GHADDAAR (2ND EDITION) غدار
PKR: 500/- 350/-
Author: KRISHAN CHANDER
Pages: 168
ISBN: 978-969-662-256-7
Categories: NOVEL URDU CLASSICS
Publisher: BOOK CORNER
کرشن چندر اُردو کا مقبول و محبوب، مجتہد اور منفرد فن کار ہے۔ انسان دوستی اور رجائیت اُس کا مشرب ہے۔ عوامی مسائل اور عوامی جدوجہد اُس کی تخلیقات کے موضوعات ہیں۔ اپنی گراں قدر تصانیف کی بدولت وہ عصرِحاضر کے مقتدر عالمی فنکاروں کی صفِ اوّل میں گنا جاتا ہے۔ اُس کی مقبولیت کا سبب جہاں عوام سے اس کی بے پناہ محبت ہے، جس کا اظہار وہ اپنی کہانیوں اور ناولوں میں کرتا ہے، وہاں اُس کا منفرد اسلوب اور دلکش طرزِ بیان بھی ہے جس سے وہ اپنے قارئین کے دل موہ لیتا ہے۔ ”غدار“ کرشن چندر کا ایک اہم ناول ہے جسے ۱۹۶۰ء میں خاص اہتمام کے ساتھ شائع کیا گیا تھا۔ اس ناول کا موضوع ۱۹۴۷ء کے فساداتِ پنجاب ہیں۔ اس سے قبل اس موضوع پر اس کی کہانیوں کا مجموعہ ”ہم وحشی ہیں“ شائع ہو کر اہلِ نظر سے خراجِ تحسین حاصل کر چکا ہے۔
بدقسمتی سے برصغیر کے دونوں طرف آج بھی لاکھوں افراد ایسے ہیں، جن کے دِلوں میں نفرت کا ناگ کُنڈلی مارے بیٹھا ہے۔ کرشن چندر انتظار کرتا رہا۔ وہ پورے تیرہ سال یہ آس لگائے بیٹھا رہا کہ اس ناگ کا پَھن آپ سے آپ کُچل دیا جائے گا لیکن اس طویل انتظار کے بعد جب اُس کی یہ آس نِراس میں تبدیل ہونے لگی، جب اُس نے دیکھا کہ ہر طرف ہم وجودیت (Co-Existence) کا دور دَورہ ہے، دُنیا کی بڑی سے بڑی قوتیں باہمی خیرسگالی اور تعاون، امن اور آشتی کی باتیں کرتی ہیں لیکن ان دونوں آزاد ملکوں کے لوگ جو کل تک ایک دوسرے کا گوشت پوست تھے، آج ایک دوسرے کو اس طرح گھور گھور کر دیکھ رہے ہیں، جیسے اَزلی دشمن ہوں، تو اُس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور اُس نے اس ناول کے رُوپ میں نفرت کے زہر کا تریاق پیش کیا!
مواد اور اُسلوب کی مانند اس ناول کا نام بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے جو ایک زبردست طنز پر مبنی ہے اور جو ناول کے پلاٹ کے پسِ منظر سے اُبھرا ہے۔ پلاٹ کا تانا بانا فساداتِ پنجاب سے تیار کیا گیا ہے۔ ۱۹۴۷ء میں جب یہ فرقہ وارانہ فسادات پوری وحشت ناکی کے ساتھ بَرپا تھے تو انسانیت مسخ ہو کر رہ گئی تھی۔ زندگی کی اقدار جیسے راتوں رات تبدیل ہو گئی تھی۔ اگر کوئی فرزندِ اسلام، برادرانِ ملت سے کہتا تھا کہ ہندوئوں اور سکھوں نے ہمارا کیا بگاڑا ہے۔ قرآنِ حکیم کا ارشاد ہے کہ ہمسایہ کی حفاظت اپنی جان کی طرح کرو۔ ان کے قتلِ عام سے باز رہو، تو نام نہاد ”رضا کار“ جھٹ فتویٰ داغ دیتے تھے کہ یہ ”سچا مسلمان“ نہیں۔ یہ تو لالوں کا ایجنٹ اور سکھوں کا وظیفہ خوار ہے۔ اس ”غدار“ کو گولی سے اُڑا دو۔ اسی طرح اگر کوئی سکھ یا ہندو اپنے دھرم کے بھائی بندوں سے اپیل کرتا تھا کہ سری گورو گرنتھ صاحب کے مہاوالیہ ”ایک پتا، ایکس کے ہم بارک“ (ہم سب اُس قادرِ مطلق کی اولاد ہیں) کے انوسار مسلمان بھی ہمارے بھائی ہیں، ان کے خون سے ہاتھ نہ رنگو تو خود ساختہ ”جتھے دار“ اُس ”غدار“ ہندو یا سکھ کو اہلِ اسلام کا پِٹھو جتلا کر فی الفور ”جھٹکانے“ کا فرمان صادر کرتے تھے۔ چنانچہ اس دَورِ ابتلا میں بہت سے اس طرح کے مسلمان، سکھ اور ہندو ”غدار“ شہید کیے گئے۔
کرشن چندر کے اس ناول کا ہیرو بھی ایسا ہی غدار ہے۔ جب وہ ایک مسلمان کو ”جھٹکانے“ سے گریز کرتا ہے تو ”جتھے“ کا ”جتھے دار“ بُلّو آگے بڑھتا ہے اور ڈپٹ کر کہتا ہے:
”او۔ کتے باہمن! تُو کیا لڑے گا، پرے ہٹ جا، غدار!“
تو یہ ہے غدار،
برعکس نہند نامِ زنگی کافور!
اس ناول کی کہانی ۱۹۴۷ء کے شرمناک فرقہ وارانہ فسادات کے واقعات پر مشتمل ہے۔ اس میں اُلجھاوے نہیں، گرہیں نہیں، اس کی شاید ضرورت بھی نہیں۔ مصنف فی الحقیقت کہانی کی وساطت سے ہمیں ایک فلسفہ سمجھانا چاہتا ہے۔ انسانیت، نیک کرداری، امن اور اخوت کا فلسفہ! کہانی مختصراً یُوں ہے:
”بیج ناتھ (ناول کا ہیرو) راوی کے اُس پار ضلع گورداسپور کے موضع کوٹلی سُودکاں کے ایک کھاتے پیتے برہمن گھرانے کا چشم و چراغ ہے۔ وہ فسادات کے طوفان میں گِھر کر موج ہائے خون کے تھپیڑے کھاتا ہوا لاہور پہنچتا ہے۔ ایک مسلمان دوست وہاں کی مسموم فضا سے بخیریت بچ نکلنے میں اُس کی اِعانت کرتا ہے۔ پھر وہ قتل و غارت کے کبھی نہ ختم ہونے والے خونیں مراحل سے گزر کر گرتا پڑتا راوی کے کنارے پر پہنچ کر جان بچانے کے لیے اُس میں کود پڑتا ہے اور تَیر کر دوسرے کنارے اس پار پہنچتا ہے۔ اس طرف بھی مذہبی جنون کے صدقے حیوانیت، بربریت اور بہیمیت کا ننگا ناچ اُسے دیکھنے کو ملا۔ جب اُسے پتا چلا کہ فسادیوں کے ہاتھوں اُس کے خاندان کے کچھ افراد قتل اور اُس کی بہن اغوا کر لی گئی (وہ اعِزّہ واقارب سے بچھڑ کر تن تنہا ”پاکستان“ سے ”ہندوستان“ پہنچا تھا) تو وہ بھی مشتعل ہو گیا اور مسلمانوں کے قاتلوں میں شریک ہو گیا لیکن اس کا یہ اشتعال بالکل عارضی تھا۔ بہت جلد اُس نے اپنی کمزوری پر قابو پا لیا۔ فرقہ وارانہ نفرت اور مخاصمت کی لمبی، خوفناک اور دُکھ بھری رات کا اَنت ہوا اور راوی کے کنارے اَمن، اخوت، انسانیت اور آس کا سویرا جگمگا اُٹھا!“
ساری کہانی میں کہیں اُکتاہٹ نہیں بلکہ قاری جیسے کسی جادو کے زیرِ اثر پُرامن شہریوں کے قتلِ عام اور مجسمۂ عصمت خواتین کے اغوا اور عصمت دَری کے دلدوز اور رُوح فرسا واقعات کا دِل تھام کر مطالعہ کرتا چلا جاتا ہے۔ اس سحرکاری کا ایک سبب تو مصنف کا دِلفریب پیرایۂ اظہار ہے اور دوسرے وہ حکمت (Tact) ہے جس سے کام لے کر پلاٹ میں سانحاتِ فسادات کی تلخی کے ساتھ محبّت اور رُومان کی چاشنی بھی شامل کر دی گئی ہے۔
رازؔ سنتوکھ سری
Reviews
Basit Khattak (Karak, Khyber Pakhtunkhwa)
تقسیم ہند کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا جن میں افسانے اور ناول تو بہت اہم ہیں۔ چوٹی کے لکھنے والوں نے ایک سیاسی عمل کے اثرات و مضمرات پر خون دل سے لکھا اور حساس دلوں کے احساسات کی ترجمانی کی۔
کرشن چندر کا ناول غدار بھی ان میں سے ایک ہے جس کا موضوع اس وقت برصغیر کا اچانک تبدیل ہونے والا منظر نامہ ہے۔ وہ لوگ جو صدیوں مروت اور رواداری سے بلا تفریق مذہب و ملت ایک ساتھ رہ رہے تھے، کیسے نفرتوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔ ایک دوسرے پر جان نچھاور کرنے والے کیوں کر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے۔ لیکن یہاں کرشن چندر کے ہاں مسلم بیانیے کے برعکس دوسری طرف سے اٹھنے والی شکایت کا اظہار ہے۔ چونکہ مسلم، ہندو اور سکھ تینوں قومیتوں کے لوگ وبا کی طرح پھیلے فسادات کی زد میں آئے اور نفرتیں بیچنے والے کچھ مخصوص عناصر اس کے پیچھے تھے لہذا انہوں نے ہندو برادری کی ان فسادات میں نقصانات کا مقدمہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ ان کی شکایت بھی سنی جائے۔ تاہم ان کے ہاں سب سے مثبت پہلو امید ہے جس کی اساس محبت پر رکھی ہے وہ محبت جو صرف انسان کو انسان سے انسان ہونے کے ناتے ہے۔
رنگ، نسل، قوم، مذہب اور سیاسی نکتہ نظر اس کے سامنے کچھ بھی نہیں۔
کرشن چندر نے کمال خوبی سے سارے کرداروں سے کام لیا ہے اور یہ محسوس ہی نہیں ہونے دیتا کہ وہ کن کا مقدمہ لڑ رہے ہیں اور کیوں لڑ رہے ہیں کیونکہ ان کا مقصد کسی پر الزام دھرتا نہیں، کسی کی طرف داری کرنا نہیں بلکہ اس محبت و رواداری کی کھوج ہے جس کی بنیاد پر یہاں رہنے والے صدیوں ایک دوسرے سے جڑے رہے۔
ناول پہلی بار 1960 میں چھپا جس کے بعد مختلف پبلشرز مختلف اوقات میں اسے شائع کرتے رہے۔
زیر نظر نسخہ بک کارنر جہلم نے خوبصورت انداز میں چھاپا ہے۔
آغاز میں کرشن چندر کا ناول پر مقدمہ اور راز سنتوکھ سری کا ناول پر تنقیدی جائزہ شامل کتاب ہے۔
Leena Hashir (Islamabad)
غدار پڑھتے ہوئےمجھے لگ رہا تھا جیسے آنکھوں کے سامنے کوئی فلم چل رہی ہے۔ واقعات کو اس انداز سے بیان کیا گیا ہے کہ احساسات اورجذبات کی مکمل گرفت حاوی رہتی ہے جملوں کی کشش جب پڑھنے والے کو اپنی طرف کھینچے چلی جائے تو پھر دوسرا ناول پڑھنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔