Phansi

PHANSI پھانسی

Inside the book
PHANSI

PKR:   800/- 400/-

Author: VICTOR HUGO
Translator: SAADAT HASSAN MANTO
Pages: 152
ISBN: 978-969-662-383-0
Categories: WORLD FICTION IN URDU NOVEL WORLDWIDE CLASSICS TRANSLATIONS
Publisher: BOOK CORNER
★★★★★
★★★★★

1829ء- پہلی مرتبہ یہ ناول فرانسیسی زبان میں "Le Dernier Jour d'un Condamné" کے نام سے ’’گاسلین‘‘ پبلشر سے شائع ہوا۔
1840ء- انگریزی زبان میں The Last Day of a Condemned" "کے نام سے منظرِعام پر آیا اور اس کی شہرت پوری دُنیا میں پھیل گئی۔
1933ء ۔ باری علیگ کے کہنے پر سعادت حسن منٹو نے اس شاہکار کو اُردو زبان میں منتقل کیا اور ’’اُردو بک سٹال، لاہور‘‘ سے شائع کرایا۔
2021ء- جہلم، پاکستان سے ’’بک کارنر‘‘ نے نستعلیق کمپوزنگ کروا کر مصنف و مترجم کے تعارف اور تصاویر کے ساتھ جدید ایڈیشن شائع کیا۔

----

فرانس کے مایہ ناز بین الملّی شاعر، ادیب اور مفکر وکٹر ہیوگو کی ہستی محتاجِ تعارف نہیں۔وہ اپنی لاثانی و غیر فانی تصنیف "Les Misérables" سے شہرتِ دوام حاصل کر چکا ہے۔ فی الحقیقت فرانسیسی انشاپرداز اپنے زمانہ (1802-1885ء) میں فطرتِ انسانی کا بہترین ماہر تھا۔ جس چیز نے ہیوگو کے دماغ کو حد سے زائد پریشان کیا، جس مسئلے نے ہیوگو پر راتوں کی نیند حرام کر دی، جس قانون نے اس کے قلم کو اعجاز بخشا، وہ سزائے موت کا خونی فتویٰ تھا۔ اس کے نزدیک وہ کتاب قانون کا سیاہ ترین ورق تھا، جس میں متفقہ طور پر موت کی سزا کو جائز قرار دیا گیا تھا۔ ہیوگو فتویٰ ٔموت کو فرانسیسی مقننین کے عدل و انصاف کی رُو سے غدّاری بتاتا ہے۔ جس طرح ہیوگو نے غربا کے مصائب سے متاثر ہو کر "Les Misérables" لکھی، ٹھیک اسی طرح سزائے موت کے مجرم کے اندر احساسات اور قلبی کیفیات سے اثر پذیر ہو کر اس نے یہ کتاب"The Last Day of a Condemned Man" لکھی۔ کتاب کا اندازِ تحریر پڑھنے والوں کے دماغ سے گزر کر اُن کے دل پر منقش ہو جاتا ہے۔ کتاب فی الحقیقت ایک بین الملّی المناک داستان ہے۔ قانون دان طبقہ اور فطرتِ انسانی سے دلچسپی رکھنے والے حضرا ت کو چاہیے کہ وہ اس کتاب کا ضرور مطالعہ کریں۔ میں نے ہیوگو کے اس شاہکار کو اُردو کا جامہ پہنایا ہے۔ ترجمہ کرتے وقت میرے پیشِ نظر دو مقاصد تھے۔ اولاً ہیوگو کا تنسیخِ سزائے موت کا نظریہ۔ ثانیاً وطنی ادبیات کی خدمت۔ ممکن ہے کہ میں اپنے مؤخر الذکر مقصد میں کامیاب نہ ہو سکوں، بہرحال میں نے سعی ضرور کی۔

سعادت حسن منٹو


کچھ مصنف کے بارے میں:

وکٹر ہیوگو (26 فروری 1802 - 22 مئی 1885ء) فرانسیسی شاعر، ناول نگار، ڈراما نویس، رومانوی تحریک کا رہنما، جسے فرانسیسی زبان کا سب سے عظیم مصنف مانا جاتا ہے۔ ابتدا میں اس کی شہرت بطور شاعر تھی، لیکن بتدریج وہ ناول نگار اور ڈراما نویس کی حیثیت سے بھی مقبولیت حاصل کرتا چلا گیا۔ بطور ناول نگار اس کی شہرت ادب کے اعلیٰ درجے پر فائز ہوئی۔ ہیوگو کا باپ نپولین کی فوج میں جنرل کے عہدے پر فائز تھا۔ ہیوگو 9سال کا تھا جب وہ اپنے والد کے ساتھ سپین چلا آیا اور وہاں کچھ عرصے تک رہا۔ واپسی پر اس کا قیام پیرس میں رہا۔ اس کی تعلیم پیرس کے مشہور کالج لیسے لوئی گراں میں ہوئی۔ اسے شاعری اور ادب کا طالب علمی کے زمانے سے ہی شوق تھا۔ سترہ سال کی عمر میں اس نے بعض دوستوں کی مدد سے ’’محافظ ادب‘‘ کے نام سے ایک ادبی رسالہ نکالا۔ 1822ء میں اس نے اپنے گیت (Odes) شائع کیے جو بہت پسند کیے گئے۔ اس وقت کے حکمران لوئی اٹھارویں نے دربار سے اس کی پنشن مقرر کر دی جس کے باعث اس کو مالی یکسوئی نصیب ہوئی۔ کئی سال پے در پے اس کی نظمیں، ناول اور ڈرامے شائع ہوتے رہے جن کے باعث اس نے بڑی شہرت حاصل کر لی اور فرانسیسی اکیڈمی کا رکن منتخب کیا گیا۔ اس عرصے میں وہ سیاست میں دلچسپی لیتا رہا۔ 1848ء میں وہ دستور ساز اسمبلی کا رکن منتخب ہوا۔ 1851ء میں جب لوئی نپولین فرانس کا مطلق العنان حکمران بنا تو ہیوگو نے اپنے آپ کو اس کے مخالفوں کے ساتھ وابستہ کر لیا۔ نپولین، ہیوگو کی تنقید کی تاب نہ لا سکا اور اسے 1852ء میں جلاوطن کر دیا۔ ہیوگو کچھ عرصہ برسلز میں رہا، وہاں سے جرسی گیا اور بالآخر گیرنسی میں اس نے سکونت اختیار کر لی اور 1870ء تک وہیں رہا۔ جلاوطنی کے اٹھارہ سالوں میں اس نے ہر صنفِ ادب پر طبع آزمائی کی اور اس کے سب شہ کار نظم اور نثر دونوں میں، اسی جلاوطنی کے زمانے کی یادگار ہیں۔ ان کے مشہور ترین ناولوں میں "Les Misérables" (بدنصیب)، "The Hunchback of Notre-Dame"(نوٹرے ڈیم کا کبڑا)، "The Last Day of a Condemned Man" (پھانسی) شامل ہیں جن کے اُردو تراجم بھی منظرِعام پر آچکے ہیں۔


کچھ مترجم کے بارے میں:

سعادت حسن منٹو (11 مئی 1912ء- 18جنوری 1955ء) کو موضع سمبرالہ، ضلع لدھیانہ میں پیدا ہو ئے۔ ان کی ابتدائی تعلیم گھر میں ہوئی۔ بظاہر ان کی تعلیمی استعداد اس زمانے کے انٹرمیڈیٹ تک تھی جس کی سند وہ کئی بارامتحان میں ناکام ہونے کےباوصف ہی حاصل کر سکے تھے لیکن اس کےباوجود ان کی علمی استعداد کچھ کم نہیں تھی۔ ان کی مختلف تحریروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے عالمی ادبیات کا مطالعہ کیا تھا۔ خصوصی طور پر وہ رُوسی اور فرانسیسی زبانوں کے ادب سے متاثر تھے۔جس زمانے میں ان کے مرشد باری علیگ انھیں آورہ گردی سے ہٹا کر صحافت کی ڈگری کی طرف کھینچ رہے تھے، اسی زمانے میں انھوں نے سب سے پہلے منٹو کو فرانس کے مشہور شاعر اور ڈراما نگار وکٹر ہیوگو کی تصنیف "The Last Day of a Condemned Man" کو اُردو میں ترجمہ کرنے کے لیے دیا تھا۔ بقول باری علیگ یہ ایک گرم کتاب تھی۔ باری اشتراکی تھے اور انھوں نے اپنے زعم میں فرانس کے ایک انقلاب پسند مصنف کے ایک انقلابی تصور کو اُردو میں منتقل کرنے کا کام منٹو کے سپرد کر دیا تھا۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ یہی ترجمہ منٹو کے تخلیقی سفر کا ایک بڑا ہی اہم پڑاؤ ثابت ہوا۔ منٹو نے پندرہ دن کے اندر اندر پوری کتاب کو اُردو میں منتقل کر دیا۔ باری علیگ کے مطابق ہیوگو دُنیا کا سب سے بڑا ناول نگار تھا، اس لیے ان کے مشورے سے منٹو نے ہیوگو کی یہ تصنیف درسی کتاب کی طرح پڑھی اور اس کا ترجمہ کیا۔ کتاب کے چھپتے ہی منٹو صاحبِ کتاب ہو گئے تھے۔ وہ باری صاحب کے کہنے پر ہیوگو کی دوسری شہرۂ آفاق کتاب "Les Misérables" کا ترجمہ کرنا چاہتے تھے لیکن اس کی ضخامت کے پیشِ نظر یہ کام ممکن نہ ہو سکا لیکن اس کے بعد منٹو واضح طور پر فرانسیسی ادبیات میں دلچسپی لینے لگے تھے۔ اسی زمانے میں مشہور ادبی ماہنامے ’’ہمایوں‘‘ کا ایک خوبصورت فرانسیسی ادب نمبر (برائے ستمبر 1935ء) بھی مرتب کیا۔ منٹو نے ہیوگو کی نظموں کو بھی اُردو کا لباس پہنایا۔ پاکستان بننے کے بعد انھوں نے بہترین افسانے تخلیق کیے۔ جن میں ٹوبہ ٹیک سنگھ، کھول دو، ٹھنڈا گوشت، دھواں، بُو جیسے شاہکار شامل ہیں۔ ان کے کئی افسانوی مجموعے ، خاکے اور ڈرامے شائع ہوئے۔ کثرتِ شراب نوشی کی وجہ سے 18 جنوری 1955ء کو ان کا انتقال ہوا۔

Reviews

M

Muhammad ibrahim (Tamman)

Bhut khob


RELATED BOOKS