BABEL KA KUTUB KHANA بابل کا کتب خانہ
PKR: 999/- 699/-
Author: JORGE LUIS BORGES
Translator: ASIM BAKHSHI
Pages: 208
ISBN: 978-969-662-562-9
Categories: PHILOSOPHY WORLD FICTION IN URDU SHORT STORIES WORLDWIDE CLASSICS TRANSLATIONS
Publisher: BOOK CORNER
مصنف:
خورخے لوئیس بورخیس (پیدائش: 24 اگست 1899ء بیونس آئرس، ارجنٹائن - وفات: 14 جون 1986ء جنیوا، سویٹزر لینڈ) افسانہ نگار، شاعر، نقاد اور مترجم۔ ابتدائی زندگی اپنے خاندان کے ساتھ یورپ کے مختلف شہروں میں گزارنے کے بعد بورخیس واپس ارجنٹائن لوٹے اور 1921ء میں ان جرائد سے اپنی کہانیوں کی اشاعت کا آغاز کیا جو ماورائے حقیقت، سری اور تجریدی ادب کے لیے مشہور تھے۔ ایک موروثی بیماری کے باعث وہ 1955ء تک مکمل طور پر نابینا ہو چکے تھے، لیکن بدستور بیونس آئرس کی نیشنل لائبریری میں ڈائریکٹر اور یونیورسٹی میں انگریزی ادب کے پروفیسر کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔ بے حد وسیع مطالعہ رکھنے والے بورخیس کئی زبانوں پر مختلف درجے کی دسترس رکھتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ بینائی جاتی رہنے کے باعث بورخیس میں علامتی تخلیق نگاری کی صلاحیت اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی۔ مغربی ادب میں بورخیس کا مقام اس حد تک ہے کہ ان کا تقابل ہومر اور ملٹن کے ساتھ بھی کیا گیا ہے۔ ان کی شاعری کو اسپینوزا اور ورجل سے ایک مسلسل مکالمہ کہا گیا ہے۔ ان کی کہانیاں صنفی قید سے آزاد ہیں اور بیک وقت فلسفے، ریاضی، متعدد تہذیبی روایات اور قدیم اساطیر کی بھول بھلیاں ہیں۔ ساتھ ہی ان کی کہانیوں کی بُنت واقعہ نگاری اور کردار نگاری کے مروجہ اصولوں کو توڑتے ہوئے براہِ راست قاری کے تخیل کو اپنا ہدف بناتی ہے۔ وجودیاتی فلسفے میں ان سے بورخسی معمّے (Borgesian Conundrum) کی اصطلاح منسوب ہے جو دراصل اس مسئلے کا بیان ہے کہ آیا ادیب کہانی تخلیق کرتا ہے یا پھر کہانی اسے تخلیق کرتی ہے؟ بورخیس کی وفات 1986ء میں ہوئی لیکن ان کی کہانیوں کے تراجم کا آغاز ساٹھ کی دہائی میں ہو چکا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق بورخیس کے انگریزی مترجمین کی تعداد کم و بیش دو درجن ہے۔ بورخیس کی ان پچیس چھوٹی بڑی کہانیوں کے تراجم ایک سے زیادہ انگریزی تراجم کو سامنے رکھ کر کیے گئے ہیں اور زیادہ تر کہانیوں کے بعد ان مآخذ کی جانب نشاندہی کی گئی ہے۔
مترجم:
ڈاکٹر عاصم بخشی پیشے کے لحاظ سے کمپیوٹر انجینئرنگ کی تدریس و تحقیق سے وابستہ ہیں۔ ان کے متعدد بین الاقوامی فکشن کے تراجم شائع ہو چکے ہیں جن میں دائی سیجی کا فرانسیسی ناول ’’بالزاک اور پری پیکر چینی درزن‘‘، بن یامین کا مالیالم ناول ’’بکر بیتی‘‘ ، آندرے زینوسکی کا پولش ناول ’’حیاتِ موش‘‘ اور ہنری فریڈرک بلانک کا فرانسیسی ناول ’’نیند کی راجدھانی‘‘ شامل ہیں۔ اسامہ صدیق کے انگریزی ناول کا ترجمہ ’’چاند کو گل کریں تو ہم جانیں‘‘ بک کارنر جہلم سے شائع ہو چکا ہے۔ متفرق کہانیوں کے تراجم مختلف جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ بین الاقوامی افسانوی ادب کے علاوہ انھوں نے فلسفے کی صنف میں جوشوا ہیشل اور چارلس پرس کے مضامین کا ترجمہ بھی کیا ہے۔ فلسفۂ سائنس سے متعلق مضامین کے مجموعۂ تراجم ’’نئی زمینوں کی تلاش‘‘ نے 2017ء میں اردو سائنس بورڈ کی طرف سے بہترین کتاب کا ’’اردو سائنس ایوارڈ‘‘ حاصل کیا۔ شاعری کا ایک مجموعہ ’’شاہراہِ شوق‘‘ 2015ء میں لاہور سے شائع ہو چکا ہے۔ ان کی طبع زاد نثری کاوش ’’دبدھا‘‘ نے 2022ء میں کراچی لٹریری فیسٹیول میں اردو نثر کی بہترین کتاب کا انعام حاصل کیا۔