ZILLATON KAY MAARAY LOG ذلتوں کے مارے لوگ




PKR: 1,500/- 1,050/-
Author: FYODOR DOSTOEVSKY
Translator: ZOE ANSARI
Binding: hardback
Pages: 415
Year: 2025
ISBN: 978-969-662-612-1
Categories: WORLD FICTION IN URDU NOVEL WORLDWIDE CLASSICS TRANSLATIONS RUSSIAN LITERATURE
Publisher: BOOK CORNER
دستوئیفسکی کا جلاوطنی سے واپسی کے بعد لکھا گیا یہ پہلا بڑا ادبی کام تھا۔ یہ ناول پہلی بار 1861ء میں رسالہ ’’وَریمیہ‘‘ (وقت) میں ’’ذلتوں کے مارے لوگ: ایک ناکام ادیب کی ڈائری سے‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا، جسے مصنف نے اپنے بڑے بھائی میخائل دستوئیفسکی کے نام معنون کیا تھا۔ یہ رسالہ خود مصنف اور اُس کے بھائی میخائل کی ادارت میں جاری ہوا۔ رسالے کے مواد کو مکمل کرنے کے لیے، دستوئیفسکی کو ایک طویل ناول لکھنے کی ضرورت پیش آئی جسے قسط وار شائع کیا جا سکے۔ ناول کا بڑا حصہ مصنف نے رسالے کے اگلے شمارے کی ڈیڈ لائن کے مطابق قسط وار لکھا۔
اس ناول کا تصور دستوئیفسکی کو 1857ء ہی میں آ گیا تھا۔ 1860ء میں سینٹ پیٹرزبرگ منتقل ہونے کے بعد، اس نے فوراً اس خیال کو عملی جامہ پہنانا شروع کیا۔ جولائی 1861ء میں اس ناول کی آخری قسط منظرِ عام پر آئی، اور اُسی سال یہ ایک علیحدہ اشاعت کی صورت میں سینٹ پیٹرزبرگ سے شائع ہوا۔
ناول کے چند مقامات پر مصنف، ایوان پترو وِچ کے ذریعے، اپنے پہلے ناول ’’بے چارے لوگ‘‘ کی قسمت کا ذکر کرتا ہے، جو 1846ء میں ’’پیٹرزبرگ کولیکشن‘‘ میں شائع ہوا اور بے حد کامیاب رہا۔ خاص طور پر نقاد بیلنسکی (جسے ناول میں نقاد ’’ب‘‘ کے نام سے ظاہر کیا گیا ہے) نے اس کی بہت تعریف کی۔
’’ذلتوں کے مارے لوگ‘‘ دراصل اُن لوگوں کی کہانی ہے، جو سماج کے کناروں پر زندہ ہیں __ بے بس، مگر انسانی عظمت کے خواب سے جڑے ہوئے۔ یہ ناول، نہ صرف درد کی داستان ہے بلکہ محبت، قربانی، اور سماجی انصاف کی ایک خاموش پکار بھی ہے۔
---
فیودور میخائلووچ دستوئیفسکی 11 نومبر 1821ء کو ماسکو میں پیدا ہوئے۔ وہ کُل سات بہن بھائی تھے۔ بچپن اور لڑکپن کی بھلی یادوں میں ماں کی سنائی ہوئی آپ بیتیاں شامل تھیں۔ لیکن گھریلو ملازمہ الیونا کی سنائی ہوئی پریوں کی کہانیاں بھائیوں بہنوں کو دل و جان سے پسند تھیں۔ دیہات تک کے سفر اور وہاں گزاری چھٹیوں کا الگ مزہ تھا۔ کہانیاں سننے اور پڑھنے کا چسکا دستوئیفسکی کو بچپن سے پڑ گیا تھا۔ ہسپتال کے دُکھی مریضوں اور دیہات کے زرعی غلاموں سے، جو کم دکھی نہ تھے، ملنے جلنے اور دُکھڑے سننے میں اس کا دل بہت لگتا۔ وہ ماسکو کے مارینسکی کے ایک غریب طبیب کے بیٹے تھے۔ گھریلو حالات اتنے خوشحال نہ تھے۔ بچپن ہی سے انھیں غربت اور مصیبت سے سابقہ پڑا۔ سینٹ پیٹرزبرگ کے فوجی سکول کے انجینئرنگ کے شعبے میں کچھ عرصہ تعلیم حاصل کی، پھر فوج میں بھرتی ہو گئے۔ چند برسوں کے بعد دستوئیفسکی نے فوج سے سبکدوش ہونے کا فیصلہ کیا۔ وہ اپنا سارا وقت تصنیف و تخلیق کے لیے وقف کرنا چاہتے تھے۔ ان کا پہلا ناول ’’بےچارے لوگ‘‘ شائع ہوا تو اس عہد کے عظیم رُوسی نقاد بیلنسکی نے انھیں ’’عظیم ادیب‘‘ کا خطاب عطا کیا۔ رُوسی نقادوں نے بدلتے ہوئے تقاضوں اور حالات کے تحت، بالخصوص انقلابِ رُوس کے بعد کے کچھ برسوں میں اس سلسلے میں کچھ نظرثانی کرنے کی کوشش کی لیکن ان سے یہ خطاب چھینا نہ جا سکا۔ اُن کے ناولوں نے انھیں رُوسی انشا پردازوں کا سرتاج بنا دیا تھا۔ اس دوران میں دستوئیفسکی بعض نوجوانوں کے ایسے حلقے میں آنے جانے لگے جو روس کے حالات بدلنے، انقلاب برپا کرنے اور زار کا تختہ اُلٹنے کی باتیں کرتے تھے۔ بدقسمتی سے اس حلقے اور اس میں ہونے والی بحثوں کی بھنک حکومت کے خفیہ اداروں کے کان میں بھی پڑ گئی۔ حکم ہوا کہ سب نوجوانوں کو دھر لیا جائے۔ اس میں دستوئیفسکی بھی شامل تھے۔ یہ 22 اپریل 1849ء کا واقعہ ہے، دستوئیفسکی کو سزائے موت سنائی گئی جس پر عمل کرنے کے لیے انھیں لے جایا گیا، لیکن اس سے پہلے کہ ان کے گلے میں پھندا ڈالا جاتا، ان کی سزائے موت کی تبدیلی کا حکم آ گیا۔ یہ ایک ایسا تجربہ تھا جس نے دستوئیفسکی کے اعصاب اور رُوح پر ساری عمر اپنا تاثر قائم رکھا۔ بہرحال وہ عالمی ادب کو اپنے عظیم ناولوں سے مالا مال کرنے کے لیے بچ گئے اور انھیں سائبیریا بھیج دیا گیا۔ 1859ء میں قید و بند کی صعوبتوں سے نجات کے بعد دستوئیفسکی پھر اپنی تخلیقی دُنیا میں واپس آگئے۔ انھیں اسی زمانے میں مرگی کا مرض لاحق ہوا تھا۔ دستوئیفسکی کے فن میں اب وہ باطنی و نفسیاتی گہرائی اور بصیرت پیدا ہوتی ہے جس کی مثال پوری دُنیا کا ادب پیش کرنے سے قاصر ہے۔ دستوئیفسکی کے خاص اور شاہکار ناولوں کو دُنیا کی ہر بڑی زبان میں منتقل کیا جا چکا ہے۔ ’’جرم و سزا‘‘ پر فلمیں بنیں، ڈرامائی تشکیل کی گئی۔ ’’کرامازوف برادران‘‘ آخری ناول ہے۔ سکہ بند مترجم شاہد حمید کی محنتِ شاقہ سے تقریباً ڈیڑھ ہزار صفحات پر مشتمل اس مشکل اور دقیق ناول کا اُردو زبان میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ خود دستوئیفسکی اس کو اپنا سب سے وقیع کارنامہ سمجھتے تھے۔ یہ ناول ان کی موت سے کچھ عرصہ پہلے شائع ہوا۔ دستوئیفسکی کو پڑھنا ایک عظیم تجربہ ہے۔ بقول محمد حسن عسکری جو لوگ اپنے آپ اور اپنے باطن کے جہنم کو دیکھنے کی ہمت نہیں رکھتے، وہ دستوئیفسکی کو کبھی ڈھنگ سے پڑھ سکتے ہیں نہ سمجھ سکتے ہیں۔ دُنیائے ادب کے لازوال ناول نگار اور ناول نگاری کے فن کو جِلا بخشنے والے دستوئیفسکی، سینٹ پیٹرز برگ میں 9 فروری 1881ء میں انتقال کر گئے۔ ان کی عظمت کا یہ ادنیٰ ثبوت تھا کہ ان کا جنازہ اس شان سے اُٹھا جس پر بادشاہ بھی رشک کر سکتے تھے۔ اگر دُنیائے ادب کی تقسیم مقصود ہو تو کہا جائے گا کہ ادب کے دو اَدوار ہیں، ایک دستوئیفسکی سے پہلے کا ادب اور ایک دستوئیفسکی کے بعد کا ادب۔
---
ظ انصاری (پیدائش 6 فروری 1925ء - وفات 31 جنوری 1991ء)، حقیقی نام ظل حسنین نقوی، اُردو کے نام وَر ادیب، نقّاد، محقق اور مترجم، سہارن پور میں پیدا ہوئے جو اترپردیش میں ہے۔ حصولِ تعلیم کے بعد جب دہلی آئے تو وہاں ایک روزنامے سے منسلک ہو گئے۔ اس زمانے کے ایک ہفتہ وار اخبار کے مدیر سید سبطِ حسن تھے، یہ کمیونسٹ پارٹی کا اخبار تھا۔ ظ انصاری اس کی مجلسِ ادارت میں شامل ہو گئے۔ اس وقت ترقی پسندی کا بڑا شور تھا اور کئی لکھاریوں کی طرح وہ بھی گرفتار ہوئے۔ وہ کمیونزم کے نظری پیروکار تھے، لیکن بعد میں مایوس ہو گئے۔ صحافت کو پیشہ بنایا اور قلم تھاما تو علمی و ادبی مضامین، کالم اور مختلف اصنافِ ادب کو اپنے فکر اور فن سے مالا مال کیا۔ اخبار اور مختلف رسائل سے منسلک رہے اور اپنی علمی استعداد بڑھاتے رہے۔ ظ انصاری نے روسی زبان میں مہارت حاصل کی۔ روس کے دارالترجمہ میں بھی کام کیا۔ وہ روسی شعر و ادب کا ترجمہ براہ راست روسی سے اردو زبان میں کیا کرتے تھے اور یہ ایک ایسا کام تھا جو اُن سے پہلے کسی اُردو ادیب نے نہیں کیا۔ ماسکو میں جو بھی انھوں نے کام کیے وہ اپنے معیار کے لحاظ سے بے حد اہم ہیں۔ انھیں وہاں ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی ملی۔ انھوں نے مولانا آزاد، غالب، میر، خسرو، اقبال اور انیس پر اپنی تحقیق کو سپردِقلم کیا۔ ظ انصاری نے انگریزی، فارسی اور رُوسی زبانوں کی کُل 38 کتابوں کا اُردو میں ترجمہ کیا۔ کارل مارکس، فریڈرک اینگلز اور لینن کی منتخب تصانیف کے ساتھ ساتھ دستوئیفسکی، چیخوف اور پشکن کے ناول بھی ترجمہ کیے۔ دستوئیفسکی کی تحریریں بہت گنجلک ہونے کے باعث ان کا ترجمہ کرنا کوئی عام بات نہیں، اُردو جو رُوسی زبان کے مقابلے میں کم ترقی یافتہ ہے، یہ کام ظ انصاری جیسا ہمہ جہت شخص ہی سر انجام دے سکتا تھا۔ ان کے ترجموں کو پڑھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے کہ گویا یہ کتابیں اُردو زبان ہی میں لکھی گئی ہیں۔ تراجم کے علاوہ انھوں نے دو جلدوں پر مبنی اُردو رُوسی اور رُوسی اُردو لغت بھی مرتب کی جو 55000 الفاظ پر مشتمل ہے۔ جدید رُوسی شاعری کا اُردو میں منظوم ترجمہ کیا۔ کہہ سکتے ہیں ظ انصاری ایک فعال اور متحرک شخص کا نام رہا ہے۔ ان کی یادیں اور زبان و ادب سے متعلق گراں قدر خدمات انھیں ہمیشہ زندہ رکھنے کے لیے کافی ہیں۔