Ganj Haye Giran Maya

GANJ HAYE GIRAN MAYA گنج ہائے گراں مایہ

GANJ HAYE GIRAN MAYA

PKR:   900/- 630/-

Author: RASHEED AHMAD SIDDIQUI
Binding: paperback
Pages: 198
Year: 2026
ISBN: 978-969-662-649-7
Categories: URDU LITERATURE KHAKAY / SKETCHES URDU CLASSICS
Publisher: BOOK CORNER

’’گنج ہائے گراں مایہ‘‘ کے مضامین میں دو بڑے جذبے اُبھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ایک جذبۂ رفاقت ہے اور دوسرا احساسِ عظمت۔ یہ دونوں جذبے ’’گنج ہائے گراں مایہ‘‘ کے بنیادی عناصر ہیں اور رشید احمد کی عظمت کا ثبوت بھی انہی مضامین میں ملتا ہے۔ شاہ سلیمان اشرف اور ایوب پر جو مضامین ہیں اور اسی طرح درجہ بدرجہ جو دیگر مضامین ہیں وہاں بڑی بھرپور حقیقت نگاری کی ہے۔ چھوٹے چھوٹے واقعات سے تصویریں بنائی گئی ہیں۔
(سیّد عبد اللہ)

اُردو ادب کی دنیا میں آج کوئی ایسا نہیں جو یہ کہہ سکے کہ وہ رشید احمد صدیقی کو نہیں جانتا۔ وہ گنتی کے ان چند لوگوں میں سے ہیں جن کو خالص انشا پرداز کہا جا سکتا ہے۔
(مجنوں گورکھپوری)

اچھی نثر وہ ہے جس میں جھول اور رخنہ نہ ہو جو ذہن اور جذبات دونوں کو اپیل کرے ، جس میں الفاظ ہر طور پر اور قطعیت کے ساتھ شیر و شکر ہوں اور سخت گیر نظم و ضبط کے باوجود شخصیت کی تابناکی، رنگ اور حرکت اس میں دہکتے ہوں۔ رشید صاحب کی نثر میں یہ تمام خوبیاں پائی جاتی ہیں۔
(اسلوب احمد انصاری)

رشید احمد صدیقی کی تحریریں اُردو زبان و ادب کی آبرو ہیں۔ اُن کی کوئی سطحی تحریر یا چلتا ہوا مضمون میری نظر سے نہیں گزرا۔ اُن کا ہر مقالہ بلند پایہ ہوتا، وہ صاحبِ فکر اور صاحبِ طرز ادیب تھے۔ اپنے اندازِ فکر اور اسلوبِ نگارش میں منفرد۔ جو بات کہی سلیقہ کے ساتھ کہی۔ حُسنِ ابلاغ کے فن سے وہ پوری طرح واقف تھے، اسی لیے اُن کی تحریریں دل نشیں ہوتیں ؎
جو ’پڑھتا‘ ہے اُسی کی داستاں معلوم ہوتی ہے
(ماہر القادری)

مجھ سے اگر آج پوچھا جائے کہ تمھارے زمانے کے علی گڑھ نے اُردو نثر کو کیا دیا تو میں بے تکلف دو نام لوں گا— رشید احمد صدیقی اور مشتاق احمد یوسفی۔
(مختار مسعود)

RELATED BOOKS