BECHAARE LOG (2ND EDITION) بےچارے لوگ
PKR: 800/- 480/-
Author: FYODOR DOSTOEVSKY
Translator: ZOE ANSARI
Pages: 166
ISBN: 978-969-662-393-9
Categories: WORLD FICTION IN URDU NOVEL WORLDWIDE CLASSICS TRANSLATIONS BOOKS ON SALE
Publisher: BOOK CORNER
دستوئیفسکی کی زندگی ایک بڑی ہستی کی درد بھری کہانی ہے جسے انسانیت کے مصائب نے مار رکھا تھا۔ اس کی جینئس (ذکاوت) نے سماجی خرابیوں اور انسانی درد و غم کا بھاری پتّھر اٹھایا اور خود اس کے بوجھ میں پس گئی۔
فیودر میخائلووچ دستوئیفسکی (1881ء۔ 1821ء) ماسکو میں پیدا ہوا۔ اس کے والد شہر کے کسی خیراتی ہسپتال میں ڈاکٹر تھے۔ 1843ء میں دستوئیفسکی سینٹ پیٹرز برگ کے فوجی انجینئرنگ اسکول سے گریجویٹ ہوا اور انجینئرنگ وزارت میں ڈیزائن تیار کرنے کے کام پر ملازم ہو گیا۔ اپنی ملازمت سے وہ مطمئن نہ ہو سکا۔ 1844ء میں اس نے استعفا دے دیا اور اپنی ادبی زندگی کا آغاز کیا۔
اس کا پہلا کارنامہ یہی ناول تھا— ’’بے چارے لوگ‘‘— جس نے اسے شہرت عطا کی۔ یہ ناول ان دبے کچلے لوگوں کے نام معنون ہے جنھیں مصنّف نے اس دردمندی سے اس شدّتِ احساس سے یہاں پیش کیا ہے۔ اس میں سب سے نمایاں کردار ماکار الیکسئی وچ دے وشکن ایک نہایت خستہ حال اور خود کو ہیچ پوچ سمجھنے والا کلرک ہے جسے زندگی کے مصائب نے اس درجہ کچل ڈالا ہے کہ اس میں یہ بھی مان لینے کی ہمت نہیں رہی کہ وہ ستم زدہ ہے۔
یہ کتاب خطوط کے ایک سلسلے کے طور پر لکھی گئی ہے جس میں گویا مصنّف نے اپنی طرف سے کچھ نہیں کہا اور اس کی وجہ سے مصنّف کو موقع ملتا ہے کہ وہ اپنے ہیرو کی ذہنیت کی انتہائی گہرائیوں میں اتر جاتا ہے۔ وہ ذہنیت جو گاہے گاہے مضحکہ خیز بلکہ قابلِ رحم تک ہو جاتی ہے۔
گوگول اور بیلینسکی کے معتقد کی حیثیت سے دستوئیفسکی نے ابتدا میں ادب کی بہترین روایات کو مد نظر رکھا۔ مگر دستوئیفسکی کی روحانی نشوونما بہت بُری طرح کچلی گئی۔ ایک ترقی پسند سیاسی حلقے سے واسطہ رکھنے کے جرم میں اس پر مقدمہ چلا۔ سزائے موت کا فیصلہ سنایا گیا، لیکن بعد میں اس سزا میں تخفیف کرکے اسے جلاوطنی بھگتنی پڑی۔ یہ اس وقت جب کہ مصنّف کچی پھانسی کی ذلت انگیز سزا کاٹ چکا تھا۔ جلا وطنی کے دس برس کاٹ کر وہ ملک میں واپس آیا اور واپسی کے بعد اتنا بدل چکا تھا کہ مقدمے سے پہلے کے دستوئیفسکی میں اور اس میں بڑا بل آگیا۔ اس کا ’’انسان کی فطرت‘‘ پر سے ہی اعتماد اُٹھ گیا۔ بالآخر اس نے مذہب کے دامن میں پناہ لی۔
ناول ’’بےچارے لوگ‘‘ کا مصنّف اس درد بھری مسیحی محبّت کی راہ پر کھڑا نظر آتا ہے جس کے بارے میں روس کے انقلابی ڈیموکریٹ ہرتسین نے لکھا تھا، ’’انفعالی محبّت بہت جاندار بھی ہوسکتی ہے، وہ روتی ہے، وہ بولتی ہے، اپنے آنسو پونچھتی ہے مگر مصیبت یہ ہے کہ وہ کچھ کرتی نہیں۔‘‘
بنی نوعِ انسان پر سے اعتماد اٹھ جانے کی وجہ سے دستوئیفسکی میں یہ بات آگئی کہ جہاں وہ سماجی ناانصافیوں کو بے نقاب کرتا ہے وہیں کئی رجعت پرست خیالات کا اظہار بھی کرتا ہے۔ وہ انسان کو برائی کے ایک مجہول تصور میں اور سماجی پستی میں دھکیلتا ہے۔ تاہم اس کی تصنیفات کی صداقت آج بھی زندہ ہے۔
Reviews
Rafaquat Hussain (islamabad)