Anna Karenina (Classical) | Book Corner Showroom Jhelum Online Books Pakistan

ANNA KARENINA (CLASSICAL) اینا کریننا (کلاسیکل)

Inside the book
ANNA KARENINA (CLASSICAL)

PKR:   3,000/- 2,100/-

Author: LEO TOLSTOY
Translator: TAQI HAIDER
Tag: ATHAR RASOOL HAIDER
Pages: 766
ISBN: 978-969-662-514-8
Categories: WORLD FICTION IN URDU NOVEL WORLDWIDE CLASSICS TRANSLATIONS
Publisher: Book Corner

ٹالسٹائی، لیو نکولائی وِچ: تخلیق کار، ادیب، داستاں گو، مفکّر، معلّم اور کسان۔ 1828ء، خاندانی ریاست، یَسنایا پولیانا، رُوس میں پیدائش، ایک امیر زادے، جاگیر دار، بہت بڑی ریاست کے مالک، سخت کوش، آوارہ مزاج، درد مند اور حقیقت شعار۔ نَو برس کی عمر میں یتیم ہو گئے۔ جوانی، جوانی کی طرح گزاری۔ عمر کے بیسویں سال کازان یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم تھے، ڈگری حاصل کیے بغیر تعلیم ترک کر دی۔ 1849ء میں اپنی جاگیر میں کاشت کاروں کے بچّوں کے لیے ایک سکول قائم کیا۔ ناکام ہو جانے پر سیر سپاٹے میں جی لگایا، ماسکو اور سینٹ پیٹرز برگ میں عیش و عشرت کی زندگی بسر کرنے، دُنیا سے کھیلنے لگے۔ 1851ء میں ایک ملازمت مل گئی۔ قلم کاری کا جوہر خلقی تھا۔ ملازمت کے دوران اپنی سوانح ’’بچپن، لڑکپن اور جوانی‘‘ کی پہلی جلد ’’بچپن‘‘ رقم کی۔
1852ء میں فوج میں بھرتی ہو گئے۔ اِس عہد کے تجربے اُن کے شاہ کار ناول ’’جنگ اور امن‘‘ کی بنیاد بنے۔ فوج کی ملازمت بھی جلد ہی ترک کر دی۔ بے قراری سی بے قراری تھی۔ کبھی ماسکو کا رُخ کرتے، کبھی اپنی جاگیر پر واپس آ جاتے۔ ماسکو میں ’’باپ اور بیٹے‘‘ کے مصنّف جلیل القدر اِیوان ترگینف اور دوسرے ہم عصر ادیبوں سے دوستانہ مراسم ہو گئے تھے۔ ہم ذوقوں، ہم فکروں کی صحبتوں میں ذوق و فکر کی نمو تیز ہوتی ہے۔ ٹالسٹائی تو، بہ قولِ فیض، لوح و قلم کی پرورش ہی کے لیے پیدا ہوئے تھے۔ کم عمری ہی میں اُنھوں نے ایک فکر انگیز قلم کار کی حیثیت سے سارے روس میں شہرت حاصل کر لی تھی۔ وہ بڑی سنجیدہ تحریریں تخلیق کرنے لگے تھے، لیکن اُن کی زندگی اور زندگی کے معاملات و معمولات کچھ الگ تھے۔ نہ ایسی سنجیدگی، نہ اخلاقی اقدار کا ایسا پاس و لحاظ، جو اُن کی تحریروں کا خاصّہ تھا، جن تحریروں سے اُن کے خالق کی ایک تصویر بنتی تھی۔ وہ خوش اندام، لالہ فام نازنینوں کے شیدائی تھے۔ مست اَلست، خوب شراب لنڈھاتے تھے اور خوب خلوتیں آباد کیا کرتے تھے۔ اُدھر مقبوضہ علاقوں کے دشمن سپاہیوں سے اُن کا ربط ضبط رہتا تھا تو اِدھر سینٹ پیٹرز برگ کی کلیسائی قلم رَو میں اُنھوں نے رسائی حاصل کر لی تھی۔ ایک دیہی دوشیزہ سے راز و نیاز اِس انتہا سے دوچار ہوئے کہ وہ اُن کے بچّے کی ماں بن بیٹھی۔ یہ قصّہ کسی نہ کسی طور ناخوشگوار انجام سے دوچار ہوا۔
1857ء سے 1861ء تک اُنھوں نے مغربی یورپ کا دورہ کیا۔ جدید تہذیب کا یہ براہِ راست مشاہدہ اُن کے فکری و نظری سفر میں مہمیزی کا باعث ہوا۔ 1862ء میں، عمر 34 سال ہو گئی تھی اور بہت زندگی کھیل لی، بہت رنگ جما لیا تھا کہ کچھ قرار آیا۔ اپنے دوست کی 18 سالہ بیٹی سوفیا بہرس پر جا کے نظر ٹھیری اور شادی کر لی اور مسلسل پندرہ سال اپنی جاگیر پر نہایت شادماں، نہایت بھرپور زندگی گزاری۔ 26 سالہ ازدواجی رفاقت میں سوفیا 13 بچّوں کی ماں بنی۔ دونوں میں بڑی یک جائی تھی۔ شوہر کے بیش تر تخلیقی کام سوفیا کی اعانت کے مرہونِ منّت ہیں۔
1870ء ٹالسٹائی کے لیے فکری گرداب کا سال تھا۔ شک اور ابہام کی آلودگی سے وہ اپنے خاص فکر و نظر کی تقطیر کرنے اور انسانی زندگی کے ایک صاف اور سیدھا راستہ ڈھونڈ لینے کا یقین حاصل کرنے کے مراحل سے گزرا کیے اور اُنھوں نے کُھلے عام اپنے نظریات کی تلقین و تبلیغ شدّ و مد سے شروع کر دی۔ جمہوریت، مساوات، اخوّت اور انسان دوستی، اب یہی اُن کی زندگی کے مقاصد تھے۔ 1879ء میں اُنھوں نے رُوس کے سرکاری کلیسا سے اپنا ناتا توڑ لیا اور خود اپنے مکتبِ فکر کی بنیاد رکھی۔ سوفیا نے اُن کی مخالفت کی اور تب اُنھیں ایسا لگا کہ شادی اُن کے عزائم کی راہ میں دیوار بن چکی ہے۔ 1888ء میں اُنھوں نے سوفیا کو آزاد کر دیا، یا یوں کہا جائے کہ خود آزاد ہو گئے۔ 1901ء میں اُن کے ناول ’’حیاتِ نو‘‘ پر روس کے آرتھوڈوکس چرچ نے بھی اُن سے مقاطعہ کر لیا۔ ٹالسٹائی کی انقلابی فکر روس سے باہر بھی مقبول ہونے لگی تھی۔ اپنی مدلّل اور مؤثر تحریروں کی وجہ سے روس میں اُن کا
اثر و رسوخ اِس قدر بڑھ گیا تھا کہ روسی حکومت کو اُن کی باغیانہ سرگرمیوں پر کمند ڈالنے کا حوصلہ نہ ہوا۔
ٹالسٹائی ایک سچّے اور کھرے تخلیق کار تھے۔ ناول ’’اینا کریننا‘‘ یا ’’جنگ اور امن‘‘ ہی نہیں، اُن کے دیگر قلمی کام بھی کارناموں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اُن کا سارا تخلیقی کام، مقالات اور خطوط پر مشتمل نوّے جلدوں کے مساوی ہے۔ اُنھوں نے اپنی ساری جاگیر اور دولت خاندان کے افراد، اپنے مزارعوں اور غریبوں میں تقسیم کر دی تھی اور خود کو بالکلّیہ قلم کاری اور اپنے ’اِزم‘ کی ترویج و توسیع کے لیے وقف کر دیا تھا۔ اپنی ڈائری میں اُنھوں نے اعتراف کیا ہے کہ جارج ایلیٹ، ہومر، شیکسپیئر، تھیکیرے، پُشکن، ڈکنز، سروینٹیس، کانٹ، بودلیئر، گوئٹے اور روسی ہم عصر ترگینف اور دستوئیفسکی کی تحریروں نے اُن کی زندگی اور کام پر گہرے اثرات مرتّب کیے ہیں۔ خود ٹالسٹائی کی تحریروں نے نسلیں متاثر کی ہیں۔ گاندھی، مارٹن لُوتھر کنگ جونیئر اور بے شمار نام وَروں نے ٹالسٹائی کی فکر سے اکتساب کیا ہے۔ وہ بہت پُرنویس، پُرخیال ادیب تھے۔ خود اُن کا اصرار تھا کہ اُنھیں محض قصّہ گو کی حیثیت سے شناخت نہ کیا جائے۔
سات سال زندگی اور مل جاتی تو اپنے خوابوں کی تعبیر 1917ء کا انقلاب بھی دیکھ لیتے۔ 1910ء میں ٹالسٹائی کا وقت ختم ہو گیا، لیکن وقت کہاں ختم ہوا، ٹالسٹائی تو بہت زندہ ہیں۔ اِتنا منفرد، اِتنا کثیر اور فکرانگیز ترکہ چھوڑ جانے والا کیسے ختم ہو سکتا ہے۔

تحریر: شکیل عادل زادہ

RELATED BOOKS