاکستانی کو اور ہر بچے کو پڑھنا چاہیے۔تاکہ اس قوم کو آئندہ ایسے کسی صدمے سے نہ گزرنا پڑے۔


L

Lalarukh Shehnaz

حال ہی میں ناول مکمل پڑھا -سپاہی کی نجی اور پیشہ ورانہ زندگی کی عکاسی کرتا ہے-کس طرح ایک پاکستانی فوج کے بنگالی فوجی نے پاکستانی ہونے کے ناطے سقوط ڈھاکہ کے بعد پاکستان کو بنگلہ دیش پر ترجیح دی اور اسے کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا - مشرقی اور مغربی پاکستان کی کلچرل ڈائیورسٹی، مہمان نوازی کا بہترین انداز میں تذکرہ کیا ہے -مشرقی پاکستان جو کہ اب موجودہ بنگلہ دیش ہے وہاں کے موسم ، وہاں کی آب و ہوا ، وہاں کے دریا ، برسات کا ایسا ذکر
کیا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم آج سے پچاس
سال پہلے وھیں موجود ہیں
مزید یہ کہ سقوط ڈھاکہ کے وقت مشرقی اور مغربی پاکستان میں موجود محب وطن پاکستانیوں
کے کیا جذبات تھے اس کا بھی بہترین انداز میں تزکرہ کیا ھے
اللہ آغا جان کو صحت اور زندگی دے کہ وہ مزید - وہ تمام لوگ جو 80 اور 90 کی دہائی میں پیدا ہوئے ہیں مشرقی پاکستان یعنی موجودہ بنگلہ دیش کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں ان کے لیے یہ بہترین ناول ہے
لکھتے رہیں آمین


م

میاں شاہد عمران (Sargodha)

سہیل پرواز جولائی 1950 میں لاہور کے ایک ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ فوج میں ملازمت کی اور فوج کے شعبہ تعلقات عامہ سے منسلک رہے۔ ملازمت کے آخری سالوں میں ریڈیو ، ٹی وی اور اخبارات میں لکھنے کا آغاز کیا۔۔
زیرِ تبصرہ ناول پاکستان کی تاریخ کے بدنما داغ سقوطِ ڈھاکہ کی المناک داستان ہے۔
اس ناول کی ابتدا 1965 کی جنگ کے خاتمے کے فوری بعد یعنی لگ بھگ 1966-67 میں ہوتی ہے۔ ناول کا مرکزی کردار مشفق ہے جو کہ مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) کے ایک مسلم لیگی خاندان کا چشم و چراغ ہے۔ مشفق کے والد بدر الاسلام کے مجیب الرحمٰن کے ساتھ گہرے مراسم ہونے کے باوجود وہ کٹر مسلم لیگی اور محب وطن پاکستانی ہیں۔ اسی بنا پر مشفق پاک فوج میں کمیشن حاصل کرتا ہے اور پھر کمانڈوز میں شامل ہو جاتا ہے۔ ناول مکمل طور پر مشفق کے گرد گھومتا ہے۔ بیانیہ بالکل رواں اور اسلوب سادہ اور مربوط پلاٹ کا حامل ناول ہے۔
ناول ابتدا ہی سے قاری کی دلچسپی اپنی جانب کھینچ لیتا ہے۔ لیکن آگے چل کر ناول کی سست رفتاری قاری پر تکان سی پیدا کر دیتی ہے۔ لیکن جوں جوں ناول منطقی انجام کی طرف بڑھتا ہے تو واقعات میں تیزی آ جاتی ہے جو قاری کو اپنے حصار میں پوری طرح جکڑ لیتی ہے۔ مصنف نے ناول میں جذبات نگاری کے فن کا ایسا کامیاب مظاہرہ کیا ہے جس سے قاری متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا اور بار بار آنکھیں دھندلا جاتی ہیں۔ یہ ناول جہاں ایک سے زائد رومانوی قصوں کو ساتھ ساتھ لے کر چلتا ہے وہاں یہ ناول 1966 سے 1987 تک کے پاکستان کی سیاسی تاریخ کا بیانیہ بھی ہے۔ اگر چہ سیاسی حالات کو بہت مختصر طور پر بیان کیا گیا ہے ۔
اس ناول میں مصنف نے پاکستان کے ٹوٹنے اور اس کے پیچھے موجود ہاتھوں کے بارے میں اپنا نکتہ نظر پیش کیا ہے۔ جہاں ایک طرف ہمارا ازلی دشمن بھارت اپنی خباثت کے ساتھ موجود تھا تو دوسری طرف ہمارے اپنے نام نہاد ملک کے خیر خواہ سیاست دانوں نے بھی پاکستان کو توڑنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔
سقوط بنگلہ دیش کی وجہ سیاستدانوں کی ہوس اقتدار کا نتیجہ ہے.
مجیب نے انتخابات میں مشرقی پاکستان میں
162 میں سے 160 نشتیں حاصل کی۔ اور بھٹو نے 138 میں سے 84 نشستیں حاصل کی اس طرح مجیب کو انتخابات میں سادہ اکثریت حاصل ہوگئی تھی ۔ اقتدار پر فائز ہونا مجیب کا جمہوری حق تھا۔ اگر قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوجاتا تو ملک کے کبھی بھی دو لخت نہ ہوتا! لیکن جمہوریت کے لبادے میں آمریت کا روپ دھارے ہوئے مکر و فریب سے بھر پور سیاستدان نے کہا کہ مشرقی پاکستان سے آنے والے اراکین اسمبلی کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی اگر وہ اجلاس میں شریک ہوئے"
یہ وجہ تھی ملک ٹوٹنے کا باعث بنی اور دشمن کو در اندازی کا موقع ملا۔
بنگلہ دیش کی علیحدگی کی وجہ صرف اور صرف سیاستدانوں اور جرنیلوں کی ہوس اقتدار اور
خبث باطن ھے!
جہاں پر ناول نگار نے ہندوستان کو اس سانحے کا زمہ دار ٹھہرایا ہے وہاں یہ بھی اقرار کرتے نظر آتے ہیں کہ اس میں قصور مغربی پاکستان کا بھی تھا۔ لکھتے ہیں کہ:-
ہماری غیر زمہ دارانہ روش اور غفلت نے ہمیں اس مقام تک پہنچایا ہے۔ ہم مشرقی پاکستان والوں کو تو دوش دیتے ہیں لیکن ہم مغربی پاکستان والوں نے بھی ان کے ساتھ بہت ناانصافیاں کی ہیں۔ (ص 301)
سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے جتنے ناول بھی نظر سے گزرے تقریباً سب کا اختتام سقوطِ ڈھاکہ کے ساتھ ہی ہو جاتا ہے مگر یہ ناول اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس کا ہیرو مشفق ہتھیار ڈالنے کے بجائے فرار کی راہ اختیار کرتا ہے اور پھر بنگلہ دیش کے راستے برما میں داخل ہو جاتا ہے۔ اس فرار میں اس کے ساتھ ایک آفیسر محمد اسد اور ایک اردلی بھی شامل ہوتے ہیں۔ یہ سفر بہت کٹھن، دشوار گزار اور پرخطر پہاڑی جنگلات پر مشتمل ہوتا ہے۔ اور مشفق کے دونوں ساتھی مختلف وجوہات کی بنا پر راستے میں ہی اللہ کو پیارے ہو جاتے ہیں۔ اور ایک سال سے زاید عرصے کے سفر کے بعد مشفق جب رنگون پہنچتا ہے تو جاسوسی اور سازش کے الزام میں جیل میں ڈال دیا جاتا ہے جہاں وہ مزید پندرہ سال تک قید و بند کی صعوبتوں سے گزرتا ہے۔ اور بالآخر پندرہ سال بعد اسے رہائی ملتی ہے۔ مشفق کو رہائی کیسے ملی؟
وہ گھر کیسے پہنچا؟
اس کا پر خطر سفر کیسا رہا یہ تمام تر تفصیلات آپ ناول پڑھ کر ہی جان سکتے ہیں۔۔


J

Jamila Hussain

"ڈھاکہ میں آؤں گا" انتہائی پراثر اور سحر انگیز تحریر ، پڑھنے والئے کو آخری باب تک اپنے گرفت میں لئے رکھتی ہے ۔۔۔ ایک عرصہ بعد اتنی عمدہ کتاب لکھنے پر مصنف جناب سہیل پرواز اور ادارہ بک کارنر جہلم کو دلی مبارکباد ۔۔۔۔


RELATED BOOKS