CHOTI BARI KAHANIYAN : NIKOLAI GOGOL نکولائی گوگول : چھوٹی بڑی کہانیاں
PKR: 2,000/- 1,400/-
Author: NIKOLAI GOGOL
Translator: TAQI HAIDER
Editor: AMAR SHAHID
Tag: SABIRA ZAIDI
Pages: 438
Year: 2025
ISBN: 978-969-662-590-2
Categories: WORLD FICTION IN URDU SHORT STORIES WORLDWIDE CLASSICS TRANSLATIONS RUSSIAN LITERATURE
Publisher: BOOK CORNER
On Sale: 05 February 2025
نکولائی گوگول 20 مارچ 1809ء کو یوکرین میں پیدا ہوا۔ بچپن میں ہی اس نے یوکرین کے فوک ادب اور کرداروں سے گہری واقفیت پیدا کر لی تھی۔ یوکرین ہی میں اس نے تعلیم حاصل کی۔ وہ اٹھارہ برس کا تھا کہ اس نے پیٹرز برگ کا رُخ کیا۔ تب اس کا ارادہ سٹیج اداکار بننے کا تھا، لیکن اس میں وہ ناکام رہا اور نتیجے میں اسے کلرکی کرنی پڑی۔ کچھ عرصہ ایک سکول میں بھی پڑھاتا رہا مگر اپنی ملازمتوںسے غیر مطمئن تھا۔ اس زمانے میں اس نے ایک نظم لکھی جو اس کے نام کے بغیر شائع ہوئی۔ اس کی ہمت بندھ گئی۔ گوگول کی شہرت کا آغاز کہانیوں سے ہوتا ہے۔ جب اس کی کہانیوں کا مجموعہ ’’دیكانكا كے پاس گائوں كی شامیں‘‘ شائع ہوا تو بطور ادیب اور کہانی کار اس کی لازوال شہرت کا آغاز ہوا۔ انہی کہانیوں کی وجہ سے وہ رُوس کے عظیم شاعر اور جدید رُوسی ادب کے بانی پُشکن کی قربت میں پہنچا۔ وہ پُشکن کا مداح بن گیا۔ اس کا زیادہ تر وقت پُشکن کی رفاقت میں بسر ہوتا۔ گوگول جہاں بحیثیت انسان بہت عجیب و غریب شخص تھا وہاں وہ بعض لازوال تخلیقات کی وجہ سے بھی ساری دُنیا کے لیے اب تک دلچسپی کا باعث بنا ہوا ہے۔ اس نے یوکرین کے علاقے اور اس کے لوگوں، ثقافت اور رسم و رواج کو زندۂ جاوید کر دیا۔ عالمی ادب کا کون سا ایسا طالبِ علم ہے جس نے گوگول کے شاہکار ’’تاراس بلبا‘‘ کو نہ پڑھا ہو۔ ایک ایسی طویل کہانی یا ناولٹ جس نے اپنی اشاعت کے دور سے لے کر اب تک ساری دُنیا کو متاثر کیا ہے۔ دُنیا کے شاہکار افسانوں کی جب بھی فہرست بنے گی اس میں ’’اوورکوٹ‘‘ کا نام بھی شامل ہو گا۔ اس عظیم کہانی کا ترجمہ دُنیا کی ہر زبان میں ہوچکا ہے۔ گوگول کی آخری تخلیق ’’ڈیڈسولز‘‘ تھی۔ 2 جون1842ء کو اس کا پہلا حصہ شائع ہوا۔ اسے خاصی شہرت ملی، لیکن یہ گوگول کی توقع سے بہت کم تھی۔ تاہم اسے یقین تھا کہ اس ناول کے بعد میں لکھے جانے والے حصے پورے رُوس کو ہلا کر رکھ دیں گے۔ دوسرے حصے میں گوگول رُوس کی روح کو پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی ذات کے معمے کو بھی حل کرنا چاہتا تھا۔ تیسرے حصے میں وہ اس ناول کے حوالے سے رُوس کونجات کا راستہ دکھانے کا خواہاں تھا، لیکن اب وہ ذہنی علالت کے اس درجے پر تھا کہ اس سے کچھ لکھا نہ جارہا تھا۔ جون 1845ء میں اس نے ’’ڈیڈ سولز‘‘ کے اس دوسرے حصے کو خود نذرِ آتش کردیا جتنا کہ اس نے اسے اب تک لکھا تھا۔ یہ واقعہ 24 فروری1852ء کی رات کو پیش آیا اور اس کا اسے گہرا صدمہ ہوا۔ اپنی عظیم تخلیق کو اپنے ہاتھ سے جلا دینے کے غم نے اسے ہمیشہ کے لیے بستر سے لگا دیا۔ غذا کو ہاتھ لگانا چھوڑ دیا اوراسی فاقہ کشی کے عالم میں اپنے مسوّدے کو نذرِ آتش کرنے کے نو دن بعد 4 مارچ 1852ء کو گوگول چل بسا۔
ستار طاہر
’’دنیا کی سو عظیم کتابیں‘‘ سے ماخوذ