Maa

MAA ماں

Inside the book
MAA

PKR:   1,800/- 1,080/-

Author: MAXIM GORKY
Translator: SYED MUHAMMAD MEHDI
Tag: MAXIM GORKY
Pages: 456
ISBN: 978-969-662-416-5
Categories: WORLD FICTION IN URDU NOVEL WORLDWIDE CLASSICS TRANSLATIONS
Publisher: BOOK CORNER
★★★★★
★★★★★

میکسم گورکی محض ایک لکھنے والا ہی نہ تھا بلکہ وہ ادب میں ایک خاص فکر کا بھی نمائندہ ہے۔ ادب میں ایک اصطلاح ’’اشتراکی حقیقت نگاری‘‘ بھی ہے۔ گورکی اس کا بانی ہی نہیں بلکہ سرخیل بھی تھا اور اس نے ادب میں اشتراکی حقیقت نگاری کو فروغ دیا اوراپنے دَور اور آنے والے دَور کے ادیبوں اور لکھنے والوں کو ہمہ گیر سطح پرمتاثر کیا۔

ہمارے ہاں اُردو زبان میں جن رُوسی ادیبوں اور لکھنے والوں کو بےحد شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی ان میں گورکی سرفہرست ہے۔ گورکی کا بیشتر کام اُردو زبان میں منتقل ہوچکا ہے۔ بہت پہلے منٹو نے اس کی کہانیوں کو اُردو میں منتقل کیا۔ اس کے بعد گورکی کی آپ بیتی ’’میرا بچپن‘‘ اور اس سلسلے کی دوسری کتابوں کو ڈاکٹر اختر حسن رائے پوری نے اُردو میں منتقل کیا۔ آج بہت سے لکھنے اور پڑھنے والوں کو یہ بھول بھی چکا ہوگا کہ مرحوم محمد حسن عسکری نے بھی گورکی کو ترجمہ کیا تھا۔ ’’میں ادیب کیسے بنا‘‘ کا ترجمہ عسکری صاحب نے ہی شائع کروایا تھا۔

گورکی کا ناول ’’ماں‘‘ انقلاب سے پہلے کے رُوس کے اس دور کی عکاسی کرتا ہے جب انقلاب آزادی، مساوات اور انسانی حقوق کے لیے جدوجہد ہو رہی تھی۔ اس دور کو گورکی نے ’’ماں‘‘ میں ہمیشہ کے لیے زندہ جاوید کر دیا ہے۔ اس دور میں نچلے طبقے کے افراد کن حالات سے گزر رہے تھے، ان کی زندگیاں کتنی پُرصعوبت، اذیت ناک اور ناقابلِ برداشت ہو چکی تھیں اور اس دور میں وہ انقلاب، انصاف اور مساوات کے لیے جدوجہد کر رہے تھے، ’’ماں‘‘ کا ایک ایک لفظ اس دور کی سچّی تصویر پیش کرتا ہے۔ ’’ماں‘‘ میں گورکی نے اس دور کے رُوس کی ایسی مکمل اور سچّی تصویریں پیش کی ہیں کہ ہمیں رُوس کا وہ پورا عہد اس ناول میں دکھائی دینے لگتا ہے۔ گھروں میں مزدوروں کی جو حالت ہے اور فیکٹریوں میں ان کا جو حشر ہو رہا تھا، اس کی سچّی تصویریں ہمیں ’’ماں‘‘ میں ملتی ہیں۔ گورکی کی اشتراکی حقیقت نگاری محض فوٹوگرافی نہیں ہے بلکہ اس دور کے انسانوں کے تمام احساسات اور عمل اور ردّعمل کو ہم ان صفحات میں دیکھ سکتے ہیں۔

’’ماں‘‘ کی ایک اور ادبی حیثیت بھی ہے۔ ادب میں مقصدیت پر یقین رکھنے والے اس سلسلے میں ایک بات پر متفق ہیں کہ گورکی ادب میں مقصدیت کا سب سے بڑا حامی اور مفکر تھا اور ادب میں مقصدیت کی سب سے باکمال تخلیق ’’ماں‘‘ ہے۔ گورکی کا ناول ’’ماں‘‘ جہاں ادب میں مقصدیت کی سب سے اہم نمائندہ تخلیق کی حیثیت رکھتا ہے وہاں اس کی تاریخی اہمیت بھی ہے۔ یہ رُوس کے ایک خاص عہد کی سب سے سچّی اور مکمل تصویر بن گیا ہے۔ ایک عہد کی سب سے سچّی انسانی دستاویز!

ستّار طاہر
ماخوذ ’’دُنیا کی سو عظیم کتابیں‘‘

Reviews

U

Usman Riaz (Sialkot, Daska)


U

Usama Rafique (Bounga balocha,bhaipheru,phool nagar, distrct kasour)


R

RUQIA (Faisalabad)


M

Mashori Nale Mitho (Moen Jo daro)

Nice book


RELATED BOOKS