Jurm o Sazaa (Crime and Punishment) (illustrated Edition)

JURM O SAZAA (CRIME AND PUNISHMENT) (ILLUSTRATED EDITION) جرم و سزا (مصور ایڈیشن)

Inside the book
JURM O SAZAA (CRIME AND PUNISHMENT) (ILLUSTRATED EDITION)

PKR:   2,000/- 1,400/-

Author: FYODOR DOSTOEVSKY
Translator: TAQI HAIDER
Tag: FYODOR DOSTOEVSKY
Binding: hardback
Pages: 544
ISBN: 978-969-662-427-1
Categories: WORLD FICTION IN URDU NOVEL WORLDWIDE CLASSICS TRANSLATIONS
Publisher: BOOK CORNER

دستوئیفسکی کے دئیے ہوئے خیالی پیکر ہمیں پسند ہوں یا ناپسند، بہرحال نہ وہ کٹھ پُتلیاں ہیں، نہ موم کے پُتلے ___ کیوں کہ ان میں غضب کی شدّت ہوتی ہے۔ تراشنے والا اُن میں اپنے لہو کی گردش اور سینے کی آگ کچھ اس طرح بانٹ دیتا ہے کہ وہ خود پگھل کر گُم نہیں ہوتے، ہمیں پگھلا دیتے ہیں۔ صفِ اوّل سے زیادہ صفِ دوم کے، بظاہر معمولی (مگر ’’ابنارمل‘‘) کرداروں میں یہ شدّت اور بھی بڑھی ہوتی ہے اور وہی اس کے خیالات کی ترجمانی خوب کرتے ہیں۔ یہ بھی ایک خاصیت تھی جس نے دستوئیفسکی کا سایہ اس کے قد سے لمبا کر دیا۔ روسی زبان نے عالمی ادب کو ایک وقت میں تین بڑے ناول دئیے (1867-70) ترگینف کا ’’باپ اور بیٹے‘‘، ٹالسٹائی کا ’’جنگ اور امن‘‘ اور دستوئیفسکی کا ’’جرم و سزا‘‘۔ ایک نے سماجی کشمکش کے تانے بانے دکھائے، دوسرے نے تاریخی باب کے لہوترنگ ورق پھیلائے، مگر دستوئیفسکی نے فرد کا باطن، جرم کی نفسیات، جبر و اختیار کی رسّہ کشی میں ’’مجھے سب کچھ جائز ہے‘‘ کا انجام دانائی اور دیوانگی کا متوازی عمل اور پھر نئی زندگی تک پہنچنے کا حوصلہ سب کھوند ڈالا، سب کا رس یکجان کر دیا۔ بعضوں کی نظر میں یہ ناول ایکشن اور اندرونی ہلچل کے تلازمے میں اپنا جواب نہیں رکھتا۔ کوئی کسی نظر سے دیکھے، آج یہ عالم ہے کہ کوئی ترقّی یافتہ زبان اس کے ترجموں سے خالی نہیں، اور اُسے پڑھے بغیر کوئی شخص عالمی ادب کا طالب علم نہیں۔ (ظ - انصاری)

---

فیودور میخائلووچ دستوئیفسکی 11 نومبر 1821ء کو ماسکو میں پیدا ہوئے۔ وہ کُل سات بہن بھائی تھے۔ بچپن اور لڑکپن کی بھلی یادوں میں ماں کی سنائی ہوئی آپ بیتیاں شامل تھیں۔ لیکن گھریلو ملازمہ الیونا کی سنائی ہوئی پریوں کی کہانیاں بھائیوں بہنوں کو دل و جان سے پسند تھیں۔ دیہات تک کے سفر اور وہاں گزاری چھٹیوں کا الگ مزہ تھا۔ کہانیاں سننے اور پڑھنے کا چسکا دستوئیفسکی کو بچپن سے پڑ گیا تھا۔ ہسپتال کے دُکھی مریضوں اور دیہات کے زرعی غلاموں سے، جو کم دکھی نہ تھے، ملنے جلنے اور دُکھڑے سننے میں اس کا دل بہت لگتا۔ وہ ماسکو کے مارینسکی کے ایک غریب طبیب کے بیٹے تھے۔ گھریلو حالات اتنے خوشحال نہ تھے۔ بچپن ہی سے انھیں غربت اور مصیبت سے سابقہ پڑا۔ سینٹ پیٹرزبرگ کے فوجی سکول کے انجینئرنگ کے شعبے میں کچھ عرصہ تعلیم حاصل کی، پھر فوج میں بھرتی ہو گئے۔ چند برسوں کے بعد دستوئیفسکی نے فوج سے سبکدوش ہونے کا فیصلہ کیا۔ وہ اپنا سارا وقت تصنیف و تخلیق کے لیے وقف کرنا چاہتے تھے۔ ان کا پہلا ناول ’’بےچارے لوگ‘‘ شائع ہوا تو اس عہد کے عظیم رُوسی نقاد بیلنسکی نے انھیں ’’عظیم ادیب‘‘ کا خطاب عطا کیا۔ رُوسی نقادوں نے بدلتے ہوئے تقاضوں اور حالات کے تحت، بالخصوص انقلابِ رُوس کے بعد کے کچھ برسوں میں اس سلسلے میں کچھ نظرثانی کرنے کی کوشش کی لیکن ان سے یہ خطاب چھینا نہ جا سکا۔ اُن کے ناولوں نے انھیں رُوسی انشا پردازوں کا سرتاج بنا دیا تھا۔ اس دوران میں دستوئیفسکی بعض نوجوانوں کے ایسے حلقے میں آنے جانے لگے جو روس کے حالات بدلنے، انقلاب برپا کرنے اور زار کا تختہ اُلٹنے کی باتیں کرتے تھے۔ بدقسمتی سے اس حلقے اور اس میں ہونے والی بحثوں کی بھنک حکومت کے خفیہ اداروں کے کان میں بھی پڑ گئی۔ حکم ہوا کہ سب نوجوانوں کو دھر لیا جائے۔ اس میں دستوئیفسکی بھی شامل تھے۔ یہ 22 اپریل 1849ء کا واقعہ ہے، دستوئیفسکی کو سزائے موت سنائی گئی جس پر عمل کرنے کے لیے انھیں لے جایا گیا، لیکن اس سے پہلے کہ ان کے گلے میں پھندا ڈالا جاتا، ان کی سزائے موت کی تبدیلی کا حکم آ گیا۔ یہ ایک ایسا تجربہ تھا جس نے دستوئیفسکی کے اعصاب اور رُوح پر ساری عمر اپنا تاثر قائم رکھا۔ بہرحال وہ عالمی ادب کو اپنے عظیم ناولوں سے مالا مال کرنے کے لیے بچ گئے اور انھیں سائبیریا بھیج دیا گیا۔ 1859ء میں قید و بند کی صعوبتوں سے نجات کے بعد دستوئیفسکی پھر اپنی تخلیقی دُنیا میں واپس آگئے۔ انھیں اسی زمانے میں مرگی کا مرض لاحق ہوا تھا۔ دستوئیفسکی کے فن میں اب وہ باطنی و نفسیاتی گہرائی اور بصیرت پیدا ہوتی ہے جس کی مثال پوری دُنیا کا ادب پیش کرنے سے قاصر ہے۔ دستوئیفسکی کے خاص اور شاہکار ناولوں کو دُنیا کی ہر بڑی زبان میں منتقل کیا جا چکا ہے۔ ’’جرم و سزا‘‘ پر فلمیں بنیں، ڈرامائی تشکیل کی گئی۔ ’’کرامازوف برادران‘‘ آخری ناول ہے۔ سکہ بند مترجم شاہد حمید کی محنتِ شاقہ سے تقریباً ڈیڑھ ہزار صفحات پر مشتمل اس مشکل اور دقیق ناول کا اُردو زبان میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ خود دستوئیفسکی اس کو اپنا سب سے وقیع کارنامہ سمجھتے تھے۔ یہ ناول ان کی موت سے کچھ عرصہ پہلے شائع ہوا۔ دستوئیفسکی کو پڑھنا ایک عظیم تجربہ ہے۔ بقول محمد حسن عسکری جو لوگ اپنے آپ اور اپنے باطن کے جہنم کو دیکھنے کی ہمت نہیں رکھتے، وہ دستوئیفسکی کو کبھی ڈھنگ سے پڑھ سکتے ہیں نہ سمجھ سکتے ہیں۔ دُنیائے ادب کے لازوال ناول نگار اور ناول نگاری کے فن کو جِلا بخشنے والے دستوئیفسکی، سینٹ پیٹرز برگ میں 9 فروری 1881ء میں انتقال کر گئے۔ ان کی عظمت کا یہ ادنیٰ ثبوت تھا کہ ان کا جنازہ اس شان سے اُٹھا جس پر بادشاہ بھی رشک کر سکتے تھے۔ اگر دُنیائے ادب کی تقسیم مقصود ہو تو کہا جائے گا کہ ادب کے دو اَدوار ہیں، ایک دستوئیفسکی سے پہلے کا ادب اور ایک دستوئیفسکی کے بعد کا ادب۔

---

ظ انصاری (پیدائش 6 فروری 1925ء - وفات 31 جنوری 1991ء)، حقیقی نام ظل حسنین نقوی، اُردو کے نام وَر ادیب، نقّاد، محقق اور مترجم، سہارن پور میں پیدا ہوئے جو اترپردیش میں ہے۔ حصولِ تعلیم کے بعد جب دہلی آئے تو وہاں ایک روزنامے سے منسلک ہو گئے۔ اس زمانے کے ایک ہفتہ وار اخبار کے مدیر سید سبطِ حسن تھے، یہ کمیونسٹ پارٹی کا اخبار تھا۔ ظ انصاری اس کی مجلسِ ادارت میں شامل ہو گئے۔ اس وقت ترقی پسندی کا بڑا شور تھا اور کئی لکھاریوں کی طرح وہ بھی گرفتار ہوئے۔ وہ کمیونزم کے نظری پیروکار تھے، لیکن بعد میں مایوس ہو گئے۔ صحافت کو پیشہ بنایا اور قلم تھاما تو علمی و ادبی مضامین، کالم اور مختلف اصنافِ ادب کو اپنے فکر اور فن سے مالا مال کیا۔ اخبار اور مختلف رسائل سے منسلک رہے اور اپنی علمی استعداد بڑھاتے رہے۔ ظ انصاری نے روسی زبان میں مہارت حاصل کی۔ روس کے دارالترجمہ میں بھی کام کیا۔ وہ روسی شعر و ادب کا ترجمہ براہ راست روسی سے اردو زبان میں کیا کرتے تھے اور یہ ایک ایسا کام تھا جو اُن سے پہلے کسی اُردو ادیب نے نہیں کیا۔ ماسکو میں جو بھی انھوں نے کام کیے وہ اپنے معیار کے لحاظ سے بے حد اہم ہیں۔ انھیں وہاں ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی ملی۔ انھوں نے مولانا آزاد، غالب، میر، خسرو، اقبال اور انیس پر اپنی تحقیق کو سپردِ‌قلم کیا۔ ظ انصاری نے انگریزی، فارسی اور رُوسی زبانوں کی کُل 38 کتابوں کا اُردو میں ترجمہ کیا۔ کارل مارکس، فریڈرک اینگلز اور لینن کی منتخب تصانیف کے ساتھ ساتھ دستوئیفسکی، چیخوف اور پشکن کے ناول بھی ترجمہ کیے۔ دستوئیفسکی کی تحریریں بہت گنجلک ہونے کے باعث ان کا ترجمہ کرنا کوئی عام بات نہیں، اُردو جو رُوسی زبان کے مقابلے میں کم ترقی یافتہ ہے، یہ کام ظ انصاری جیسا ہمہ جہت شخص ہی سر انجام دے سکتا تھا۔ ان کے ترجموں کو پڑھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے کہ گویا یہ کتابیں اُردو زبان ہی میں لکھی گئی ہیں۔ تراجم کے علاوہ انھوں نے دو جلدوں پر مبنی اُردو رُوسی اور رُوسی اُردو لغت بھی مرتب کی جو 55000 الفاظ پر مشتمل ہے۔ جدید رُوسی شاعری کا اُردو میں منظوم ترجمہ کیا۔ کہہ سکتے ہیں ظ انصاری ایک فعال اور متحرک شخص کا نام رہا ہے۔ ان کی یادیں اور زبان و ادب سے متعلق گراں قدر خدمات انھیں ہمیشہ زندہ رکھنے کے لیے کافی ہیں۔

RELATED BOOKS