Idiot (Illustrated Edition) | Book Corner Showroom Jhelum Online Books Pakistan

IDIOT (ILLUSTRATED EDITION) ایڈیٹ (مصور ایڈیشن)

Inside the book
IDIOT (ILLUSTRATED EDITION)

PKR:   3,000/- 2,100/-

Author: FYODOR DOSTOEVSKY
Translator: ZOE ANSARI
Pages: 560
ISBN: 978-969-662-556-8
Categories: WORLD FICTION IN URDU NOVEL WORLDWIDE CLASSICS TRANSLATIONS
Publisher: Book Corner

فیودور دستوئیفسکی (1821-81ء) روسی نثر کے دورِ عروج کی پیداوار ہے؛ سیاسی اور سماجی خلفشار کے زمانے کا بہترین ترجمان ہے۔ اپنے زمانے کی اہم تحریکوں کے گہرے مطالعے اور تحریروں میں انھیں ریکارڈ کرنے کے ساتھ ساتھ اس نے فرد کے باطن کا دشوار سفر کیا اور ہمیں انسانی فطرت کی بے تابیوں اور تضادوں کا شعور بخشا۔ آج هم اس کے نظریوں، نعروں، استعاروں اور پیش گوئیوں سے چاہے کتنا ہی اختلاف کر لیں، لیکن دکھی آتماؤں کا درد جاننے، انسان کی دکھتی رگ ٹٹولنے میں، مستقبل کے خطروں اور خوابوں سے آگاہ کرنے میں وہ ہمارے زمانے کے بہترین ادب کا پیش رو ہے۔

اس نے صرف روسی زبان یا صرف یورپ کو نہیں، پورے عالمی ادب کو چند شاهکار افسانے اور ناول دیے ہیں۔ مغرب میں جب اس کی تصانیف کی دھوم مچی تو نطشے اور فرائڈ سے لے کر لوکاچ اور سارتر تک نے اسے دنیا کا ایک عظیم ناول نگار اور آدم شناسی کا بلند مینار تسلیم کیا۔ یہاں تک کہہ دیا گیا کہ تخلیقی ادب کا زمانی فاصله شیکسپیئر کے بجائے دستوئیفسکی سے ناپنا چاہیے یعنی یوں که دستوئیفسکی سے پہلے کا ادب اور اس کے بعد کا ادب۔ کیونکہ اس ایک قلم نے افسانے اور ناول کا پچھلا تصور یکسر قلم زد کردیا ہے۔ اس نے دنیا کو پہلی بار فلسفیانہ ناول دیے ہیں اور دُور تک خواب و حقیقت کی متوازی لائنیں بچھائی ہیں۔

زیرِ نظر ناول ’’ایڈیٹ‘‘ (The Idiot) کم و بیش ڈیڑھ سال کی مدّت (1867-68ء) اور دو قسطوں میں لکھا گیا جب مصنف اپنی بیوی کے ساتھ جنیوا میں پیسے پیسے کو محتاج زندگی بسر کر رها تھا، بار بار ناول کی بساط بچھاتا، پھر الٹ پلٹ دیتا۔ پردیس کی بےکسی، مفلسی اور مرگی کی بیماری کے باوجود اسے یہ لگن تھی کہ نئی قسم کا ناول اور اپنے آدرش کا ایک صاف ستھرا هیرو دنیائے ادب کو پیش کرے۔ 12 جنوری 1868ء کے ایک خط میں اپنے پبلشر دوست مائیکوف کو لکھتا ہے:

’’...بڑی مدّت سے ایک خیال مجھے ستا رہا ہے۔ مگر میں اسے ناول میں ڈھالتے ڈرتا ہوں۔ کیونکه خیال نہایت نازک اور دشوار ہے۔ میں اسے سنبھال نہیں پاؤں گا، اگر چه دل اسی میں اٹکا ہوا ہے اور مجھے پسند بہت ہے۔ آئیڈیا یه که ایک مثالی انسان کی بھرپور تصویر کشی کی جائے؛ میرا اندازہ هے که اس سے زیادہ دشوار اور کچھ ہو ہی نہیں سکتا، خصوصاً ہمارے زمانے میں۔‘‘

دستوئیفسکی کا کہنا تھا کہ اوروں نے بھی اپنے اپنے طور پر ایسے ایک لاجواب انسان کی تصویرکشی کی ضرور ہے، لیکن تھوڑی بہت، بھرپور کسی کے ہاں نہیں۔ اور جن حالات میں ہم جی رہے ہیں، ان میں اگر کوئی ایک نیک نفس، راست باز، صاف گو، صاف دل، بے ریا اور بے غرض فرد اعلیٰ انسانی آدرشوں کے ساتھ سماج میں اتر آئے تو اس کا کیا حشر ہوگا، یہ دیکھنا چاہیے۔ دستوئیفسکی نے بار بار پلان بدلے، سخت ذهنی اور جسمانی اذیت سہی، تب جا کے اس ہیرو نے یہ آخری شکل پائی جو ناول میں موجود ہے اور جسے اپنے ارد گرد کی دنیا سے ’’ایڈیٹ‘‘ یا گاؤدی کا خطاب ملتا ہے۔

یه مرکزی کردار ایک خاندانی آدمی ہے، موروثی رئیس زاده لیکن ماں باپ کے سائے سے محروم۔ لڑکپن سے ہی کسی ذهنی بیماری کے کارن اپنے خاندانی ماحول اور وطن سے دُور سوئٹزر لینڈ بھیج دیا جاتا ہے، علاج کے لیے۔ وہ بیماریوں، ہمدردیوں، قدرتی منظروں اور چھل کپٹ سے دور معصوم بچوں کی دنیا میں برسوں رہ کر جوانی میں وطن واپس آتا ہے۔ بڑی تمنائیں لیے ہوئے آتا ہے؛ ماضی کا درد، مستقبل کے خواب، انجانی دنیا کی تلاش، بھلمنساهت سے پیار، وہ جہاں جس محفل میں بیٹھتا ہے، دل اس کی طرف کھنچتے ہیں، لیکن وہ کہیں بھی پوری طرح فٹ نہیں ہوتا؛ جہاں اس کی عزت کی جاتی ہے وہیں مذاق بھی اڑتا ہے، دنیا جسے هوشیاری اور دنیاداری کہتی ہے، وہ اسے نہیں آتی، نتیجه یه که هر جگہ بالآخر اسے ایک احمق اور اناڑی شمار کیا جاتا ہے۔ اور صورت سوال سوسائٹی کے منظر سے خالی ہاتھ گم ہو جاتا ہے۔

یه هیرو هے پرنس میشکن۔ روسی زبان کا لفظ ’’کنیاز‘‘، جسے ہم نے ’’پرنس‘‘ لکھا، اس کے اعلیٰ خاندان کی نشان دہی کرتا ہے اور بس۔ دکھی، بد نصیب، آبرو باخته اور مجرمانہ ذہنیت کے مرد و زن کو وہ غیر نہیں سمجھتا، انھیں اپناتا ہے اور سربلند دیکھنا چاہتا ہے۔ آدم کی گم شدہ جنت آدمی کے حوالے کرنے میں اسے کسی حیلے حوالے سے عار نہیں اور ایسا آدمی طبقوں، فتنوں، سازشوں میں کٹے پھٹے سماج کو درکار نہیں۔

یه هیرو، یه ناکام اور ستم زده شهری میشکن دستوئیفسکی کا مثالی آدمی ہے جس کا پیکر اس نے بڑے چاؤ سے، بڑی نزاکت اور احتیاط سے تراشا ہے اور جس کی قسمت میں پسپائی لکھ دی ہے۔

همارے زمانے کے ایک اہم سوویت مصنف فیدن نے لکھا هے که :
’’...بچپن میں بےکس، تنہا اور مریض لڑکے کی زندگی بتاکر یه پرنس خود اپنے تجربے سے جان گیا هے کہ بے رخی اور بےعزتی کے ہاتھوں انسان کیا کیا دکھ جھیلتا ہے۔ اب وہ هر ایک دکھیا اور ستم زدہ شخص کا دکھ شدت سے محسوس کرتا ہے۔ مصنف نے هیرو (میشکن) کی زبان سے اس غیرانسانی برتاؤ کے خلاف آواز بلند کی ہے جو مجرم، آبرو باخته عورت، روگی اور بچے کے ساتھ سوسائٹی روا رکھتی هے۔‘‘

میشکن کے پردے میں دستوئیفسکی نے زبان کھولی اور وہ خیالات جن پر بعد میں آکر ٹھہرا، پہلی بار یہیں ظاہر ہوئے۔

جب یه ناول 1868ء اور 1869ء کے دوران رسالے میں قسط وار چھپا تو دستوئیفسکی دور پردیس میں بیٹھا اہلِ وطن کی توجہ اور قدردانی کا سخت آرزومند تھا، مگر یہاں بھی ناکامی رہی۔ ناول نے فوری مقبولیت نہیں پائی۔ پیٹرزبرگ اور ماسکو ، دو بڑے ادبی مرکزوں میں جو نظریاتی نزاع چل رہا تھا، اس میں ’’ایڈیٹ‘‘ نه پوری طرح اِس فریق کے آرکسٹرا میں کھپ سکتا تھا، نه اُس فریق کے اکسٹراز میں۔ یوں بھی مصنف کی نازک مزاجی، بلکه بددماغی نے اپنے ہمسروں سے بگاڑ مول لے رکھا تھا۔ پھر ناول میں کئی واقعات خود مصنف کی ذاتی زندگی اور واقعی تجربوں سے نکل کر آئے تھے۔ (مثلاً پھانسی کے تختے پر چڑھنے کے وقت کی ذہنی حالت یا مرگی کا دورہ جسے لفظوں کا جامہ پہنانے میں دستوئیفسکی نے کمال کر دیا ہے، پھر اس کے ان سیاسی، سماجی خیالات کی جھلک، جو اپنے وقت کے انقلابیوں کو اسی طرح ناگوار گزرے جس طرح مغربی تہذیب کے دل دادہ حلقوں کو۔) اور یه ناول اپنی بناوٹ میں ڈرامائی ایکشن اور معمول کی دلچسپ رومانی روش سے بھی ہٹا ہوا تھا۔ غرض کہ پٹ گیا... اور دستوئیفسکی
دیکھ کر طرزِ تپاک اهلِ دنیا، جل گیا
اس کے لیے قدردانی کے دروازے دیر سے کھلے جب وہ ان سے بے نیاز ہوچکا تھا اور ابھی انیسویں صدی کا آخری کیلنڈر پرانا نہیں ہوا تھا کہ ’’ایڈیٹ‘‘ کے ٹائپ کو ’’ڈان کیخوتے‘‘ (Don Quixote) اور ’’پک وک پیپرز‘‘ کا عہدِ آفریں همسر مان لیا گیا۔ مصنف کے ہم عصر لیوٹالسٹائی نے اسے جوہری کی نظر میں بیش قیمت هیرا قرار دیا تھا۔

* * *

وہ سماج، جس کی جھلکیاں دستوئیفسکی کے ناولوں، خصوصاً زیر نظر ناول میں دکھائی دیتی ہیں، روس کی موجودہ نسل کے لیے اجنبی اور کہیں دور پار کی سنی سنائی بات معلوم ہوتا ہے۔ لیکن هم هندوستانیوں کے لیے جانا پہچانا ہے، اور شہریت کے پورے حقوق لیے شان سے دندناتا پھر رہا ہے۔ یه بھی ایک وجه هے که دستوئیفسکی کی آواز اور الفاظ ہمیں کسی غیر ملکی ساز کا تاثر نہیں دیتے۔ اس کے تاثرات میں بھی ہمیں اپنا پن ملتا ہے۔ اس اپنے پن کے سہارے هم انیسویں اور بیسویں صدی کے بعض تاریک سماجی گوشوں میں جھانک لیتے ہیں اور انسان کی ته در ته کیفیت کو ہمدردی سے سمجھنے میں ہمارے شعور کو روشنی ملتی ہے۔

* * *

ترجمه براهِ راست روسی متن سے کیا گیا ہے اور اس پہلو کا خاص خیال رکھا گیا هے که اُردو عبارت اتنی سلیس، رواں اور بامحاوره نه هونے پائے کہ مصنف کی اصل عبارت کے مدّھم اور پنچم سُر، ہلکے اور تیز رنگ، پیچیدہ اور سلیس جملے، سب کے سب خلط ملط ہو جائیں، اصل کا مزہ ہی جاتا رہے۔ عبارت کو بنانا سجانا تورگینف کا ہنر تھا اور دستوئیفسکی اور تورگینف کی کبھی نہیں بنی۔ نہ ان کے آرٹ کی آج تک بنی ہے۔

* * *

اس سے پہلے دستوئیفسکی کے ناول ’’بےچارے لوگ‘‘، ’’ذلتوں کے مارے لوگ‘‘ اور تین ناولٹ ’’کہانیاں‘‘ کے نام سے براہِ راست روسی سے اُردو کا لباس اختیار کر کے ماسکو سے شائع ہو چکے ہیں۔ یه چوتھا ہے اور اسی کے انجام پر باقی دو اہم ناولوں کی تقدیر کا مدار بھی ہے۔ فقط۔

ظ انصاری
ماسکو
1980ء

RELATED BOOKS