DOZAKHNAMA دوزخ نامہ
DOZAKHNAMA دوزخ نامہ
PKR: 2,000/- 1,400/-
Author: RABISANKAR BAL
Translator: INAAM NADEEM
Pages: 480
Year: 2024
ISBN: 978-969-662-581-0
Categories: WORLD FICTION IN URDU URDU LITERATURE NOVEL TRANSLATIONS
Publisher: BOOK CORNER
On Sale: 25 November 2024
ناول پڑھتے ہوئے یہ خواہش دل میں پیدا ہوئی کہ کاش یہ کسی اُردو ادیب کے تخیل کا کارنامہ ہوتا۔ ناول کے مرکزی کردار، غالب اور منٹو، اُردو ادب کی تاریخ کے بڑے نام ہیں۔ ایک کو فوت ہوئے ڈیڑھ سو برس اور دوسرے کو فوت ہوئے پینسٹھ سال ہو جائیں گے لیکن ان کی شہرت میں روزبروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ ناول کسی اُردو ادیب نے نہیں لکھا بلکہ یہ ایک بنگالی ادیب، ربی سنکربل، کے زورِ قلم کا نتیجہ ہے۔ اس ناول کا انگریزی میں ترجمہ ہوا۔ معروف شاعر، انعام ندیم، نے اسے اُردو میں منتقل کیا۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ بنگلہ میں اصل متن کی کیا شان ہے۔ البتہ یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ انگریزی ترجمے کے مقابلے میں اُردو ترجمہ نہ صرف زیادہ جان دار ہے بلکہ موضوع کو مدِنظر رکھا جائے تو ترجمہ معلوم ہی نہیں ہوتا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ بنگلہ میں لکھے جانے اور انگریزی سے ترجمہ ہونے کے باوجود اسے اُردو ناول سمجھ لیا جائے تو مضائقہ نہیں۔ (محمد سلیم الرحمٰن)
یہ ان سب سے زیادہ عجیب کتابوںمیں سے ایک ہے جس کے پڑھنے کا مجھے اتفاق ہوا ہے اور ذرا بھی تعجب نہیں کہ اس میں غالب موجودہیں اورمنٹو بھی۔ لیکن اب اس کو ترجمہ کہتے ہوئے میں ہچکچا رہا ہوں۔ کیسا ترجمہ اور کہاں کا ترجمہ؟ سرقہ تو پرانے شعرا نے کیا تھا جنھوں نے وہ مضامین چرالیے جو میرے نام سے رکھے گئے تھے، غالب نے تاویل پیش کی تھی۔ غالب کی سنّت پر عمل پیرا ہو کر میں یہ کہہ دوں کہ اصل میں یہ ناول اُردو میں لکھا گیا تھا اور آسمانوں پر لوحِ غیر محفوظ سے ربی سنکر بل نے اُڑا لیا، جیسے نسیمِ بہار زلف کی خوشبو چوری کرلیتی ہے، ترجمہ تو وہ تھا جو دوسری زبانوں میں شائع ہوا اور اصل ناول اب سامنے آرہا ہے۔ (آصف فرّخی)
’’دوزخ نامہ‘‘ ان دو شخصیتوں کی زندگی کا مرقع ہے جو خود اپنے اپنے وقت میں ’ہندوستان‘ (برِصغیر پاک و ہند) قرار دیے جا سکتے ہیں۔ غالب اور منٹو اپنے اپنے عہد کی دانش کے عذاب سے باخبر تھے اور دونوں نے اسی لیے آشوبِ آگہی کے آگے خطِ ایاغ کھینچ لیا تھا۔ شاعر انعام ندیم نے دل سوزی سے ’’دوزخ نامہ‘‘ کو اُردو میں منتقل کیا ہے اور ایسی خوش سلیقگی کے ساتھ کہ کہیں سے بھی ترجمے کا شائبہ نہیں ہوتا۔ (افضال احمد سیّد)