SAB RANG KEHANIYAN (VOL: 6) سب رنگ کہانیاں (والیم 6)
PKR: 1,495/-
Author: SHAKEEL ADIL ZADAH KA NIGARKHANA
Translator: HASAN RAZA GONDAL
Pages: 368
ISBN: 978-969-662-468-4
Categories: WORLD FICTION IN URDU SHORT STORIES TRANSLATIONS
Publisher: BOOK CORNER
اُردو صحافت اور ادب کی تاریخ میں شکیل عادل زادہ کا نقش دائمی ہے۔ آسانی سے زمانہ جسے مٹا نہ سکے گا۔ سہولت سے گردشِ لیل و نہار جسے بھلا نہ سکے گی۔ شکیل عادل زادہ نے داستان آرائی کے فن سے محبت کی، اُردو زبان سے اور حُسنِ بیان سے۔ ظاہر اور باطن میں ایک مہذّب آدمی ہی مستقل یہ قرینہ اختیار کر سکتا ہے۔ ایسی وارفتگی اور والہانہ پن کے ساتھ کہ ذاتی زندگی کی ہر رونق اور روئیدگی ان کی نذر کر دی۔ عشّاق کے بغیر اجتماعی حیات میں جمال کی کوئی جہت پروان نہیں چڑھتی۔ کوئی تہذیب اور کوئی زبان بالیدگی نہیں پا سکتی۔ اُردو زبان کی تاریخ بھی اہلِ ایثار کی ریاضت سے ثمر بار ہے، اس لیے کہ یہ مسلم برِّصغیر کی بڑی ہی اہم متاع ہے۔ اَن گنت پھولوں کو پرونے والا دھاگا۔ اہلِ دل کے اس قافلے میں شکیل عادل زادہ کا مقام و مرتبہ کیا ہے؟ مجھ سے عام قاری نہیں، نقّاد اور ہم عصر نہیں، یہ فیصلے تاریخ صادر کرتی ہے۔
مثالیت پسند شکیل عادل زادہ نے کہانی سے عشق پالا تودنیا کا کونا کونا چھان مارا۔ کتنے ہی کرداروں اور کردار سازوں کا کھوج لگایا۔ ہر کہیں سے ہیرے ڈھونڈے۔ پھر اس طرح چمکایا اور تراشا کہ ان میں ابدیت لَو دینے لگی۔ کہانی صرف کہانی نہیں ہوتی۔ نوع در نوع بکھری یہ انسانی فطرت کے تنوّع اور جبلّتوں کی باہمی کشمکش میں سے پھوٹتی ہے۔ پایاب پانیوں میں موتیوں کی تلاش میں مصنف مدّ و جزر میں ڈوبتا ہے، کبھی اُبھرتا ہے اور کبھی خود سے سوال کرتاہے: دل کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک۔ کم لکھنے والے اس راز سے آشنا ہوتے ہیں کہ مصرعے کی طرح جملے کا ایک وزن ہوتا ہے۔ الفاظ کے خاندان، رشتے ناتے اور قبیلے ہوا کرتے ہیں۔ آہنگ پیدا کرنے کے لیے ساز ہی نہیں، سوز بھی درکار ہوتا ہے۔ شکیل عادل زادہ یہ بھید جانتے ہیں۔
ہارون الرشید
گھنیرے بادل... سیلی بارشیں...برفیلے راستے... خاموش گلیاں... اندھے موڑ... اونچی حویلیاں... پُرانے دروازے... لمبی چِق ڈلی کھڑکیاں... دھوپ میں نہائے روشن دان... طویل ٹھنڈے برآمدے... اندھیری غلام گردشیں... اجنبی مکین... نازک لب... پری چہرے... ہانپتے تانگے... بھاگتی مال گاڑیاں... دُھند اور کہرے میں ڈوبے ویران ریل اسٹیشن... حیران سنّاٹے... اونگھتی روشنیاں... نادان دوست، دانا دشمن... سیاہ دل حبیب، سفید رُو رقیب...اور ایسے ہی جانے کتنے حیرت کدے، کتنے طلسم اس ایک ’’سب رنگ‘‘ کے صفحوں میں چھپے ملتے تھے۔ اور یہ سارا سحر استادِ محترم شکیل عادل زادہ صاحب کے منتروں کا طاری کردہ تھا کہ جیسے وہ بارشیں سب رنگ کے صفحوں پر نہیں میرے دل کے اندر کہیں برستی تھیں۔ وہی ویرانے اور سنّاٹے میری روح کو عطا ہوئے اور وہ برفیلے موسم میں نے اپنی جان پر جھیلے ہیں۔ میری آخری گاڑی ایسے ہی کسی دُھند میں ڈوبے ویران ریلوے اسٹیشن سے چھوٹی تھی اور میرا دل انھی حویلیوں کی کسی غلام گردش میں آج بھی کھویا ہوا ہے۔ ’’سب رنگ‘‘ کا لکھاری صرف کہانی بھلا کب لکھتا تھا، وہ تو میری آپ بیتی سناتا تھا، جو رفتہ رفتہ جگ بیتی میں ڈھل جاتی تھی۔ گویا صفحوں پر کئی خواب سے بکھرے ہوں... اور اب حسن رضا گوندل نے انھی بکھرے خوابوں کو پھر سے ’’سب رنگ کہانیاں‘‘ کی صورت یکجا کرنے کا سہرا اپنے سر پر سجایا ہے، جس کے لیے وہ یقینی طور پر مبارک باد کے مستحق ہیں کہ حسن رضا جیسے خواب گر اب زمانے میں کم ہی ملتے ہیں۔
ہاشم ندیم