LAHOO RANG FALASTEEN لہو رنگ فلسطین
PKR: 1,500/- 1,050/-
Author: SALMA AWAN
Pages: 302
Year: 2024
ISBN: 978-969-662-571-1
Categories: NOVEL
Publisher: Book Corner
سلمیٰ اعوان کی تازہ تصنیف ’’لہو رنگ فلسطین‘‘ اُردو ادب میں اپنی نوعیت کا پہلا عظیم ناول ہے۔ جس میں تاریخ بھی ہے، عرب موسیقی کی دُھنیں بھی ہیں، محبت کی داستانیں بھی اور وہ سازشیں بھی جو یہودی ریاست کے قیام کے سلسلے میں عرصۂ دراز سے ہوتی آئی ہیں جن سے فلسطین ایک آتش کدے میں تبدیل ہو گیا اور مسلمان، یہودی، عیسائی اور آرمینیائی جو صدیوں سے بیت المقدس میں امن و سلامتی سے یکجا رہتے تھے اُن کے درمیان منافرتوں کی دیواریں حائل ہوتی چلی گئیں۔ یہ ناول اِس بد قسمت اور مظلوم فلسطینی قوم کی جیتی جاگتی کہانی ہے جو دو تہائی صدی سے وطن کی تلاش میں ہے۔ اِس ناول میں تاریخ کے مدّ و جزر اور ان کے زیر و بم کا اظہار بڑی عمدگی سے ہوا ہے۔ محترمہ سلمیٰ اعوان کی یہ کاوش قابلِ ستائش ہے۔
الطاف حسن قریشی
جس دن سے تمھارا ناول ’’لہو رنگ فلسطین‘‘ پڑھنا شروع کیا میں تو اُس کے Spell (سحر) سے نکل نہیں پا رہی تھی۔ بار بار جی چاہتا تھا کہ اِسے ہاتھ سے رکھ دوں اور قلم اور کاغذ لے کر بیٹھ جاؤں، اور اپنے جذبات تشکّر اور تحسین میں ڈبو کر جزاک اللہ اور اھلًا و سھلًا لکھ کر تم تک پہنچا دوں۔ بات یہ ہے سلمیٰ کہ تمھارا کام، تمھارے تصنیفی موضوعات اور پھر ان کو قلم بند کرنے والا فن اب کسی بھی تعریف یا توصیف سے نہ صرف بالا بلکہ بے نیاز بھی ہو چکا ہے۔ تم ان تمام لہو رنگ واقعات کو محض اپنے مطالعے، تخیّل اور کمالِ فن کے بل بوتے پر تخلیق نہیں کر رہی ہو بلکہ تمھارے چشم دید مشاہدے نے بھی 1899ء سے لے کر اب تک کے تاریخی اور سیاسی زیر و زبر کے دقیق اور صبر آزما مطالعے کو محسوسات اور محرکات کا حصّہ بنا کر جس انداز سے لکھا ہے، اُس کی تعریف اور تحسین مجھ جیسی ہیچ مدان کے بس کی بات نہیں۔ لہٰذا میں تمھارے کام اور فنی مہارت کے تجزیے سے قاصر کیا، قابل ہی نہیں۔ البتہ مرعوب ضرور ہو سکتی ہوں۔
سلمٰی اعوان نے ایک عرصہ سے ایسی ستم رسیدہ اور اقوامِ عالم کی نفرت گزیدہ قوم کی رودادِ اَلم کے بیان کا تہیہ کیا ہوا ہے جو عالمی سپر پاورز کا ہدفِ ملامت بنی ہوئی ہے۔ جس کی ہر بات، اس کی تہذیب، اس کی فکر و دانش، حد یہ کہ اُس کے دین اور پیغمبر تک کی نفی کر رہی ہے۔ سلمیٰ اعوان ایک قلمی جہاد کر رہی ہے۔ میں سوچتی ہوں کہ یہ خاتون اس قوم کے تنِ داغ داغ پر پنبہ کہاں کہاں رکھے گی اور اب اس نے ایک اور سازِ پُردرد پر اپنے قلم کی مضراب رکھ دی ہے۔ اور کس منفرد انداز میں، کس شائستہ اور پُر تحمل اسلوب میں، کیسے ٹھنڈے ٹھنڈے انداز میں اس کا لفظ لفظ فلسطین کے پھولوں، زیتون اور عرار کے شگوفوں کی مہک میں بسا ہوا ہے۔
الطاف فاطمہ
یہ ایک ایسا ناول ہے جو حقیقتوں سے آشنا کرواتا ہے۔ حسن و خوبی اور مہارت سے ہمیں تاریخ، ماضی اور حال سے آشنا کرتا ہے اور مستقبل میں بھی لے جاتا ہے۔ یہ کتاب بتاتی ہے کہ مسئلۂ فلسطین کیا ہے؟ اسرائیل کے اندر کیا ہو رہا ہے؟ کیسے عربوں کے حقوق پامال ہو رہے ہیں؟ جس سے ہمارے ہاں بہت کم لوگ واقف ہیں۔ فلسطین سے جذباتی وابستگی اور محبت اپنی جگہ، مگر اندر جا کر اُس سوسائٹی کو دیکھنا، لوگوں سے واقف ہونا بڑی بات ہے۔ سلمیٰ اعوان ٹیچر بھی ہیں۔ جرنلسٹ بھی رہی ہیں۔ اور ماشاء اللہ دنیا بھی خوب پھری ہیں۔ پاکستان کے اندر بلکہ میں کہوں گا کہ Subcontinent میں ایسی لکھاری مشکل سے ہی ہو گی کہ جس نے اتنے سفر کیے ہوں اور اپنے شوق سے کیے ہوں۔ انھوں نے ساری معلومات جذب کیں اور پھر ایک تخلیقی تجربے کی بنیاد رکھ دی۔ یہ ناول ایک حیرت کدہ ہے۔ میں نے اسے پڑھا تو میں اس پر بہت حیران ہوا ہوں۔ یہ ان کی بہت بڑی contribution ہے۔ ان کو داد دینی ضروری ہے۔ میں جب اسے پڑھ رہا تھا تو بہت حیران ہو رہا تھا کس کمال سے انھوں نے ایک صدی کی داستان کو ایک کیپسول میں بند کر دیا ہے۔
مجیب الرحمٰن شامی
’’لہو رنگ فلسطین‘‘ نے مجھے حیرت زدہ کیا۔ بالکل عجب ماحول کا ناول۔ پاکستان میں فلسطین کا سفارت خانہ اس کی مکمل اور باقاعدہ مدد کرنا چاہتا تھا مگر اسرائیل شیطان کسی طرح کی بھی اجازت دینے کو تیار نہ تھا۔ وہ ایک نہتی لڑکی جس کے ہاتھ میں قلم تھا، سے خوف زدہ تھا۔ سلمیٰ تو لیلیٰ خالد سے ملنا چاہتی تھی۔ یاسر عرفات کا گھر دیکھنا چاہتی تھی۔ وہ تو فلسطین کے جوانوں کے حوصلے کی داد دینا چاہتی تھی، فلافل تو اسے کھانے کے لیے بغداد میں بھی مل گئے تھے۔ لبنانی روٹیوں سے تو وہ پاکستان میں بھی واقف تھی۔ وہ جو عراق کے مشکل زمانوں میں حوصلے سے کربلا تک ہو آئی تھی۔ اکیلی گئی تھی۔ اپنے خرچ پر گئی تھی۔ دمشق کی امیہ مسجد میں ملنے والی ایک فلسطینی لڑکی کی کہانی لکھ کر اپنی محبت کا اظہار کرتی ہے۔ پھر سلمیٰ اعوان نے وہ تمام تاریخی کتابیں اور مخطوطے جو فلسطینی سفارت خانے نے اُسے بھیجے تھے اُن سب کی کہانیوں کو اپنے ناول کے کردار بنا دیا۔ کچھ بھی تو غلط نہیں ہے۔ مگر ہر جگہ ایک کسک نظر آتی ہے، آخر کیوں مجھے اس لہو رنگ فلسطین کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا موقع نہیں دیا گیا مگر ساری فلسطینی تاریخ کو سلمیٰ نے کرداروں کی زبان سے ایسے ادا کیا ہے گویا وہ فلسطین ہی میں تھی۔
کشور ناہید
میں سمجھتی ہوں کہ یہ ناول ایک پوری زندگی اور تاریخ کی کہانی ہے۔ انھوں نے اس دنیا کے بارے میں اپنے تخیّل، مشاہدے اور تحقیق کے زور پر ایسی چیز تخلیق کی ہے کہ جیسے آپ اسرائیل جا کر بیٹھ گئے ہیں۔ آپ ان شہروں میں ہیں۔ اُن جگہوں پر موجود ہیں اور آپ اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔ انھوں نے عرب معاشرت اور اس کی پوری تہذیب کا عطر نکال کر رکھ دیا ہے۔ ان کے کھانے، لباس، زبان، رسم و رواج، شادیاں، اُن کی عبادتیں، ان کے مذہبی تہوار، چار نسلیں اس میں ملتی ہیں۔ سو سال کی کہانی، صہیونیت کی جب بنیاد رکھی گئی۔ یوسف ضیا، ڈاکٹر موسیٰ، ڈاکٹر منصور، ساتھ وہ یہودی فیملی، اس کی چار نسلیں بڑے مربوط انداز میں سامنے آتی ہیں۔ واقعات کا تسلسل نہیں ٹوٹتا۔ کمال یہ ہے کہ نٹنگ اس خوبصورتی سے کی گئی ہے کہ ذہن کو کوئی جرک (Jerk) نہیں لگتا ہے۔ کہیں کوئی خلا نہیں ہے۔ یہ نہیں کہ پڑھتے ہوئے احساس ہو کہ ایک نسل تو راستے میں رہ گئی ہے اور دوسری نسل کو پکڑ لیا ہے۔ پہلی نسل کے زمانے میں فلسطین کے ساتھ کیا ہوا؟ اور دوسری نسل نے کون سے حالات دیکھے؟ تیسری نسل میں فلسطین اور یروشلم کی صورت کیا تھی؟ واقعات کا ایک تسلسل اور بہاؤ ہے۔ اس ناول کا کمال یہ ہے کہ کہانی کہیں خطوں سے، کہیں تاریخی حوالوں، کہیں کرداروں سے آگے بڑھتی ہے۔ سلمیٰ نے غیر جانبداری سے تجزیے کیے اور کہیں بھی جانبدار نہیں ہوئیں۔ یہاں میں ضرور کہوں گی کہ میرے خیال میں ایک اچھے لکھاری کو کبھی جانبدار نہیں ہونا چاہیے۔
بشریٰ اعجاز
سچ تو یہ ہے کہ میرے کالم کے ہزار لفظی چوکھٹے میں صدیوں کے تاریخی پس منظر لیے ہوئے اس ناول میں جس کی ایک نہیں کئی ڈائمنشنز ہیں، فلسطین کی سر زمین کے تاریخی، مذہبی، تہذیبی اور سماجی حوالے، مشرقی یورپ اور عرب ملکوں سے آ کر بسنے والے یہودیوں کے اشیکنازی اور سیفار دی فرقے، ارضِ فلسطین پر جاری خون ریزی اور اس پس منظر میں یروشلم کی سرزمین پر صدیوں سے بسنے والے مسلمان، عیسائی، یہودی خاندانوں کے آپس کے سماجی مراسم اور انسانی اقدار کی جھلک جو اس ناول کا بنیادی موضوع ہیں۔ سرزمینِ فلسطین کی تاریخ، قرآن اور بائبل کے حوالے، جدید دور کے فلسطین کے کرداروں کا ماضی کا پس منظر، اس دور کی سیاست اور عالمی استعماری طاقتوں کا کردار، ان سب کو موضوع بنانے کے لیے کس درجہ کی تحقیق سلمیٰ اعوان نے کی ہو گی، اسے سوچ کر ہی پسینہ آ جاتا ہے۔ تاریخی، سیاسی اور تہذیبی حوالوں سے انھوں نے بڑی جم کر تحقیق کی جو ناول کی ہر سطر سے جھلک رہی ہے۔ یروشلم کی ہزار صدیوں پر پھیلی ہوئی تاریخی، تہذیبی اور سماجی زندگی کے تانے بانے کو اپنے اندر جذب کر کے ناول کے پیرائے میں سہولت اور رچاؤ سے بیان کرنا جہاں فکشن بھی ہو اور حقائق پر بھی زد نہ پڑے، کسی ہما شما کا کام نہیں بلکہ ایک بڑے تخلیقی ذہن کا کارنامہ ہی ہو سکتا ہے۔ اور سلمیٰ اعوان نے بلاشبہ یہ کارنامہ سر انجام دیا، ناول کو پڑھ کر حیرت ہوتی ہے۔ اردو ادب کو اپنی نوعیت کا منفرد اور بڑا ناول دینے پر سلمیٰ اعوان کو سلام پیش کرتی ہوں۔
سعدیہ قریشی
نامور ناول نگار، سفرنامہ نگار اور افسانہ نگار، سلمیٰ اعوان نے اپنے ناول ’’لہو رنگ فلسطین‘‘ میں وہاں کی پوری تاریخ کو عیاں کر دیا ہے۔ اس میں جہاں لطیف جذبوں پر مشتمل داستان پڑھنے کو ملتی ہے وہاں قاری اس مسئلے کے اصل حل کو بھی جان لیتا ہے۔ انھوں نے سازشوں کو بھی بے نقاب کیا ہے جو ہنستے بستے فلسطین کو خاک و خون میں لت پت کر گئیں۔ محترمہ سلمیٰ اعوان نے اس ناول میں تاریخ کے وہ گوشے بے نقاب کیے ہیں جو ہماری نظروں سے اوجھل رہے یا ہماری یادداشت سے محو ہوتے جا رہے ہیں۔ ناول کے ایک یہودی کردار نے یہ کہہ کر سب کچھ طشت از بام کر دیا ہے کہ ارے آفندی! ہم سیفارڈی یہودی تو اسرائیلی ریاست چاہتے ہی نہیں تھے، ان اشکینازیوں (یورپی) کے بھانت بھانت کے کلچرز، اوپر سے ان کے ماڈرن، ترقی یافتہ، لسانی اور نسلی برتری کے زعم۔ بھئی زمانے گزر جاتے ہیں تب کہیں جا کر مشترکہ تہذیبیں وجود میں آتی ہیں۔ ہم نے عربی لٹریچر، موسیقی اور آرٹ کو مذہبی خانوں میں نہیں بانٹا۔ وہ مسلمان، عیسائی، یہودی اور آرمینیائی سب کا ملا جلا اثاثہ ہے جسے وہ اشکینازی کمتر اور گھٹیا ہونے کا تاثر دیتے ہیں مگر ہمیں ان کے رنگ برنگے کلچروں سے کوئی دلچسپی نہیں جس میں یہ ہمیں دھکیلنا چاہتے ہیں۔
عبید اللہ عابد
’’لہو رنگ فلسطین‘‘ میں کوئی پروپیگینڈا قسم کا مواد شامل نہیں کیا گیا۔ یہ ناول ایک قوم کے درد، اس کے ملال، اس کے زخموں، اذیتوں، محرومیوں، مایوسیوں اور ایک خطّے کی تقسیم کے دکھوں کی تجسیم کرتا ہے۔ مگر اس ناول کا ایک اور پہلو بھی چونکا دینے والا ہے۔ یہ ناول ایسے یہودی خاندانوں کی نشاندہی بھی کرتا ہے جو ظلم کو سمجھتے ہوئے اسرائیلی مظالم سے نہ صرف اپنی نفرت کا اظہار کرتے ہیں بلکہ اپنی حد تک ان مظالم کی مزاحمت بھی کرتے ہیں۔ اسرائیل اور فلسطین میں ایسے یہودی خاندان اُمید کی کرن ہیں، جو اسرائیل کے صہیونی عزائم سے نفرت کرتے ہیں اور اس سے اپنی بیزاری کا اظہار کرتے ہیں۔ اس ناول میں فلسطینی خاندانوں کی زندگی کے مایوس کن پہلوؤں کی نشان دہی کے ساتھ ساتھ روشنی کی ایسی کرنیں بھی نظر آتی ہیں، جہاں گمان یقین میں تبدیل ہوتا محسوس ہوتا ہے۔
سعدی اختر