AIK TEES SAALA AURAT ایک تیس سالہ عورت




PKR: 1,200/- 840/-
Author: HONORE DE BALZAC
Translator: INAAM NADEEM
Binding: hardback
Pages: 256
Year: 2025
ISBN: 978-969-662-627-5
Categories: WORLD FICTION IN URDU NOVEL WORLDWIDE CLASSICS TRANSLATIONS FRENCH LITERATURE PICTORIAL BOOKS
Publisher: BOOK CORNER
On Sale: 10 September 2025
تعارف:
1832ء زمانۂ تحریر: ’’ایک تیس سالہ عورت‘‘، زبان: فرانسیسی، اصل عنوان: La Femme de trente ans
1842ء یہ ناول پہلی مرتبہ بالزاک کے مرتب کردہ ناولوں کی سیریز ’’دی ہیومن کامیڈی‘‘ (La Comédie humaine) کے پہلے باضابطہ ایڈیشن کا حصہ بنا اور تیسری جلد میں کہانی نمبر 111 کے طور پر شامل کیا گیا۔ یہ سیریز پیرس کے تین پبلشرز Furne، J.-J. Dubochet اور Hetzelکی شراکت سے شائع ہوئی۔ تاہم اس کے بعد یہ ناول کئی صورتوں میں شائع ہوتا رہا۔
1900ء ایلن میرج(Ellen Marriage)نے اس ناول کو "A Woman of Thirty" کے عنوان سے انگریزی زبان میں منتقل کیا۔ وہ انگریزی ادب میں بالزاک کے سب سے اہم مترجمین میں شمار ہوتی ہیں۔ ان کے تراجم نے پہلی بار بالزاک کو مکمل اور باضابطہ طور پر انگریزی قارئین تک پہنچایا۔ ایلن میرج نے اکثر اپنے اصل نام سے ترجمے کیے، لیکن حساس تحریروں کے لیے "James Waring" کے قلمی نام کا استعمال کیا۔ ان کے کام نے بالزاک کو عالمی شہرت دلائی اور انگریزی ادب میں ان کے مقام کو مستحکم بنایا۔
2025ء ایوارڈ یافتہ پاکستانی ادیب و شاعر انعام ندیم نے اس ناول کا ’’ایک تیس سالہ عورت‘‘ کے نام سے انگریزی سے اُردو میں ترجمہ کیا۔ وہ اِس سے قبل گابریئل گارسیا مارکیز، ربی سنکر بل اور میورئیل موفروئے کی کتابوں کے ترجمے کر چکے ہیں۔
2025ء جہلم، پاکستان سے ’’بک کارنر‘‘ نے اس ناول کو ’’ورلڈ وائیڈ کلاسکس‘‘ سیریز کے تحت شائع کیا۔ اس اشاعت کو نستعلیق کمپوزنگ کے ساتھ کتاب، مصنف اور مترجم کے تعارف اور سکیچز سے آراستہ کرکے پیش کیا گیا ہے۔
---
کچھ مصنف کے بارے میں:
انیسویں صدی کے ممتاز فرانسیسی ناول نگار، اونورے دَ بالزاک (20 مئی 1799ء - 18 اگست 1850ء) کا شمار دنیا کے عظیم لکھنے والوں میں ہوتا ہے۔ جزئیات کا باریک بین مشاہدہ اور سماج کی غیر مرصع عکاسی بالزاک کے اسلوب کی نمایاں خصوصیات ہیں، جن کی بنیاد پر انھیں یورپی ادب میں حقیقت نگاری کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ نہایت زود نویس، اگرچہ ناہموار، لکھنے والے تھے، اور ان کی تخلیقات کا وسیع اور نامکمل مجموعہ ’’دی ہیومن کامیڈی‘‘ (La Comédie humaine) اس ارادے سے لکھا گیا تھا کہ بحالیِ شاہی (1815ء - 1830ء) اور جولائی بادشاہت (1830ء - 1848ء) کے زمانے میں فرانسیسی سماج کا ایک ہمہ گیر اور کثیرالجہتی نقشہ پیش کیا جائے۔
بالزاک فرانس کے علاقے اندر-اے-لُوآر کے شہر تور (Tours) میں ایک خوشحال بورژوا خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد فرانسیسی انقلاب کے دوران ایک علاقائی منتظم تھے۔ بالزاک نے ابتدائی تعلیم واندوم کے سخت گیر ادارے ’’کالج آف دی اوریٹورینز‘‘ میں حاصل کی، اور پھر 1816ء سے پیرس میں تعلیم جاری رکھی، جہاں انھوں نے قانون کی تعلیم حاصل کی اور ایک وکیل کے دفتر میں کلرک کے طور پر بھی کام کیا۔ جلد ہی وہ صحافت کی طرف مائل ہو گئے اور نئے ادبی اور فکری رسائل میں لکھنے لگے۔ صحافت کی ابتدائی تربیت نے ان کی نثر کو غیرمعمولی حد تک فصیح، اختصار کی حامل اور عام زندگی کے روزمرہ پر مرکوز بنا دیا۔ اس اعتبار سے بالزاک ایک ایسے مصنف تھے جو ’’جدیدیت‘‘ کی اصطلاح کے رائج ہونے سے پہلے ہی جدید طرزِ اظہار کے حامل تھے۔ 1829ء میں ان کی کہانیوں کامجموعہ ’’نجی زندگی کے مناظر‘‘ (Scènes de la vie privée) کے عنوان سے شائع ہوا، جس نے قارئین اور نقادوں دونوں کی توجہ حاصل کی۔ یہ وہ کہانیاں تھیں جو ایک صحافی کی نگاہ سے بیان کی گئی تھیں— ایسی کہانیاں جو جدید زندگی کا تانا بانا بیان کرتی تھیں اور سماجی و سیاسی حقیقتوں سے منہ نہیں موڑتی تھیں۔ ان کہانیوں کے ذریعے بالزاک کی منفرد آواز ابھر کر سامنے آئی۔
اس سے پہلے وہ ناشروں کے ایما پر سر والٹر سکاٹ اور این ریڈکلف کے انداز میں تاریخ پر مبنی کمزور ناول لکھ چکے تھے، لیکن وہ سب فرضی ناموں کے تحت شائع ہوئے تھے۔ تاہم، 1829ء میں شائع ہونے والے ناول ’’آخری شوآن‘‘ (Le dernier Chouan) کے ساتھ وہ سنجیدہ اور طویل فکشن کے مرکزی دھارے میں شامل ہو گئے۔ بالزاک نے اپنے اگلے بڑے ادبی کارنامے ’’بڈھا گوریو‘‘ (Le père Goriot—1835) میں ولیم شیکسپیئر کے مشہور المیے ’’کنگ لیئر‘‘ کی کہانی کو 1820ء کی دہائی کے پیرس میں منتقل کر دیا تاکہ یہ دکھایا جا سکے کہ جدید دنیا میں اب صرف ’’اثر و رسوخ‘‘ اور ’’تعلقات‘‘ ہی اصل قانونی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے تمام ناول ایک ایسی دنیا کا مشترکہ تصور پیش کرتے ہیں جہاں قدیم بادشاہی نظام کی سماجی و سیاسی درجہ بندیاں ختم ہو چکی ہیں اور ان کی جگہ اقربا پروری، سرپرستی، اور تجارتی دولت کی حامل ایک جعلی اشرافیہ نے لے لی ہے— اور جہاں منظم مذہب کے زوال کے بعد مال دار طبقے نے ایک نئی ’’روحانی پیشوائی‘‘ کا کردار سنبھال لیا ہے۔
اپنے مختصر افسانوں اور ناولٹوں کے ساتھ ساتھ، بالزاک نے کئی طویل اور یادگار ناول بھی لکھے جن میں ’’کھوئی ہوئی خوش فہمیاں‘‘ (Les Illusions Perdues—1843)، ’’طوائف کی شان و شوکت اور ذلت‘‘ (Splendeurs et misères des courtisanes—1847) ’’عم زاد پونس‘‘ (Le Cousin Pons—1847) اور ’’عم زاد بیت‘‘ (La Cousine Bette—1848) نمایاں ہیں۔ اسی طرح دیہاتی زندگی پر مبنی ناولوں میں ’’پادری تور‘‘ (Le curé de Tours—1832)، ’’تاریک راہوں کے مسافر‘‘، (Eugénie Grandet —1833)، ’’سنہری آنکھوں والی لڑکی‘‘ (La Fille aux yeux d'or—1835)، ’’اُرسول میروے‘‘ (Ursule Mirouet —1842) اور ’’مودیست مینیوں‘‘ (Modeste Mignon —1844) کو بھی بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
ان کی تخلیقی رفتار بے مثال تھی، لیکن اس قدر زودنویسی میں ناہمواری فطری بات تھی۔ ہر کامیابی انھیں مزید وسیع منصوبوں کی طرف دھکیلتی رہتی تھی، یہاں تک کہ 1847ء کے قریب ان کی صحت جواب دینے لگی۔ 1849ء میں جب ان کی صحت بگڑ چکی تھی، بالزاک پولینڈ گئے تاکہ ایویلین ہانسکا نامی ایک دولت مند پولش خاتون سے ملاقات کریں جن سے وہ پندرہ برس سے خط و کتابت کر رہے تھے۔ 1850ء میں ان دونوں نے شادی کی، لیکن بالزاک صرف تین ماہ بعد ہی وفات پا گئے۔ انھیں پیرس کے معروف قبرستان پیر لاشیز (Père Lachaise) میں دفن کیا گیا۔
بالزاک نے انسانی نفسیات اور سماج کے مشاہدے میں نہایت گہرائی اور دیانت داری کا مظاہرہ کیا جس کا اثر بعد کے ادیبوں پر اس قدر گہرا ہے کہ اس کی وسعت کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ دنیا بھر کے متعدد عظیم ناول نگار— چاہے وہ روس کے لیو ٹالسٹائی اور دستوئیفسکی ہوں، امریکا کے ارنسٹ ہیمنگوے اور ٹام وولف، فرانس کے مارسل پروست، یا جرمنی کے رابرٹ موزل— سبھی بالزاک کی فن اور سچائی سے وابستگی کے مقروض رہے ہیں، اور اس کا برملا اعتراف بھی کرتے ہیں۔
---
کچھ مترجم کے بارے میں:
انعام ندیم 1967ء میں شہداد پور، سندھ میں پیدا ہوئے، وہ ایک متنوع ادبی شخصیت کے مالک ہیں۔ 2023ء میں ان کی غزلوں کا مجموعہ ’’درِ خواب‘‘ اور 2025ء میں نظموں کا مجموعہ ’’تصویر میں چلتا آدمی‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ اگرچہ انھوں نے اپنے ادبی سفر کا آغاز شاعری سے کیا، تاہم بعد ازاں اپنے یکے بعد دیگرے شائع ہونے والے ادبی تراجم کی بدولت انھوں نے اُردو کے معروف اور ممتاز مترجمین کی صفِ اوّل میں جگہ بنا لی۔ انھوں نے متعدد ادبی متون، بالخصوص فکشن کا انگریزی سے اُردو میں ترجمہ کیا ہے۔ ان کے قابلِ ذکر ترجموں میں عمر شاہد حامد کے ناول “The Prisoner”، ربی سنکر بل کے دو ناولوں “Dozakhnama” اور “A Mirrored Life” اور میورئیل موفروئے کے “Rumi’s Daughter” کے علاوہ نوبیل انعام یافتہ ہسپانوی ادیب گابریئل گارسیا مارکیز کے گمشدہ ناول “Until August” کا اُردو ترجمہ شامل ہے۔ انعام ندیم نے مارکیز کی کُل کہانیوں کا بھی اُردو میں ترجمہ کیا جو ’’ساری کہانیاں‘‘ کے عنوان سے 2025ء میں شائع ہوا۔ اس مجموعے میں مارکیز کی تمام کہانیاں ایک ہی جلد میں، ان کی ہسپانوی زبان میں اصل اشاعت کی زمانی ترتیب کے مطابق شائع کی گئی ہیں۔
انعام ندیم نے آصف فرخی کے بارے میں ایک انتھالوجی، ذکیہ مشہدی کی منتخب کہانیاں، شاعر اکبر معصوم کی کلیات اور پاکستان میں اُردو نثری نظموں کا ایک انتخاب بھی مرتب کیا ہے۔ انھوں نے مشہور ہندی افسانہ نگار بھیشم ساہنی کی کہانیوں کے ایک انتخاب کا بھی ترجمہ کیا، ان کا یہ انتخاب بعد ازاں دسویں یو بی ایل لٹریچر اینڈ آرٹس ایوارڈ کے لیے شارٹ لسٹ کیا گیا۔
انعام ندیم کو متعدد ادبی اعزازات سے نوازا گیا جن میں ان کے پہلے شعری مجموعے ’’درِ خواب‘‘ پر ملنے والا عکس خوشبو ایوارڈ، “A Mirrored Life” کے اُردو ترجمے ’’آئینہ سی زندگی‘‘ پر ملنے والا یو بی ایل لٹریری ایوارڈ 2021ء برائے ترجمہ اور “Rumi’s Daughter” کے ترجمے ’’دُخترِ رومی‘‘ پر ملنے والا ڈاکٹر جمیل جالبی ایوارڈ 2024 ءبرائے ترجمہ شامل ہیں۔
ایک شاعر، ادیب ، مترجم اور مرتب کی حیثیت سے انعام ندیم کی ایک درجن سے زائد کتب شائع ہو چکی ہیں۔ وہ کراچی میں مقیم ہیں اور درس و تدریس سے منسلک ہیں۔