DOCTOR ZHIVAGO ڈاکٹر زواگو
PKR: 1,500/- 1,050/-
Author: BORIS PASTERNAK
Tag: BORIS PASTERNAK
Pages: 608
ISBN: 978-969-662-344-1
Categories: WORLD FICTION IN URDU NOVEL WORLDWIDE CLASSICS
Publisher: BOOK CORNER
رُوسی انقلاب سے جنم لینے والی ایک لازوال کہانی، جس نے اُس دَور کے انسانوں کی زندگیاں ہمیشہ کے لیے اچانک بدل دیں۔ عوام رُوسی بادشاہ کے خلاف انقلاب لے تو آئے لیکن پھر اسی انقلاب سے اَن گنت دُکھوں نے جنم لیا جس کا شکار لارا، تانیا، ساشا اور ڈاکٹر زواگو جیسے مظلوم ہوئے۔ بعض کتابیں، ادیب اور ناول سلطنتوں، حکومتوں اور معاشروں سے بھی بڑے ہو جاتے ہیں۔ ایسے غیرمعمولی ناول جُنون سے لکھے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر زواگو اُن عظیم ناولوں میں سے ہے جس نے ایک پوری ایمپائر کو لرزا کے رکھ دیا تھا۔ اس ناول نے بالشویک انقلاب داؤ پر لگا دیا اور جنگِ عظیم دوم کے بعد رُوس اور مغرب کے درمیان جاری سرد جنگ کے دنوں میں ایک نئی کش مکش کا سبب بنا۔ بورس پاسترنک ڈاکٹر زواگو کے دُکھوں کی کہانی لکھ رہا تھا جو دو عورتوں کی محبّت کے درمیان پِس کر رہ گیا تھا۔ غریبوں نے امیروں کے خلاف بغاوت کر دی تھی۔ بادشاہ کو خاندان سمیت قتل کر دیا گیا۔ ناول نگار انقلاب کے بعد لہولہان رُوسی معاشرے میں بچ جانے والے انسانوں کی محبّت کی کہانی کو نیا رنگ دے رہا تھا لیکن انقلابیوں کو یوں لگا، ان کا انقلاب اس ناول کی وجہ سے خطرے میں ہے اور ہر قیمت پر ناول کو چھپنے اور پڑھنے سے روکنے میں بقا ہے۔ امریکیوں کو لگا، یہ موقع ہے، وہ اس عظیم ناول کی کاپیاں چھپوا کر دُنیا بھر میں بانٹ دیں تاکہ لوگ بالشویک انقلاب سے نفرت محسوس کریں۔ دُنیا کی طاقت ور ایجنسی سی آئی اے سب کام چھوڑ کر ’’ڈاکٹر زواگو‘‘ کو چھپوا کر دُنیا میں بانٹنے پر لگ گئی۔ رُوس کی برف پوش دھرتی سے جنم لینے والی جنون اور پیار کی ایسی کہانی جو صدیوں میں لکھی جاتی ہے۔ ایک عورت اور ایک مرد کی محبّت، جو کئی دہائیاں گزرنے کے بعد بھی فنا نہیں ہو رہی۔ محبّت کی وہ کہانی جو بار بار لکھی اور بار بار پڑھی جارہی ہے۔ محبّت چیز ہی ایسی ہے، نہ کرنے والے تھکتے ہیں، نہ لکھنے اور پڑھنے والے۔ ڈاکٹر زواگو، ایک ایسا ناول جس نے اشاعت کے ریکارڈ توڑے۔ وہ تحریر جسے باربار بین کیا گیا، چھپایا گیا، ادیب پر پابندیاں لگائی گئیں لیکن محبّت کی یہ کہانی پھر بھی منظرِعام پر آئی اور اسے ادب کا عالمی نوبیل پرائز ملا۔ یہ اس شخص کی کہانی ہے جو ایک شاعر تھا، ایک ڈاکٹر بھی۔ وہ انقلاب کی افراتفری کے درمیان جہاں اپنی بیوی بچّوں کو مشکل ترین حالات سے بچانے کی کوششوں میں مصروف تھا، وہیں وہ ایک خوب صورت نوجوان لڑکی لارا کے عشق میں بھی گرفتار تھا۔ لارا پہلے سے شادی شدہ تھی اور اس کی خاطر وہ ہر رُکاوٹ عبور کرنے اور خطرات کا سامنا کرنے کو تیار تھا۔ اس ناول کی ایک سطر ہی آپ کو اُس دَور کی پوری کہانی سنا دیتی ہے، جب لارا اپنے محبوب ڈاکٹر زواگو سے کہتی ہے: ’’It's awful time to be alive, Yuri‘‘... یہ ایک فقرہ دِل کو ایک تیز آری سے کاٹ کر رکھ دیتا ہے۔ ہر شخص کو اس دُنیا سے رُخصت ہونے سے پہلے چند کتابیں ضرور پڑھنی چاہئیں۔ اس غیرمعمولی فہرست میں ڈاکٹر زواگو شامل نہیں تو سمجھ لیں آپ نے زندگی ادھوری گزار دی۔
رؤف کلاسرا
کچھ مصنف کے بارے میں:
بورس پاسترناک (10 فروری 1890ء - 30 مئی 1960ء) نوبیل انعام یافتہ رُوسی شاعر، ناول نگار اور مترجم، اپنے واحد ناول ’’ڈاکٹر زواگو‘‘ کے باعث عالمی شہرت کے حامل۔ ماسکو کے ایک امیریہودی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ والد لیوند پاسترناک ماسکو سکول آف پینٹنگ میں پروفیسر اور ٹالسٹائی کی کتابوں کے مصور تھے، والدہ کنسرٹ میں پیانو بجایا کرتی تھیں۔ والدین کا ماسکو کے ادیبوں اور موسیقاروں کے ہاں مستقل آنا جانا تھا جس سے بورس کے فن پر گہرے اثرات مرتّب ہوئے۔ ابتدائی تعلیم یوکرائن کے مذہبی سکول میں ہوئی۔ بعدازاں ماسکو میں موسیقی اور جرمنی میں فلسفے کی تعلیم پائی تاہم ڈاکٹریٹ کی ڈگری لیے بغیر واپس رُوس چلے آئے اور شوقیہ اپنی شاعری چھپوانے لگے۔ جنگ عظیم اوّل اور 1917ء میں ’’اکتوبر انقلاب‘‘ کے بعد ان کے خاندان کے بیش تر افراد رُوس سے چلے گئے۔ بورس نے وطن نہیں چھوڑا۔ وطن کی یہی محبت آگے کی زندگی میں بھی بورس کے ’آڑے‘ آتی رہی۔ 1922ء میں ان کی شاعری کی کتاب’’Life, My Sister‘‘ رُوسی ادب میں انقلاب انگیز ثابت ہوئی اور اس نے جدید رُوسی شاعری کی راہ متعین کر دی ۔ بعد ازاں بورس اپنی شاعری میں مسلسل تبدیلیاں لاتے رہے اور اسے زیادہ سے زیادہ عوام فہم بنانےکے لیے کوشاں رہے۔ ساتھ ہی ساتھ شیکسپیئر، گوئٹے اور دیگر ادیبوں کی تحریروں کے رُوسی میں تراجم بھی کیے۔ 1957ء میں ’’ڈاکٹر زواگو‘‘ کی اشاعت پر انھیں بین الاقوامی شہرت ملی۔ اشاعت کے فوراً بعد اس ناول کا اٹھارہ زبانوں میں ترجمہ ہوگیا۔ بورس کی دیگر مشہور کتابوں میں ناولٹ ’’The Last Summer‘‘، آپ بیتی ’’Safe Conduct‘‘اور رُوسی ترجمہ’’Faust‘‘ شامل ہیں۔
کچھ مترجم کے بارے میں:
یوسف صدیقی (16 اکتوبر 1919ء -28 فروری 1985ء) مشرقی پنجاب کے ضلع انبالہ کے شہر روپڑ میں پیدا ہوئے۔ کچھ عرصے بعد والد بہ سلسلہ ملازمت دلّی منتقل ہوئے تو وہیں سے 1934ء میںگورنمنٹ ہائی اسکول سے میٹرک پاس کیا۔ 1937ء میں محکمہ ڈاک میںملازمت کی۔ تعلیمی سلسلہ بھی جاری رہا۔ 1938ء میں اورینٹل کالج سے بی اے کیا اور اسی سال روزنامہ وطن دلّی سے خارزارِصحافت میں قدم رکھا۔ 1942ء میں روزنامہ انصاری میں آگئے اور 4 سال تک صحافت کے ہر شعبے کی تربیت اورتجربہ حاصل کیا۔ 1946ء میں نیوز ایڈیٹر کی حیثیت سے روزنامہ جنگ میںشامل ہوئے۔ پاکستان بنا تو یوسف صدیقی بھی کراچی آگئےاور جنگ کے ساتھ ساتھ ریڈیو پاکستان میں آغاز ہی سےوابستہ ہو گئے۔ 1957ء میں ’’ڈاکٹر زواگو‘‘ اٹلی سے شائع ہوا، یوسف صدیقی نے اِسے پڑھا تو ترجمہ کرنے کی ٹھان لی۔ یہ وہ زمانہ ہے جب وہ کچھ مدّت کےلیے جنگ سے علیحدہ ہو چکے تھے۔ یوسف صدیقی کی انگریزی میں مہارت جہاں ایک صحافی کے طور پر ان کے بڑے کام آئی، وہیں وہ بہترین مترجم بھی بن کرابھرے۔ اس کے ثبوت، دُنیا کی کئی مشہور کتابوں کے تراجم ہیں۔ اِن میں سب سے زیادہ شہرت جس ترجمے کو حاصل ہوئی، وہ ’’ڈاکٹر زواگو‘‘ کا ترجمہ ہے۔ انھوں نے مصر کے حکم راں کرنل جمال عبدالناصر کی زندگی کی ’’ہے پُراسرار داستانِ جمال‘‘، فرانسیسی استعمار سے الجزائر کی جنگِ آزادی کے مجاہدین ’’بومدین‘‘ اور ’’جمیلہ بوحیرد‘‘ کی زندگی اور جدّوجہد کی سلسلےوار داستانیں بھی لکھیں۔
Reviews
Humaira Yousafi (Lahore)
Absar Ahmed
Received my Parcel....!!
Quick delivery
Good Quality💯
Muhammad Zahid Iqbal (Bahawalpur)
بورس پاسترناک نے اس ناول میں لینن کی سربراہی میں زار کے ظلم واستبداد کےخلاف کسانوں اور مزدوروں کے انقلاب کا جس جزئیات کے ساتھ نقشہ کھینچا ہے وہ فقید المثال ہے۔ یہ ایک ایسا ناول ہے جو نا صرف نثری لطافت سے بھر پور ہے بلکہ صنعت بدیع کے اعتبار سے کسی بھی منظوم داستان سے زیادہ پر لطف ہے۔
طبقاتی تفریق،تنہائی،نسلی تفاخر اور امتیاز،ظلم وبے حسی سے لے کر انفرادی بقاء جیسے متنوع موضوعات کو جس ماہرانہ انداز میں ایک لڑی میں پرویا گیا ہے اس کی عمدہ مثال اس ناول کے علاوہ شاید ہی کہیں اور مل سکے۔
بالشویک انقلاب نے جہاں پاشا کی صورت میں جابرانہ نظام سے منسلک اقدار اور روایات کو تہہ وبالا کیا وہیں اس کمیونسٹ اقتدار نے پاشا اور اس جیسے کئی انقلابیوں کی نجی زندگیوں کو بھی نگل لیا۔
بالشویک انقلاب کے مصائب وآلام سے دوچار یوری آندرے وچ زواگو جہاں اپنی اور اس سے منسلک تونیا ،لارا ،مرینا اور شاسا کی بقاء کی جنگ لڑ رہا تھا وہاں اس کمیونسٹ اقتدار کے کھوکھلے نعرے 'امن، زمین اور روٹی ' کی دھجیاں بھی بکھیر رہا تھا۔
ناول کے مرکزی کردار ڈاکٹر زواگو کےماسکو سے یورال ،واری کینو اور پھر ماسکو تک کے سفراور اس کی تونیا اور لارا کے متعلق اخلاقی جنگ کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے وہ بلاشبہ بالشویک انقلاب کے تباہ حال معاشی و معاشرتی اور سیاسی و سماجی اقدارکا آئینہ دار ہے۔
Irfan Hameed Mirza (Karachi)
آج موصول شدہ کتابیں جن کو دیکھ کر شدید گرمی کا احساس زائل ہو گیا۔ انتہائی سلیقے سے پارسل تیار کیا جاتا ہے کہ کتابوں کی قدر دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔ مگر ایک زیادتی ہے کہ بک کارنر جہلم کی جانب سے کتابوں کی اشاعت اتنی جلدی جلدی ہو رہی ہے کہ ایک یا دو کتابوں کا آرڈر کر کے ہٹتے نہیں کہ دوسری کتاب کا اشتہار موجود ہوتا ہے جس کو دیکھ کر دل للچا جاتا ہے کے اس کو بھی منگوالو۔ اللہ بک کارنرجہلم کو دن دگنی رات چوگنی ترقی و کامیابی دےاور اس سے منسلک تمام لوگوں کی عمر میں برکت دے اور ہر پریشانی سے محفوظ رکھے۔ آمین
Jawad Haider
ڈاکیا ڈاک لایا اور میرے لئے کیسی شاندار سوغات لایا۔۔۔۔
مشکل سے پیکنگ کھولی اور سات تہوں میں چھپی کتابیں باہر نکالیں۔
ہمیشہ کی طرح شاندار پیکنگ، خوبصورت پرنٹنگ اور بروقت رسائی۔
کتابیں کیسی ہیں یہ تو پڑھ کر ہی معلوم ہوگا، سردست تو ان کی چھپائی اور مہک کے سرور میں ہوں۔
شکریہ بک کارنر جہلم
Muhammad Tahir Umair (Kamalia)
تین کتابیں.
ایک خواب ایک خواہش اور ایک امید.
خواب:
ڈاکٹر زواگو:
ہالی ووڈ کلاسک موویز کی لت پڑی تو ان سے مشہور و معروف موویز کے اوریجنل ناول پڑھنے کا شوق پیدا ہوا.تو یہ خواب تھا کہ گاڈ فادر.. گون ود دی ونڈز.. پرائڈ اینڈ پریجوڈس.. اور ایک یہ ڈاکٹر زواگو... میرے پاس کتابی صورت میں ہوں..جیسی یہ لازوال فلم ہے ویسا ہی یہ انت اخیر سا ناول ہے. اللہ بھلا کرے کہ اس کا اردو ترجمہ ہوا. پڑھ کر تفصیلی ریویو دوں گا.
.
خواہش:
احمد مشتاق کا ترجمہ کیا ہوزے سارا ماگو کا یہ ناول اندھے لوگ (بلائنڈنس) جس کے بارے میں مستنصر حسین تارڑ نے کہا تھا کہ اسے پڑھ کر میرا دل کیا کہ اپنی کتابوں کو آگ لگادوں. یہ پی ڈی ایف میں ملا پڑھا اور تب سے خواہش تھی کہ یہ کتابی شکل میں میرے سرہانے سائیڈ ٹیبل پر پڑا ہوا. اور آج ایسا ہوچکا ہے. یہ میرے آل ٹائم فیورٹ ناولوں میں سے ایک ہے
.
امید:
اسامہ صدیق کے اس انگلش ناول (ترجمہ: چاند کو گل کریں تو ہم جانیں) کا شہرہ سن چکا تھا اور جب بک کارنر کی طرف سے اعلان ہوا کہ اس کا اردو ترجمہ شائع ہورہا ہے. تب سے بہت خوشی اور انتظار تھا. کہ یہ جلد از جلد میرے پاس ہو. اور یہ ہے. اور اب اس حسین و جمیل کتاب کی ظاہری خوبصورتی دیکھ کر امید بڑھ گئی ہے کہ اس کتاب کا ساتھ بہت دلفریب ہونے والا ہے.
.
کتابوں کا معیار... نہایت عمدہ پیکنگ.. برق رفتار ڈیلیوری کے ساتھ بک کارنر والوں کا تہہ دل سے ممنون ہوں