DO SHAHRON KI KAHANI (A TALE OF TWO CITIES) (ILLUSTRATED EDITION) دو شہروں کی کہانی (مصور ایڈیشن)
PKR: 2,000/- 1,400/-
Author: CHARLES DICKENS
Translator: FAZLUR RAHMAN
Pages: 480
ISBN: 978-969-662-557-5
Categories: WORLD FICTION IN URDU NOVEL WORLDWIDE CLASSICS TRANSLATIONS
Publisher: BOOK CORNER
چارلس ڈکنز کا نام آج ساری دُنیا میں ایک گھریلو نام کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے ناول سارے عالم میں پڑھے جاتے ہیں۔ اس کی ناولوں کے تراجم دُنیا کی ہر زبان میں ہوئے، ان پر ڈرامے لکھے گئے اور انھیں سٹیج کیا گیا۔ ان پر فلمیں بنائی گئیں اور ٹی وی کے لیے ڈراموں کو ٹیلی پلے کی شکل دی گئی۔ وہ دُنیا کے چند بڑے اور مقبول ترین لکھنے والوں میں سے ایک ہے۔ رابرٹ مورسے نے اسے شیکسپیئر اور دانتے کا ہم پلہ قرار دیا ہے۔ اس کی وجہ وہ یہ بیان کرتا ہے کہ دانتے اور شیکسپیئر کی طرح ’’Dickens is everything for everyone. He has same thing for every body.‘‘
اس کے ناولوں میں اس کے قاری کو اپنے مطلب اور دلچسپی کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور مل جاتا ہے۔ یہ وہ خوبی ہے جس کے حوالے سے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ اس کا سب سے بڑا تخلیقی ناول کون سا ہے۔ ’پسند اپنی اپنی کی‘ کے معیار کی بات ہی تو ادب میں نہیں چلتی۔ یہاں تو ان تمام عناصر کو دیکھنا پڑتا ہے جن کی بدولت کوئی بڑی تخلیق قرار پاتی ہے اور پھر اس میں ایسے جراثیم کو بھی تلاش کرنا پڑتا ہے جو اسے ابد تک زندہ رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ ڈکنز کے ناولوں میں ’’پک وِک پیپرز‘‘ کو دُنیا کے پُر لطف اور مزاحیہ کتابوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ’’Great Expectations‘‘، ’’Oliver Twist‘‘، ’’David Copperfield‘‘ اور ’’A Tale of Two Cities‘‘ ایسے ناول ہیں جن کی مقبولیت یکساں ہے اور جو ڈکنز کو زندہ رکھنے میں کبھی ناکام نہ رہیں گے۔
ڈکنز کو اپنے زمانے میں جو مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس کی خاص وجہ یہ تھی کہ وہ اس زمانے میں ابھرتے ہوئے متوسط طبقے کا ترجمان بن گیا تھا۔ وہ اپنے عہد کا نقّاد بھی تھا اور رہنما بھی۔ وہ سماجی برائیوں کے خلاف آواز اٹھاتا تھا۔ کم سن بچوں پر ظلم وستم، کم سن بچوں کی ملازمت، قرضے کی ادائیگی نہ کرنے پر سزائے قید، پاگل خانوں اور ذہنی امراض میں مبتلا لوگوں کی حالت زار، غربت، قانونِ فوجداری کے نقائص اورسب سے بڑھ کر اس دور میں بچوں کی حالتِ زار، یہ ایسے موضوعات تھے جواس زمانے کے مسائل سے تعلق رکھتے تھے اور آج بھی عالمگیر تاثیر کے حامل ہیں۔
ڈکنز کے ناولوں کی جڑیں اٹھارہویں صدی سے انگلستان کے معاشرے میں پھیلی ہوئی ہیں۔ چونکہ تیسری دُنیا کے مسائل آج بیسویں صدی میں بھی وہی ہیں، اس لیے اس کے ناولوں کی اپیل میں کوئی خاص کمی نہیں ہوئی۔
اس کے باوجود ڈکنز بہت بڑا Entertainer بھی تھا۔ والٹر ایلن نے تو اسے فکشن کی دُنیا کا سب سے بڑا انٹرٹینر قرار دیا ہے۔ اس کی کوئی کتاب پڑھ لیجیے، اس میں مزاح کا ایک ایسا قوی اور جاندار عنصر شامل ہوتا جو اپنے قارئین کو بے انتہا محظوظ کرتا ہے۔
ڈکنز ایک بڑے مصلح کی بھی حیثیت رکھتا تھا۔ وہ اپنے ناولوں کے ذریعے سماجی اور معاشرتی اصلاح کا علمبردار تھا۔ اس میں یقیناً اسے بہت کامیابی حاصل ہوئی۔ اس کے ناولوں کی دُنیا جہاں پر یوں کی کہانیوں کی دُنیا تھی وہاں دہشت ناک خوابوں کی بھی دُنیا تھی۔ اس کے بیشتر ناولوں میں کہانی بچے بیان کرتے ہیں۔ وہ بچوں کی نگاہ سے ہمیں یہ دُنیا دکھاتا ہے۔ اس طرح اس دُنیا کی بدصورتیاں بچوں کی معصومیت سے ملوث ہوکر کہیں زیادہ خوفناک لیکن مؤثر صورت اختیار کر لیتی ہیں۔
ڈکنز کے ناولوں کے کردار ایسے ہیں کہ وہ ناول کے واقعات پرحاوی ہو جاتے ہیں۔ ہم اس کے ناولوں کا پلاٹ بھول سکتے ہیں لیکن اس کے کرداروں کو اپنے حافظے سے باہر نہیں نکال سکتے۔
ستار طاہر
ماخذ ’’دنیا کی سو عظیم کتابیں‘‘