Wohi Naam Saare

WOHI NAAM SAARE وہی نام سارے

WOHI NAAM SAARE

PKR:   1,200/- 840/-

Author: JOSE SARAMAGO
Binding: hardback
Year: 2025
Categories: NOVEL WORLDWIDE CLASSICS
Publisher: BOOK CORNER

حوزے ساراماگو 16 نومبر 1922ء کو پرتگال کے صوبہ ربیٹجو کے ایک چھوٹے سے گاؤں ازینہاگا میں پیدا ہوئے اور پُرتگال میں بے زمین ہاریوں کے ایک غریب گھرانے میں افلاس و عسرت کے ساتھ جنگ لڑتے ہوئے زندگی بسر کی۔ ساراماگو کو سکول کی تعلیم کے فوراً بعد گاڑیوں کی مرمت کی ورکشاپ میں دو سال کام کرنا پڑا۔ مختلف شعبوں میں مزدوری اور نوکریوں کے بعد ایک اشاعتی ادارے سے وابستہ ہو گئے لیکن نومبر 1975ء میں سیاسی بحران کی وجہ سے یہ ملازمت بھی چھوڑ دی۔ اِس سے پہلے وہ 1969ء میں کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کر چکے تھے۔ اُنھوں نے سیاست میں باضابطہ حصہ لیا۔ واضح اور دو ٹوک سیاسی رائے رکھتے تھے جس کا کاٹ دار اظہار وہ ہمیشہ اپنی مختلف تحریروں میں کرتے رہے۔ ساراماگو کا پہلا ناول 1947ء میں شائع ہوا، مگر اس کے بعد وہ طویل عرصے تک ادبی طور پر خاموش رہے۔ 1966ء میں اُن کی نظموں کا مجموعہ شائع ہوا، اور پھر ادبی و تنقیدی مضامین، اخباری کالم اور دوسری زبانوں کے معاصر ادب کے تراجم کا ایک سلسلہ چل پڑا جس نے ان کو بے حد فعال ادبی شخصیت بنا دیا۔

1982ء میں شائع ہونے والے ناول "Baltasar and Blimunda" نے اُنھیں عالمی شہرت دلائی اور یہ ناول پین کلب ایوارڈ جیتنے میں کامیاب رہا۔ تاہم 1995ء میں شائع ہونے والا ان کا شہرۂ آفاق ناول "Blindness" اُن کے ادبی مقام کو مزید مستحکم کر گیا۔ ممتاز شاعر اور مترجم احمد مشتاق نے اس ناول کا ’’اندھے لوگ‘‘ کے عنوان سے ترجمہ کیا، جو اُردو داں طبقے میں نہایت مقبول ہوا۔

حوزے ساراماگو اپنی تحریر میں کثرت سے تشبیہات کا استعمال کرتے ہیں، اورمنتشر خیال عناصر کے ذریعے معاشرے پر تفصیلی اور تنقیدی نظر ڈالتے ہیں۔ ساراماگو کے اسلوب کی ایک خصوصیت مکالموں اور بیانیہ کی آمیزش ہے، جس میں کم رموز والے طویل جملے ہوتے ہیں جو کئی صفحات پر محیط بھی ہو سکتے ہیں۔

حوزے سارا ماگو فاؤنڈیشن نے اکتوبر 2011ء میں ان کے ایک گم شدہ ناول "Skylight" کی اشاعت کا اعلان کیا۔ یہ ناول 1950ء کی دہائی میں لکھا گیا تھا اور ایک ناشر کی محفوظ شدہ دستاویزات میں رہا جس کو یہ مخطوطہ بھیجا گیا تھا۔ ساراماگو اپنی موت تک اس کام کے بارے میں خاموش رہے۔ اس ناول کا متعدد زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔

حوزے ساراماگو اپنی زندگی کے آخری برسوں میں افریقی ساحل کے قریب واقع جزائر کناریہ (Canary Islands) میں رہائش پذیر ہو گئے اور اسی جزیرے میں 18 جون، 2010ء کو 87 برس کی عمر میں وفات پاگئے۔

1998ء میں حوزے ساراماگو کو ادب کا نوبیل انعام اس دلیل کے ساتھ دیا گیا تھا، ’’وہ شخص جو تخیل، ہمدردی اور ستم ظریفی کے واسطے سے دستیاب تمثیلوں کے ساتھ ہمیں ایک بار پھر ایک گمراہ کن حقیقت کو سمجھنے کا اہل بناتا ہے۔‘‘ ادب کے نوبیل انعام سے نوازے جانے سے قبل وہ ایک شدید تنازع کا اُس وقت شکار ہو گئے تھے جب حضرت عیسیٰ ؑ کی زندگی پر مبنی ناول کو پُرتگالی حکومت نے ادبی انعام کے لیے نامزد ہونے سے روک دیا تھا۔

نوبیل انعام برائے ادب 1998ء کے علاوہ حوزے سارا ماگو کو ملنے والے انعامات و اعزازت کی طویل فہرست ہے۔ 1995ء میں وہ پُرتگالی زبان کی نثر کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کروانے والے سب سے نمایاں ادیب قرار پائے اور انھیں کاموئیش ایوارڈ (Camões Award) سے نوازا گیا جو پُرتگالی زبان کا سب سے بڑا ادبی انعام سمجھا جاتا ہے۔ 24 اگست 1985ء کو انھیں ’’آرڈر ملٹری آف سینٹیاگو دَ ایسپیڈا‘‘ کا کمانڈر بنایا گیا اور 3 دسمبر 1998ء کو انھیں اسی آرڈر کا سب سے اعلیٰ درجہ ’’گرانڈے کولار‘‘ دیا گیا جو عموماً صرف سربراہانِ مملکت کے لیے مخصوص ہوتا ہے۔ 2004ء میں انھیں بین الاقوامی ادبی اعزاز ’’امریکا ایوارڈ برائے ادب‘‘ سے سرفراز کیا گیا۔

-ا-ا-

خالد فتح محمد (پیدائش 1945ء) افسانہ نگار، ناول نویس، مترجم، نقاد اور تجزیہ نگار ہیں۔ ان کا خاندان ماڑی بوچیاں، ضلع گورداس پور، مشرقی پنجاب سے ہجرت کر کے قلعہ جے سنگھ، ضلع گوجرانوالا میں آباد ہوا۔ تب وہ زندگی کے اُس مرحلے پر تھے جہاں نوجوان اپنے مستقبل کی طرف پرواز لیتے ہیں، دورانِ تعلیم ہی وہ عساکرِ پاکستان کی ملازمت کے لیے منتخب کر لیے گئے اور اگلے پچّیس برس ملک کے مختلف خطوں میں بشمول مشرقی پاکستان اپنے فرائض کی انجام دہی میں مصروفِ عمل رہے۔ ملازمت سے سبکدوشی کے بعد 1993ء میں لکھنے کا آغاز کیا۔ 1998ء میں پہلی کہانی ’’اماں نیلی ‘‘لکھی اور اُس کے بعد ایک چو مکھی جنگ کا آغاز ہوا۔ زندگی کی دیگر مصروفیات کے ساتھ لکھنے کے لیے وقت نکالتے اور مطالعے کو لکھنے سے بھی زیادہ ترجیح دیتے۔ یہ تینوں کام آج بھی اُتنی ہی تن دہی سے کیے جا رہے ہیں جتنا کہ تیس برس پہلے۔ وقت نے اُن کے جذبے اور ہمت پر اوس نہیںڈالی۔ مشرقی پاکستان کے مشاہدوں پر مبنی ناول ’’خلیج‘‘ ان کی وجۂ شہرت بنا۔ ان کے تخلیقی سرمائے میں 12 اُردو اور 2 پنجابی ناولوں سمیت 8افسانوی مجموعے شامل ہیں۔ وہ فیودور دستوئیفسکی، حوزے ساراماگو، اورحان کمال اور ہیرٹا میولر کے ناولوں کے تراجم بھی کر چکے ہیں۔ایک سہ ماہی ادبی رسالے ’’ادراک‘‘ کے بانی مدیر ہیں۔ خالد فتح محمد اپنے خاندان کے ساتھ 1993ء سے گوجرانوالا چھاؤنی میں رہائش پذیر ہیں۔

-ا-ا-

1997 — زمانۂ تحریر ’’وہی نام سارے‘‘، زبان: پُرتگیزی، اصل عنوان: Todos os Nomes (تودوس اوز نامیز)

1997 — پہلی بار یہ ناول لزبن (پُرتگال) کے مشہور اشاعتی ادارے ’’کامینہو‘‘ سے شائع ہوا۔

1999 — اس ناول کا انگریزی ترجمہ مارگریٹ جل کوسٹا (Margaret Jull Costa) نے "All the Names"کے عنوان سے کیا۔ وہ ایک برطانوی ادبی مترجم ہیں جو پُرتگالی اور ہسپانوی ادب کے انگریزی تراجم کے لیے عالمی شہرت رکھتی ہیں۔ اس ترجمے کو آکسفرڈ وَائیڈن فیلڈ ٹرانسلیشن پرائز سے نوازا گیا۔

2025 — نامور کہانی کار، نقاد اور ترجمہ نگار خالد فتح محمد نے مارگریٹ جل کوسٹا کے انگریزی ترجمے سے اس ناول کا ’’وہی نام سارے‘‘ کے عنوان سے اُردو زبان میں ترجمہ کیا۔ وہ اس سے قبل فیودور دستوئیفسکی، اورحان کمال اور ہیرٹا میولر کے ناولوں کے ترجمے بھی کر چکے ہیں۔

2025 — جہلم، پاکستان سے ’’بک کارنر‘‘ نے حوزے ساراماگو کی اہلیہ پیلار دَ رِئیو (Pilar del Río) اور صاحبزادی ویولانتے ساراماگو ماتوش (Violante Saramago Matos) سے باضابطہ تحریری معاہدے کے تحت اس ترجمے کے اشاعتی حقوق حاصل کیے ہیں اور اس ناول کو ’’بک کارنر ورلڈ وائیڈ کلاسِکس‘‘ سیریز کے تحت شائع کیا ہے۔

-ا-ا-

آرا

سویڈش اکیڈمی نے اُس کے ناولوں کوتخیل ،ہمدردی اور استہزا سے بھرپور تماثیل قرار دیا ہے۔ یہ بیانیہ اُس کے تازہ ترین ناول کی مکمل تصویر ہے — دی ٹائمز

ہمیں ساراماگو جیسی گہری، مختلف اور وسیع دانش کی ضرورت ہے — جان برگر، دی گارجین

دل چسپ اور ساتھ ہی پریشان کن جو شاید ادب ِ عالیہ کی نشانی ہے — انتھونی ڈینئیلز، سنڈے ٹیلی گراف

جناب حوزے کی صورت میں مصنف نے جدید ادب میں ایک غیرمعمولی کردار تخلیق کیا ہے،کچھ نقادوں نے، کسی بھی طرح یہ مبالغہ نہیںہے، اُسے میلوائل کے پُراسرار کردار بارتلیبی کے متوازی رکھا ہے — میرسیڈیس مومانے، اَل پائس

تجسّس کو اُبھارتا،متحرک اور ایذارسا ںناول، جو استعاراتی بھول بھلیاں اور گمراہ کن نشانوں کو اپنے جلو میں لیے ہو ئے ہے — دی ہیرالڈ

یہ زندوں اورمرتے ہوؤں کا ملاپ ہے جو حوزے ساراماگو کی تحریرکا خاصا ہے — دی نیو سٹیٹس مین

ایک ماورائی،مخفی حُسن۔ آشکار سے نجات، نظریاتی لیکن لاتعلق، انتہائی پُر سکون ماحول اور پُرکشش مزاح پیش کرتا ہے — لٹریری ریویو

ہم ایک بار پھر ماہر قصہ گو اور اُس کے سحر انگیز کہانی بننے کے جوہر کے شکر گزار ہیں — رچرڈ اے پرَیتو، ورلڈ لٹریچر ٹوڈے

ساراماگو کے فکشن کی جڑیں بہت گہری ہیں،جو یورپ کے مثالی فکشن کو چھوتی ہیں جس میں انسانی رُوح، یلغار کرتی ہوئی غیر انسانی اشرافیائی طاقتوں کے سامنے مدافعت کرتی ہے۔ ’’وہی نام سارے‘‘ حوزے ساراماگو کے سب سے زیادہ فروخت ہونے والے ناول ’’اندھے لوگ‘‘ کا ایک قابلِ تعریف جانشین ہے — لیزا جاردئین، دی ٹائمز

ایک خائف کلرک کی عمدہ کہانی جو اپنے طاقت ور مالک کی طاقت کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا دل کو چھوتا ہوا مزاح ہے جس کے ذریعے وہ دنیا کو للکارتا ہے جہاں کند ذہنوں کی معرفت محبت اور موت کی ایسی قطعی طور پر فہرست تیار کی جاتی ہے جو اِس کتاب کو پڑھنے پر مجبور کرتی ہے — کرس ڈولان، گلاسگو ہیرالڈ

سارا ماگو کی آواز ایک چمکتا ہوا تنوع سامنے لاتی ہے جو کبھی مدھم نہیں پڑتا۔ یہ ایک عمدہ تحفہ ہے، اور جیسے جیسے ساراماگو عمر رسیدہ ہوتا ہے، وہ اِسے ایسے طریقوں میں استعمال کرنے کے لیے آمادہ نظر آتا ہے جو مزید سہل بھی ہیں، ایک کلرک کی کہانی بارش کے ایک دِن، بے رنگ شہر میں، اُس کی خواہش اور علم تک ہی محدود ہے، وہ ایسی ایسی کہانیاں نکالتا ہے جو گہرائی میں جاتی ہیں، اِ س کہانی کی طرح — مائیکل پائی، سکاٹس مین

حوزے ساراماگو کے ’’وہی نام سارے‘‘ نے ہمیں یاد دلایا کہ اُس نے اُس سال کا نوبیل انعام کیوں جیتا۔ یہ ایک کلرکی غلطی کے دنیا کی زندگی پر اثرات کو تلاش کرتا ہے، یہ دونوں نامعلوم اور سنگین، واضح اور سادہ ہیں۔ ایک دل کش مہم، نامعلوم عورت کی تلاش، ایسے فقروں کے اوپر تیرتی ہے جو کہ لہروں کی طرح ایک دوسرے کے اوپر گرتے ہیں — رابرٹ وائینڈر، نیو سٹیٹس مین

RELATED BOOKS