CHAND KO GUL KAREN TO HUM JANEN (2ND EDITION) چاند کو گل کریں تو ہم جانیں
PKR: 2,000/- 1,400/-
Author: OSAMA SIDDIQUE
Translator: ASIM BAKHSHI
Pages: 480
ISBN: 978-969-662-354-0
Categories: WORLD FICTION IN URDU NOVEL TRANSLATIONS
Publisher: BOOK CORNER
اس ناول نے میرے اندرعجیب و غریب کیفیات برپا کیں۔ اس کا ماحول تاریک ہے اور قدرے بھیانک بھی۔ نہایت وسیع پھیلائو ہونےکے باوجود مصنف نے بہت مہارت سے اور قدرے اختصار کے ساتھ ماضی، حال اور مستقبل کے نسبتی سلسلوں کی بنت کاری کی ہے۔ اس تجربے کا ماحصل یہ لرزا دینے والا تصور ہے کہ بدی یعنی حرص اور تخریب کی جبلت انسان کی تقدیر ہے۔ نہایت فن کاری سے لکھا گیا یہ ناول تاریخ و ثقافت کے طویل ادوار کو اپنے پُراعتماد بیانیے سے ایسے یکجا کرتا ہے کہ ماضی اور حال کی تصاویر اتنی ہی جاندار نظر آتی ہیں جتنا مستقبل کا تصور۔ ناول یہ کہتا محسوس ہوتا ہے کہ روز حاضر کے خوف آنے والے دنوں کے ہیبت ناک اندیشوں سے کچھ کم نہیں۔ علمیت اور ذہانت سے لبریز یہ تحریر پڑھنے والے کو لبھاتی بھی ہے اور ڈراتی بھی۔
(شمس الرحمٰن فاروقی)
میں نے اپنے کسی ناول میں لکھا تھا کہ وقت ایک تسلسل کے ساتھ گزرتا جاتا ہے اور ہم ٹھہرے ہوتے ہیں لیکن کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ یہ وقت ہے جو تھم چکا ہے اور یہ ہم ہیں جو گزرتے جاتے ہیں۔ اسامہ صدیق کا ناول ’’چاند کو گُل کریں تو ہم جانیں‘‘ پڑھتے ہوئے میں اس سراب کا شکار ہوا کہ وقت ٹھہر چکا ہے اور یہ اسامہ صدیق ہے جو اس میں گزرتا جاتا ہے۔ ماضی سے حال اور حال سے مستقبل کی جانب ایک کھوجی کی مانند سفر کرتا چلا جاتا ہے۔ اس کی تخلیقی قوت وقت کے نقشِ پا کو دریافت کرنے کبھی تو الٹے قدموں ماضی میں چلی جاتی ہے اور کبھی مستقبل کی جانب گامزن ہو جاتی ہے۔ ماضی کا سفر آسان ہوتا ہے کہ آپ تحقیق اور وجدان کو بروئے کار لا کر اسے زندہ کر سکتے ہیں، موجودہ زمانہ آپ کی آنکھوں میں عکس ہوتا جاتا ہے اور آپ اسے اپنے مشاہدے میں منتقل کر کے بیان کر جاتے ہیں لیکن مستقبل میں اترنے کے لیے اپنی جان دائو پر لگانی پڑتی ہے اور یہ صرف قوتِ متخیّلہ ہے جس کے زور پر آپ تصور کر سکتے ہیں کہ مستقبل کی تصویرمیں کون سے کردار حرکت کریں گے۔ جیسے کچھ مہم جو گہرے غاروں کی تاریکی میں اتر جاتے ہیں اور نئی دُنیائیں دریافت کرتے ہیں ایسے ہی اسامہ اپنے تخیل کے سہارے مستقبل کے اجنبی اور نادریافت غاروں میں اترا ہے اور اَن دیکھی دُنیائوں کے باشندوں کو اپنے زورِ قلم سے زندہ کر دیا ہے۔ اسامہ جس آسانی اور قوت بھری روانی سے ماضی میں لوٹ جاتا ہے، پھر حال کا سفر اختیار کر کے مستقبل میں جا آباد ہوتا ہے، میرے لیے شدید حیرت کا باعث بنا۔ میں تو اپنے ناول ’’بہائو‘‘ کے کرداروں کی تلاش میں سرسوتی ندی کے سوکھتے ہوئے پانیوں تک جا پہنچا۔ موہنجوداڑو کی گلیوں کی مسافت اختیار کی۔ ان زمانوں میں واپس گیا تو بس وہیں رہ گیا، لوٹ آنا میرے بس میں نہ رہا اور اسامہ ہے کہ نہ صرف ماضی میں کچھ ایام بسر کرتا ہے، پھر حال کو بیان کرتے ہوئے مستقبل کی وادیوں میں کوہ نوردی کرنے لگتا ہے اور اس کے چہرے پر ان مسافتوں کی تھکن ہی نہیں ۔ اس کی تحریر کی دل کشی اور دل ربائی میں اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا ہے۔ ادب کے آسمان پر اسامہ ایک ایسے ماہتاب کی مانند ابھرا ہے جو کبھی بجھایا تو نہ جائے گا۔
(مستنصر حسین تارڑ)
اُسامہ صدیق لاہور میں پیدا ہوئے۔ ان بارہ سالوں کے علاوہ جو تحصیلِ علم اور ملازمت کے سلسلے میں لاہور سے دُور بیرونِ ملک گزارے، وہ باقی تمام عمر لاہور ہی سے جڑے رہے ہیں۔ پیشہ ورانہ طور پر وہ ایک معلم، محقق، مصنّف، قانون دان اور پالیسی امور کے ماہر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ انھوں نے کیتھیڈرل ہائی سکول، کریسنٹ ماڈل سکول، گورنمنٹ کالج لاہور اور لمز (LUMS) سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد آکسفرڈ یونیورسٹی میں بطور Rhodes Scholar قانون کی تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں ہارورڈ یونیورسٹی سے قانون میں ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کیں۔ برصغیر کی قانونی تاریخ پر ان کی کتاب "Pakistan’s Experience with Formal Law: An Alien Justice" جو کیمبرج یونیورسٹی پریس نے چھاپی ہے اب تک کئی انعامات جیت چکی ہے۔ اُن کا تاریخی ناول "Snuffing Out the Moon" سب سے پہلے پینگوئن رینڈم ہاؤس سے چھپا۔ عاصم بخشی نے اس ناول کا اُردو ترجمہ ’’چاند کو گُل کریں تو ہم جانیں‘‘ کے نام سے کیا اور بک کارنر نے چھاپا۔ کتاب اور اس کا ترجمہ دونوں بہت معروف و مقبول ہوئے۔ ان کا اُردو کا پہلا ناول ’’غروبِ شہر کا وقت‘‘ بھی بک کارنر سے 2023ء میں شائع ہوا ہے۔ عالمی ادب، ہمارے خطے کے قصے، کہانیاں اور داستانیں، تاریخی تحقیق، سیاحت، قدیم کھنڈر، پُرانے درخت، اصلاحاتی کام اور بیش قیمت انسانی رشتے ان کی زندگی کی دل چسپیاں بھی ہیں، جستجو بھی اور حاصل بھی۔
----
ڈاکٹر عاصم بخشی نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی میں کمپیوٹر انجینئرنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ ان کے فکشن تراجم سہ ماہی جرائد آج، دنیا زاد، نقاط اور آن لائن جریدے جائزہ ڈاٹ کام پر شائع ہوتے رہے ہیں۔ بین الاقوامی افسانوی ادب کے علاوہ انھوں نے جوشوا ہیشل اور چارلس پرس کے مضامین کا ترجمہ بھی کیا ہے۔ ان کے نان فکشن تراجم کے مجموعے ’نئی زمینوں کی تلاش‘ نے 2017ء میں اُردو سائنس بورڈ کی طرف سے بہترین کتاب کا اُردو سائنس ایوارڈ حاصل کیا۔
Reviews
Abdullah Wahid (Lahore)
"چاند کو گل کریں تو ہم جانیں" تخیل سے ترجمہ تک میں نے ایک ایک زینا درجہ بدرجہ اس لیۓ گویا خود چڑھتے ہوئے محسوس کیا کیونکہ مصنف (اسامہ صدیق) جو کہ میرے بڑے بھائی بھی ہیں ہمیں ہماری مکمل شمولیت کا احساس دلاتے رہے۔ انکی فراخ دلی اور اعلی ظرفی نے ہمیں کہیں یہ محسوس نہ ہونے دیا کہ یہ کتاب ہماری نہیں۔ ہر سطح پر تبادلہ خیال، مشورہ اور کتاب کے حوالے سے قصہ گوئی بدستور جاری رہی۔ یہاں تک کہ عاصم بخشی صاحب سے پہلی ملاقات سے لے کر جناب گگن شاہد و امر شاھد کے تعاون، بک کارنر کے تعارف، ٹائٹل کے انتخاب، کتب کی چھپائی، پہلی دو سو دستخط شدہ کتب، آن لائن آرڈر اور فری ڈیلیوری یہاں تک کہ محمد بن قاسم کی سندھ میں "ملک" صاحب کی زمین ہموار کرنے کے دوران ملاقات تک میں ہم سب شامل رہے۔ ہم سب کو اس کتاب کے آنے کی بےحد خوشی اور انتظار تھا کیونکہ یہ ہم سب کے "ٹیپو بھائی" کی کتاب تھی۔
Omar Farooq (Nankana Sahib)
2021ء کا خوبصورت تحفہ
Zaara Mazhar (Islamabad)
چاند کو گل کریں تو ہم جانیں ۔۔۔۔
کیسا انوکھا سا دل کے تاروں کو چھیڑتا سا عنوان ہے ۔ گرمیوں کی دوپہریں بھی کتنی مہربان ہیں ناں ۔ مکین پردے گرائے , پنکھے چلائے نیم اندھیرے کمروں میں محو استراحت ہوں اچانک آپ کے فون پہ ایک اجنبی کال ہو اور آپ بادل نخواستہ کال رسیو کریں ۔۔۔ گیٹ پہ TCS کا نمائندہ خوشگوار حیرت کے ساتھ موجود ہو کہ آپ کے لئے بک کارنر جہلم کی نئی کتاب ہے ۔۔ ❤❤❤❤❤❤❤
کہاں کی نیند , کیسا ٹھنڈا اندھیرا ۔۔۔ ہم نے چائے بنوا لی ۔۔
مزید اعزاز یہ ہوا کہ کتابی نسخہ مصنف کے دستخط کے ساتھ ہے تو آپ اچھل ہی پڑتے ہیں ۔ ناول کا عنوان اور سرورق بک کارنر کی خوبصورت روایت پر پورا اترتا ہے جسے انہوں نے اپنے روایتی سلیقے اور نفاست سے چھاپا ہے ۔۔۔ کتاب مصنف اسامہ صدیق کے انگریزی ناول کا ترجمہ ہے جس کے مترجم عاصم بخشی ہیں جبکہ انگلش ورژن کیمبرج یونیورسٹی پریس نے چھاپا ہے ۔ حلقۂ ادب دونوں احباب سے بخوبی واقف ہے ۔۔ کتاب پہ عصرِ حاضر کے تمام مقبول و معروف ناموں کے خوبصورت تاثرات آسمان پہ ستاروں کی طرح موجود ہیں جو کتاب کی مقبولیت پہ دلالت ہیں ۔ چائے کی چسکیوں میں سوادِ کتاب کے گردا گردی گھڑ دوڑ سے معلوم ہوا کہ ناول کو تاریخ کے جھرکوں میں سے کھوجا گیا ہے اور بچھڑی تاریخ کو ہم سے بڑی خوبصورتی سے ملوایا گیا ہے ۔ تاریخ کی گلیوں میں آوارہ گردی ایک نشہ ہے اور اس نشے کی لذت ایک "تاریخی نشئ" ہی جان سکتا ہے ۔
ہمیں عادت ہو چکی ہے کہ ہم ہر اچھی کتاب کا تعارف رؤف کلاسرہ صاحب کی وال پہ پہلے پڑھتے ہیں پھر بلا کھٹکے منگوا لیتے ہیں ۔۔۔ پہلی بار ہوا ہے کہ کلاسرہ سر کتاب کے مطالعے میں مگن ہیں اور گگن شاہد صاحب کی مہربانی سے ہم کتاب تک رسائی پا چکے ہیں ۔ مجھے یقین ہے کلاسرہ صاحب جونہی کتاب کا ریویو دیں گے شائقین اس کتاب پہ ٹوٹ پڑیں گے ۔۔ سرکل کی ہر وال پہ ناول کی گونج اور بعد ازاں بازگشت سنائی دیتی رہے گی ۔ اگر آپ ایک اچھی کتاب پڑھنے کے شائق ہیں جو آپ کو آپ ہی سے بچھڑی تاریخ سے بڑی دلچسپی اور تفصیل سے ملوا دے اور آپ اپنی نسلوں کے لئے اچھی وراثت چھوڑنے کے حق میں ہیں تو یقیناً ناول شائقین کے ذخیرے میں ایک گراں بہا اضافہ ہوگا ۔۔۔
مصنف و مترجم اور ناشرین کی کامیابی کے لئے بے پناہ دعائیں ۔
آپ بھی چاند کو گل کریں تو ہم جانیں ۔۔
Muhammad Ali (Lahore)
Just received this lovely copy of the Urdu translation of Osama Siddiqui's "Snuffing Out the Moon", signed by the author himself. Thank you, Jehlum Book Corner.
Mudasar Ibn e Manzoor (Gojra)
آج چاند کو گل کریں تو ہم جانیں کی اسامہ صدیق صاحب کے ہاتھوں دستخط شدہ کاپی موصول ہوئی بک کارنر کی اس سے زیادہ تعریف کیا کروں کہ جب سے بک کارنر کی کتابوں سے واسطہ پڑا ہے کسی اور پبلشر کی کتاب کی طرف دھیان ہی نہیں جاتا اللہ تعالیٰ مزید برکتوں سے نوازے
Jawad Haider
ڈاکیا ڈاک لایا اور میرے لئے کیسی شاندار سوغات لایا۔۔۔۔
مشکل سے پیکنگ کھولی اور سات تہوں میں چھپی کتابیں باہر نکالیں۔
ہمیشہ کی طرح شاندار پیکنگ، خوبصورت پرنٹنگ اور بروقت رسائی۔
کتابیں کیسی ہیں یہ تو پڑھ کر ہی معلوم ہوگا، سردست تو ان کی چھپائی اور مہک کے سرور میں ہوں۔
شکریہ بک کارنر جہلم
Moammar Qaddafi (Hyderabad)
یہ خوبصورت ناول پبلشر اور مصنف صاحب کی مہربانی سے اسامہ صدیق صاحب کے دستخط کے ساتھ آج ہی موصول ہوا ہے۔ ابھی میں نے ورق گردانی کی تو دو تین مشاہیر کے تبصرے اور پیش لفظ پڑا اس ناول نے اپنے سحر میں لے لیا ہے۔ اس کے علاوہ جب اس کتاب کے پانچوں حصوں کے سرورق پر لکھے اشعار اور نظمیں پڑھیں تو عجیب کیفیات طاری ہوئیں۔۔۔ کتاب بہت اہم اور بامعنی لگ رہی ہے۔۔ مزید قرات کے بعد بات ہوگی!
اور اشاعت کے حوالے سے جناب عالی
Gagan Shahid, Amar Shahid
اور انکا ادارہ انتہائی مبارک باد کے مستحق ہیں۔ بہت ہی خوبصورت سرِ ورق اور خطاطی اور ناول کے ہر حصہ کی الگ سے خصوصی ورق کے ساتھ تزئین وآرائش اور تو اور نقشہ بھی ساتھ شامل ہے۔
پھر شمس الرحمن فاروقی، مستنصر حسین تارڑ، افتخار عارف، عائشہ جلال، ناصر عباس نیر اور ششی تھرور جیسے علمی و ادبی مشاہیر کے تبصروں نے تو کتاب کو چار چاند لگا دیے ہیں۔
دعائیں اور پھول۔۔🌼💐🤲
Hussain Mirza (Islamabad)
Thanks Book Corner for a promt response, Nice packing and off course for the wonderful books. Hats off.
Basit Khattak (Karak)
اسامہ صدیق کے ناول کو ہر لحاظ سے جس خوبصورتی کے ساتھ زیور طباعت سے آراستہ کیا گیا ہے وہ صرف بک کارنر جہلم کا ہی خاصہ ہے جس میں گگن شاہد اور امر شاہد کی کتاب دوستی اور ذوق کا بہت بڑا عمل دخل ہے۔
Muhammad Tahir Umair (Kamalia)
تین کتابیں.
ایک خواب ایک خواہش اور ایک امید.
خواب:
ڈاکٹر زواگو:
ہالی ووڈ کلاسک موویز کی لت پڑی تو ان سے مشہور و معروف موویز کے اوریجنل ناول پڑھنے کا شوق پیدا ہوا.تو یہ خواب تھا کہ گاڈ فادر.. گون ود دی ونڈز.. پرائڈ اینڈ پریجوڈس.. اور ایک یہ ڈاکٹر زواگو... میرے پاس کتابی صورت میں ہوں..جیسی یہ لازوال فلم ہے ویسا ہی یہ انت اخیر سا ناول ہے. اللہ بھلا کرے کہ اس کا اردو ترجمہ ہوا. پڑھ کر تفصیلی ریویو دوں گا.
.
خواہش:
احمد مشتاق کا ترجمہ کیا ہوزے سارا ماگو کا یہ ناول اندھے لوگ (بلائنڈنس) جس کے بارے میں مستنصر حسین تارڑ نے کہا تھا کہ اسے پڑھ کر میرا دل کیا کہ اپنی کتابوں کو آگ لگادوں. یہ پی ڈی ایف میں ملا پڑھا اور تب سے خواہش تھی کہ یہ کتابی شکل میں میرے سرہانے سائیڈ ٹیبل پر پڑا ہوا. اور آج ایسا ہوچکا ہے. یہ میرے آل ٹائم فیورٹ ناولوں میں سے ایک ہے
.
امید:
اسامہ صدیق کے اس انگلش ناول (ترجمہ: چاند کو گل کریں تو ہم جانیں) کا شہرہ سن چکا تھا اور جب بک کارنر کی طرف سے اعلان ہوا کہ اس کا اردو ترجمہ شائع ہورہا ہے. تب سے بہت خوشی اور انتظار تھا. کہ یہ جلد از جلد میرے پاس ہو. اور یہ ہے. اور اب اس حسین و جمیل کتاب کی ظاہری خوبصورتی دیکھ کر امید بڑھ گئی ہے کہ اس کتاب کا ساتھ بہت دلفریب ہونے والا ہے.
.
کتابوں کا معیار... نہایت عمدہ پیکنگ.. برق رفتار ڈیلیوری کے ساتھ بک کارنر والوں کا تہہ دل سے ممنون ہوں
Ahmad Bilal (Tarnab (KPK))
یہ دور عظیم بیانیوں کا دور ہے۔۔ تہذیبوں کی نشاۃ ثانیہ کے بیانیے۔۔ قوموں کے عروج اور عظمت کے بیانیے، دھرتی کا دفاع کرنے والی عسکری قوتوں کی شجاعت کے بیانیے، مذاہب کے جاہ و جلال اور برتری کے بیانیے، لیکن اِن اور اِن جیسے عظیم بیانیوں کی گھن گرج میں دو چیزیں ہمیشہ نظر انداز ہوتی آئی ہیں اور وہ ہیں محکوم قومیں اور پسماندہ اور پِسے ہوئے لوگ۔۔ حیاتِ انسانی کی متفرق اور بے بہا جہتیں اور پہلو کسی ایک بیانیے میں تو محدود ہو ہی نہیں سکتے۔۔ ویسے بھی اپنا تسلط جمانے پہ آمادہ ہر بیانیے کے پیچھے کوئی جابرانہ اور استحصالی قوت ضرور کار فرما ہوتی ہے۔۔ جب بھی کوئی قوت یا معاشرہ صرف کچھ مخصوص کہانیوں پہ اکتفا کرنے اور چند مخصوص بیانیوں کو ہم پر مسلط کرنے پہ اصرار کرنے لگے تو سمجھ لیجئے اس کے پیچھے کچھ خاص لوگوں اور طبقوں کے مفادات ہیں جو یہ نہیں چاہتے کہ ہر کسی کو اپنی کہانی بتانے، اپنی بپتا سنانے اور اپنے دکھ، رنج و غم اور شکایت کا اظہار کرنے کی اجازت دی جائے۔۔
اگر ہم اپنے آپ پر صرف چند بیانیے اور کہانیاں مسلط اور حاوی ہونے پر مدافعت اور احتجاج نہیں کریں گے تو بہت جلد یہ احتجاج کا حق بھی مستقلاً کھو بیٹھیں گے۔۔ حق اور سچ کی بقا اسی میں ہے کہ کسی بھی قسم کی اور کسی بھی نکتہ نظر کی کہانیوں پر کوئی پابندی اور قدعن نہ ہو اور ہم اپنی متفرق کہانیوں کو اُجاگر کریں۔۔ خاص طور پہ ان کہانیوں کو جو اُن لوگوں کا تجربہ اور زوایہ نظر سامنے لائیں جو معاشرے میں سب سے مظلوم اور کمزور ہیں۔۔ ہمارے یہاں حق بات کہنے اور ظالم کے ظلم پر احتجاج کرنے کی روشن روایات ہیں۔۔ ایسا کرنے والوں کو نہ تو کبھی ہمیشہ کے لیے خاموش کرایا جاسکا ہے اور نہ ہی کرایا جاسکے گا۔۔ دلیر لوگوں کی مدافعت اور اختلاف رائے زندہ رہتی ہیں اور ان کی سرکوبی کی کوشش ایسے ہی ہے جسے چاند کو گُل کرنے کی کوشش کرنا۔۔
Muhammad Tahir Umair (Kamalia)
اسامہ صدیق نے یہ ناول انگلش میں لکھا تھا. (Snuffing out the Moon)
اب اس کاترجمہ بک کارنر کے توسط سے سامنے آیا ہے. یہ ناول انگلش میں شائع ہوتے ہی مقبولیت کی سند پاچکا تھا. اس لئے اسے اردو کے قارئین تک پہنچانے کی شدید ضرورت تھی. ناول کے بارے میں بڑی بڑی ادبی شخصیات نے جو تبصرہ جات لکھے وہ کتاب میں موجود ہیں. اور پوسٹ کی تصاویر میں بھی لگادئیے ہیں.
میرا نہیں خیال کہ ان بڑوں نے جو لکھ دیا ہے اس سے اختلاف کیا جاسکے یا ان کی باتوں میں اضافہ کیا جاسکے گا. اور ایسا کہنے کی میرے پاس وجہ کوئی اور نہیں بلکہ یہ ہے کہ میں خود اس کتاب کو پڑھ چکاہوں.
اور بطور قاری اپنے احساسات بیان کرنے جارہاہوں.
ایک قاری جب یہ ناول پڑھتا ہے تو گویا وہ "وقت کے رتھ" پر سوار ہوجاتا ہے. یہ رتھ ماضی سے حال اور حال سے آگے مستقبل میں سفر کرتا ہوا چھے مختلف زمانوں اور تہذیبوں کے اندر سے گزرتا چلا جاتا ہے.
عام طور پر ایک قاری کے لئے یہ ذہنی پریشانی کی بات ہوتی ہے. جب اس کو اچانک ایک زمانہ اور تہذیب سے باہر نکل کر دوسرے زمانہ اور تہذ یب میں یکلخت داخل کردیا جائے. یہ منتقلی محض ایک ورق پلٹنے سے ہوتی ہے مگر اس ایک ورق کے پلٹنے سے آپ صدیوں کا سفر طے کرجاتے ہیں. اس سے یقینی طور پر قاری کا ذہنی ارتکاز ہل کر رہ جاتا ہے.
آپ ماضی کی ایک تہذیب میں اترے ہوئے ہیں. اس زمانے کا سارا نقشہ آپ کے سامنے ہے. ایک مکمل اور بھرپور تہذیب کے ساتھ. جیتے جاگتے لوگ اپنی ثقافت کے مطابق لباس پہنے...گھروں اور گلیوں میں چلتے پھرتے اپنی بولی بولتے جارہے ہیں. کہانی چل رہی ہے. پھر اچانک یہ سارا منظر نامہ رک جاتا ہے. ایک ورق پلٹنے کی دیر ہے آپ ایک نئے زمانہ نئی تہذیب نئے لوگ نئی بولی کی دنیا میں داخل ہوجاتے ہیں.
ابھی آپ موہنجودڑو کی زندہ تہذیب میں "پرکا" اور ستھوئی" کی کہانی میں گم تھے. اچانک ورق پلٹتا ہے اور آپ "ٹکشا سیلا" کی عظیم درسگاہ میں ایک گرو کو اپنے چیلے سے یہ سوال کرتے دیکھتے ہو..
"مایاجال کی کھوج کریں تو سامنے کھڑےہمارے سنگرام کے بارے میں کیادیکھتی ہے تمہاری آنکھ بالک؟"
ورق پلٹتا ہے اور آپ مغل بادشاہ جہانگیر کے دور میں پہنچ جاتے ہیں. جہاں دو شاطر ٹھگ اپنی قمست آزمانے کی کوشش میں اپنی گردن پھنسا بیٹھے ہیں
یکایک آپ کو اٹھارہ سو ستاون کے زمانہ میں پہنچا دیا جاتا ہے. جہاں ایک داستان گو کچھ کہنا چاہتا ہے اور انگریز راج کے خلاف بغاوت کا آغاز ہوا چاہتا ہے.
وقت کی چھڑی گھومتی ہے اور آپ ء2009 میں یعنی موجودہ زمانہ میں لاہور کے اندر نظام عدل و انصاف کی سب سے بڑی عمارت یعنی لاہور ہائی کورٹ میں ایک بوڑھی اکیلی عورت کو انصاف کی تلاش کیں سرگرداں و پریشان پاتے ہیں.
ماضی کی کہانی اور حال کا قصہ سنا کر وقت کارتھ آپ کو مستقبل میں لے جاتا ہے...بیس سو چوراسی "متحدہ آبی مراکز" جہاں انسانیت اب پانی کی قلت کے معاملے میں تقسیم ہوئی نظر آتی ہے.
جی ہاں بظاہر ایک زمانے سے دوسرے زمانے.. ایک تہذیب سے دوسری تہذیب کا یہ سفر... آپ کے ارتکاز کو ہلاڈالنے کے لئے کافی ہے. مگر یہیں پر اس ناول کا سب سے بڑی خوبی آشکار ہوتی ہے. کہ یہ اپنی کشش اس معیار پر قائم رکھتا ہے کہ آپ کا ذہن بالکل پریشان نہیں ہوتا. بلکہ ان کہانیوں کی دلچسپی کے ساتھ جڑا رہتا ہے. پھر صدیوں پر محیط ان زمانوں اور ثقافتوں کو دو چیزوں نے بڑی مضبوطی کے ساتھ آپس میں جوڑ رکھا ہے. ایک وہ المیے یا دکھ یا خوف جو ہر زمانہ میں انسانیت کے اندر موجود رہے. دوسری چیز زیادہ اہم ہے اور وہ ہے "زمین". بالکل یہی زمین ہماری دھرتی. ایک خاموش لیکن بھرپور انداز میں ہر زمانہ میں موجود. چشم دید گواہ کی طرح.
یہی وجہ ہے کہ چار سو اسی کے لگ بھگ صفحات پر مشتمل یہ ناول محض دو نشستوں میں پڑھ لیا گیا. (یہ الگ بات ہے کہ اسے دوبارہ پڑھنا بنتا ہے اور اس بار چائے کی طرح چسکی لیتے ہوئے دھیرج کے ساتھ).
یہ ناول علمیت سے بھرپور ہے. تاریخی اور تہذیبی داستانوں سے مزین ہے. مگر کہیں بھی یہ علمیت....بھاری محسوس نہیں ہوتی..
تاریخ دہرائی ہوئی نہیں لگتی... اور تہذیبوں کا جھمگٹا بوجھل محسوس نہیں ہوتا. ایک فکشن کی اس سے بڑی خوبی کیا ہوسکتی ہے کہ وہ تاریخ اور تہذیب کا دامن نہ چھوڑتے ہوئے بھی دلچسپی قائم رکھے.
ناول کا عنوان فیض احمد فیض کی نظم "زندان کی ایک شام" کے ایک مصرعہ کو بنایا گیا ہے. ناول کو پانچ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے. "کتاب سراب"..."کتاب شگون".."کتاب سوز"..."کتاب نفرت"...اور "کتاب انحراف".
اس ناول کو انگلش سے اردو میں ڈھال کر ان پاکستانی قارئین پر بہت بڑا احسان کیا گیا ہے جو اردو زبان کے بڑے ناول پڑھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں. اور اس کتاب کو اس کی باطنی خوبصورتی کے ساتھ ظاہری طور پر بھی بک کارنر نے اتنا خوبصورت چھاپا ہے کہ اسے ذاتی لائبریری میں رکھنے سے جمالیاتی ذوق کی بھی بھرپور تسکین ہوتی ہے.
اس ناول کے مترجم جناب عاصم بخشی کو بھی ڈھیروں داد دیتا ہوں. جنہوں نے اس انگلش ناول کو اردو میں ڈھالتے ہوئے محض الفاظ کا ترجمہ نہیں کیا بلکہ اس ناول کی پوری فضا ہی اردو اسلوب میں انڈیلنے میں کامیاب ٹھہرے. (بجا طور پر پیش لفظ میں مصنف اور مترجم کے مابین اس ناول کو ترجمہ کئے جانے سے متعلق باتیں موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ ترجمہ کرنے کے معاملہ میں مصنف اور مترجم کے مابین ذہن ہم آہنگی کے قائم ہوجانے سے یہ خوبصورت شاہکار سامنے آیا).
البتہ مستقبل کا منظر نامہ پڑھتے ہوئے مسلسل ان انگلش ٹرمز کا خیال آتا رہا جو اوریجنل انگلش ناول میں لکھے گئے. اس سے یہ خواہش پیدا ہوئی کہ اس ناول کو انگلش میں بھی پڑھنا چاہئے.
پاکستان میں انگریزی ناول لکھنے والے بڑے ناموں میں احمد علی... بپسی سدھوا.. محسن حامد.... محمد حنیف کے بعد اسامہ صدیق کا شمار بھی ہوچکا ہے. اور اس ترجمہ کے بعد امیدہے اردو پڑھنے والوں میں بھی اسامہ کا نام بڑے ادیب کے طور پر جانا جائے گا.
آخر میں یہ کہوں گا کہ... "چاند کو گل کریں تو ہم جانیں" کو ایک نیا تجرباتی ناول تو نہیں البتہ اپنی نوعیت کا جدید ناول قرار دیا جاسکتا ہے. اگر آپ کو پرانی تہذیب..اور تاریخ سے دلچسپی ہے اور آپ ماضی حال اور مستقبل کے زمانوں کی سیر کرنا چاہتے ہیں. اور ایک بہترین فکشن پڑھنا چاہتے ہیں تو یہ ناول آپ کے لئے ایک "ٹریٹ" سے کم نہیں.
.
.
تحریر و تبصرہ: محمد طاہر عمیر
Kashif Manzoor (Lahore)
"تہذیبوں کی ٹائم مشین"۔۔۔
اسامہ صدیق ۔۔۔
فکشن نویس یا ادبی سائنس دان
تبصرہ۔۔ کاشف منظور۔۔۔
ناول۔۔ چاند کو گل کریں تو ہم جانیں۔۔
مصنف۔۔ اسامہ صدیق۔۔
اندرونی سرورق کے بموجب: ناول مذکور کئی ادوار پر محیط اور کئی حالات واقعات سے سیراب ہےاور بہت سے ایسے لوگوں کی بھرپور زندگیوں کی کہانیاں بیان کرتا ہے جو مذہب اور اختیار کے نام پر معاشرتی تسلط پر سوال اٹھاتے ہیں اور حق اختلاف رائے کے علمبردار ہیں۔۔بنیادی طور پر یہ ناول مصنف ہی کے انگریزی ناول
Snuffing out the moon
کااردو ترجمہ ہے جو عاصم بخشی نے اس قدر خوبصورت کیا ہے کہ یہ بجائے خود ایک خود مکتفی وآزاد اردو ناول بن گیا ہے۔۔ تحریر کی گہری علمیت و جاذبیت کے باوصف یہ محسوس کرنا تقریباً ناممکن ہے کہ ہم ایک ترجمہ شدہ تحریر پڑھ رہے ہیں۔۔ناول کا اردو نام فیض احمد فیض کی ایک مشہور حبسیاتی نظم کے آخری مصرعے پر مشتمل ہے مگر یہ ماننا قاری کے ادبی ایمان پر منحصر ہے کہ اس میں مرکزی کردار پرکا، بدھ مترا، شہنشاہ جہانگیر کے دور کے آوارہ گرد،ہندستانی جنگ آزادی دور کے میر صاحب داستان گو، 2009 بعد از مسیح کی انصاف کی تلاش میں خوار ہوتی رفیعہ بیگم، 2084 بعد مسیح کا آبی جنگوں پر تحقیق کرتا دانشور؛ تاریک راہوں میں مارے گئے یا جلوہ گاہ وصال کی شمعیں بجھانے والوں کو اپنی کج کلاہی سے باور کرا گئے کہ چاند کو گل کریں تو ہم جانیں۔۔
ناول میں پانچ حقیقی تاریخی جبکہ ایک تصوراتی مستقبلیاتی تہذیب میں پنہاں کشاکش ہائے زندگی کو پیش کیا گیا ہے اور پورا ناول پانچ کتابوں یا انگریزی رواج کے مطابق Books میں منقسم ہے۔۔ (کتاب سراب وشگون و سوز و نفرت و انحراف۔۔)۔۔ تہذییں ہماری اپنی مشرقی، وادیء سندھ و گندھارا،سلطنت مغلیہ و برطانوی ہند، موجودہ پاکستان و مستقبل دیدہ قلعہ روہتاس کیمپ 2084ء۔۔
ناول ایک مربوط کہانی کی بجائے ایک مرکزی خیال کو لے کر چلتا ہے جو چھ کی چھ تہذیبوں کو شامل ہے جو کرداروں کا نعرہ آزادی بھی ہے اور وقت کے جبروت کے خلاف اعلان دعوت بھی۔۔ نارسائی ان کی تقدیر ہونے کے باوجود وہ اپنی الفت یاعہد کو اپنی ہی تدبیر جانتے ہیں اور ہجر کی قتل گاہوں سے مزید عشاقانہ قافلوں کا حوصلہ بڑھاتے ہیں۔۔
تمام بڑے ابواب یا کتابیں اپنی اپنی جگہ الگ مگر مکمل ہیں اور پھر ذیلی ابواب۔۔ ایسا لگتا ہے آپ مطالعہ نہیں کر رہے بلکہ تحریری مناظر کی متحرک تصویریں دیکھ رہے ہیں۔۔ مصنف کی تحقیقات و مشاہدات اسقدر جزٔیاتی ہیں کہ لگتا ہے کہ سکیچز یا caricatures (خصوصاً موجودہ پاکستانی وکیلوں کے) کھینچ رہے ہیں یا اوپر بیان کردہ کرداروں کے Cameo Portrait..(دورنگے پتھر کی پرت پر کندہ تصاویر)..ناول کے تمام حصے اپنی ساخت ،ترکیب اور منظم ترتیب کے اعتبار سے Montage کے زیادہ قریب ہیں۔۔یہاں اس امر کا تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ بقول شخصے ایشیائی ڈرامے کا اصل ولن ماضی ہے۔۔ میتھیو آرنلڈ نے ہار جانے والے مگر ہار نہ ماننے والے ، مشرق کے حوصلے متعلق لکھا تھا۔۔۔
The East bowed low before the blast
In patient,deep disdain
She let the legend thunder past
And plunged in thought again...
بقول مصنف یہ سب کچھ بازیچہ اطفال ہے اور وہ ازل سے اب تک اور اب سے ابد تک ایک جیسے ہی سوال پوچھتا آیا ہے۔۔اور پوچھتا رہےگا۔
(وَمَا الْحَيَاةُ الـدُّنْيَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ۔۔۔
اور دنیا کی زندگی سوائے دھوکے کی پونجی کے اور کچھ نہیں۔)
کہانی کے پھیلاؤ اور الگ الگ مربوط اجزا بارے اس کا ماننا ہے کہ ایک زرخیز دھرتی کے رہنے والے لکھاری کیلئے جہاں مٹی کی ہر تہ کے نیچے ایک تہذیب دفن ہے، صرف اپنے زمان و مکان میں مقید ہو کر کہانی لکھنا ناشکری سی لگتی ہے۔۔ مصنف اپنے آپ کو الف لیلہ اور طلسم ہوش ربا کی طرح کہانیوں کی اس عظیم روایت کے سحر میں پوری طرح جکڑا ہوا پاتا ہے۔۔
ارغوانی نثر purple prose کی طرح اس ارغوانی ترجمے کے کچھ مختصر اقتباسات یا جملے قاری کو مصنف اور مترجم، ہر دو کی شگفتگی و روشنیء طبع کا پتہ دیتے ہیں۔۔پہلے مصنف کے پیش لفظ سے۔۔
۔۔ کتاب مصنف سے بالکل الگ ایک شناخت پیدا کر لیتی ہےاور اس کی اپنی ایک انفرادی زندگی ہوتی ہے۔۔
۔۔۔کبھی ایسا ہوتا یے کہ انسان تمام تر کوشش کے باوجود کچھ نہیں لکھ پاتا اور کبھی کوئی ایسا دھچکا کہ روانی ہی روانی۔۔ ایک اذیت ناک تجربہ مگر میرے (مصنف) کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔۔
۔۔ہم ایک ایسے خطے میں رہتے ہیں جہاں مٹی کی ہر تہ کے نیچے ایک تہذیب دفن ہے۔۔
۔۔۔سب کچھ بازیچہ اطفال ہے۔۔
A tale.told by an idiot.full of sound n fury..
.. کتاب کے طفیل مصنف کئی ایسے لوگوں سے ملتا ہے جن سے بصورت دیگر وہ کبھی بھی نہ مل سکتا،ذہن سے یہ عام تاثر زائل ہوا کہ پڑھنے والے کم ہوتے جارہے ہیں۔۔
اور اب ترجمے کاانداز دیکھئے۔۔۔
۔۔۔ کسی ننھے پرندے کی سی سبک چال چلتے،وہ پاس موجود جامن کے پیڑ تلے بکھرے پھل جمع کرتے ہوئے آپ ہی آپ گنگنا رہی تھی۔۔ کوشش تھی کہ بائیں کلائی کے جھٹکے سے ہر پانچواں یا چھٹا جامن اس کے منہ میں جا پہنچے۔۔ یہ دیکھ کر پرکا کی ہنسی نکل گئی۔۔۔۔۔ وہ جان بوجھ کر کٹیلی آواز میں چلایا۔۔
"ڈوب مریں جو چرائیں دیوی ماں کا پھل
منہ ہو جائیں ان کے جامنی اور کھل جائے پیٹو پن۔۔"
۔۔۔بڑی عمر کا جوگی شوخ لہجے میں گویا ہوا، سچ مچ میرے تیکھے بالک؟ کہنا پڑے گا کہ مجھے تم سےکچھ زیادہ کی آس تھی۔ تم کہو کہ پتھر لکڑی کی یہ ساری جمائی گئی ترتیب بس مایا ہے؟ مجھ سے سنو تو میری آنکھ اودھے اجلے پتھر کا بنا ایک اوسط استھل دیکھتی ہے۔ رسج رچنا ہے تو اچھی مگر وہ کلاکاری نہیں جو آس پاس کے سنگھراموں میں دکھتی ہے۔۔ ۔۔ کوٹھی خانوں کے سامنے دھرے منچ پتھر پر ہمارے تمہارے مہاتما گرو کے بڑی سندرتا سے کھدے آسن بھی کیا خوب درشن کراتے ہیں۔۔ذرا سے دیدے ترچھے کروں تواستر اور کٹکھڑی میں ہوئی رسج مزدوروں کی استادیاں بھی دیکھ سکتا ہوں جو آنکھ کو تو بھاتی ہیں مگر کہیں بھی پرانے استھانوں جیسی نہیں۔۔"
خدا لگتی کہیے یہ ترجمہ لگتا ہے۔۔۔
ایک دو نثری مثالیں اور دیکھئے۔۔
"قبل از تبدیلی کے واقعات کی انتہائی مختصر تاریخ' از الیگزنڈر مرتضی آ فاقی سے اقتباسات: علاقائی اختلافات جن کے نتیجے میں اکیسویں صدی کے نصف اول تک محفوظ و موجود کئی سیاسی و معاشی ڈھانچوں میں توڑ پھوڑ ،تباہی اور اس علاقے کے بٹوارے ہوے جس کا نام پہلے جنوبی ایشیا ہوا کرتا تھا۔ایک بنیادی وجہ علاقے کے مروجہ اہم مذاہب کے گرد منظم ہونے والی شدت پسند سیاست کا ظہور نو تھا۔۔۔
"جنگوں،ٹوٹ پھوٹ اور پرانے جنوبی ایشیا کے بکھراؤ کے بعد کے سالوں میں افراتفری کی یہ فضا موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث تازہ پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے مزید ابتر ہوگئی۔۔۔۔: بارشوں میں کمی،جنگلات کی کٹائی اور بگڑتے ہوئے ماحولیاتی عدم توازن کی وجہ سے بالآخر تازہ آبی وسائل کے حصول کےلئے شدید کھلبلی مچ گئی۔۔۔۔
۔۔۔ نئے اتحاد وجود میں آئے اور بڑے پیمانے پر لڑائیاں شروع ہو گئیں۔۔
۔۔۔ جتھوں،سرداروں اور مسلح گروہوں میں اضافے کے باعث معاشرہ واپس قرون وسطی کی طرف لوٹ گیا۔۔۔۔"
یاد رہے یہ جنوبی ایشیا کی بات یو رہی ہے جس میں ہندستان پاکستان شامل ہیں۔۔
اور آخری سے قبل ایک 'چھدرا' اقتباس..
۔۔ پرانے دور کے بین الاقوامی قانونی معاہدوں،اشتراک اور تنظیموں کے حتمی خاتمے کے بعد 2065 ء میں متحدہ مراکز کے بیچ اختلافات کے حل کا نیا ثالثی نظام وضع کیا گیا۔۔(اب نئی اقوام متحدہ): دنیا بھر کے کل بیس متحدہ مراکز میں سے سترہ مراکز متحدہ کے مستقل ارکان ہیں۔۔
۔۔ متحدہ عرب کی حالت مبصر کی سی ہے جو پرانے مشرق وسطی میں افراتفری کے باعث التوا میں پڑی ہے۔۔
۔۔روسی سائبریایی متحدہ مرکز باقی مراکز متحدہ سے مستقل نبرد آزما رہتا ہے۔۔ ۔۔۔اوراس کی تجاویز سے اتفاق کرتے ہوئے جنوبی اور مشرقی افریقی مراکز نے اس کے پیش کردہ متبادل عالمگیر قانونی ڈھانچوں میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔۔
ایسے ان گنت اقتباسات حاضر کیے جاسکتے ہیں۔۔
مصنف کی زبانوں،لہجوں اور مختلف ادوار کی vocab پر دسترس قابل رشک ہے۔۔ انگریزی،ھندی مع سنسکرت،شستہ اردو کے ساتھ ساتھ انہوں نے لاہوری ہونے کے ناطے پنجابی سے بھی اعتنا کیا ہے۔۔اور ایک کامل باب تقریباً ماجھے کی پنجابی میں ہے ترجمے کے بغیر۔۔ باہمت قارئین ہی حوصلہ کر کے لطف اندوز ہو سکیں گے۔۔
مصنف کا پاورق میں تعارف اور تعلیمی قابلیت مرعوب کن ہے،طبقہ اعیان سے تعلق کے باوجود ان کاانداز عوامی اور دلکش ہے۔۔ شخصیت میں ایک عجیب Charisma ہے جو ان کی زندگی اور انسانیت سے محبت اور سخاوت پر دال ہے۔۔ان کے اس ناول کی آمد کا کچھ عرصے سے چرچا تھا، امید کرنی چاہیئے کہ یہ کچھ عرصہ ادبی اتھلے پانیوں میں ارتعاش کا موجب رہے گا۔۔ انشاء اللہ
کتاب ہمارے ادبی جناتی ناشر بک کارنر جہلم, شاہد برادران نے ہی شائع کی ہے جن کے بارے میں مصنف کا اپنا اظہار خیال اس 'تبصرے' کا اختتام کرے گا۔۔
" جب میں بک کارنر کی مطبوعات دیکھتا تو تو لگتا تھا کہ کسی کو کتابوں سے واقعی محبت ہے اور وہ بے چین ہے کہ کتاب دلکش ہو۔۔ اس کی دلکشی کی خبر عشاق کتب تک پہنچے۔۔اور اس کیلئے اس کا دیدار اور مطالعہ بھی ناممکنات میں سے نہ ہو۔۔ آکسفرڈ یوکے اور پینگوئن رینڈم ہاؤس جیسے بین الاقوامی ناشرین کے ساتھ انتہائی خوشگوار تجربے کے بعد مجھے بھی ایسے ہی سنجیدہ،متحرک اور باریک بین ناشر کی تلاش تھی۔۔جس انہماک اور اخلاص کے ساتھ بک کارنر نے یہ کتاب تیار کی ہے وہ ان کی کتاب شناسی اور اپنے فن سے لگاؤ کا ثبوت ہے اور اس کیلئے میں ان کا بےحد شکر گزار ہوں۔۔"
تبصرہ نگار: کاشف منظور”
Ashar Iqbal (Dubai)
اتوار کو ہمارا ہفتے کا پہلا ورکنگ ڈے ہوتا ہے اور دو چھٹیوں کے بعد کافی بوجھل اور بھاری لگتا ہے صبح صبح موبائل پہ آنے والی کالز ریسیو کرنے کا دل نہیں کرتا کل اتوار کی صبح بھی جب فون بجا تو بڑی بے دلی سے کال ریسیو کی اور جب کال کرنے والے نے بتایا کہ میں سنٹرل پوسٹ آفس دبئی سے بات کر رہا ہوں آپ کے لیے پاکستان سے پارسل آیا ہوا ہے تو دل خوش ہو گیا کیونکہ پارسل بک کارنر جہلم سے گگن بھائی نے بھجوایا تھا اور صرف 6 دنوں میں ملنے کی امید بھی نہیں تھی۔ اتوار کا دن اچھا لیکن طویل ہو گیا شام میں چھٹی ہوتے ہی سیدھا پوسٹ آفس کا رخ کیا اور کتابوں کا کارٹن لے کر ہی گھر واپسی ہوئی کتابوں کی پیکنگ ہمیشہ کی طرح لاجواب تھی بک کارنر سے چھپی ہوئی کتابیں پڑھنے لائق تو ہوتی ہی ہیں آپ انہیں چھُو کر ہاتھوں میں پکڑ کر بھی لطف اندوز ہوتے ہیں آپ نے اگر ابھی تک یہ تجربہ نہیں کیا تو ضرور کیجیے گا۔
اشعراقبال
جہلم/دبئی
Rakhshanda Batool (Jhelum)
کتاب پڑھنے والوں کے لیے میرے شہر میں موجود یہ نعمت کدہ جسے لوگ بک کارنر کہتے ہیں کسی تحفے سے کم نہیں ۔اکثر کتاب ہاتھ لگی توجیسے کوئی خزانہ ہاتھ لگا۔ ماشاءاللہ کیا طباعت ہے۔ دل دھڑکانے والا سرورق، اشتیاق بڑھانے والے تبصرے۔۔۔پر رونق کتابیں۔
ناشرین کی لگن کی مہک اور اچھے اچھے لکھاریوں کے لفظوں کی خوشبو ہم آہنگ ہوکر سائیڈ ٹیبل کو معطر کیے رکھتی ہیں۔ کمرہ مہکتا رہتا ہے اور اس خوشبو کی جسے لت لگ جائے وہ اپنی دنیا بسا لیتا ہے۔ خوابوں کی دنیا۔۔۔جس میں رنگ ہیں،خوشبو ہے،جگنو ہیں تتلیاں ہیں ۔کتاب ایک گھر ہے اور لفظ اس گھر میں جابجا لگے آئینے۔کہانی در کہانی چلنے والا یہ سلسلہ عمر گزارنے کو کافی ہے۔
Naeem ur Rehman (Karachi)
’’چاند کو گل کریں توہم جانیں‘‘ کئی ادوارپرمحیط اورکئی تہذیبوںکے حالات وواقعات سے سیراب ہے اوربہت سے ایسے لوگوں کی بھرپور زندگیوںکی کہانیاں بیان کرتاہے جومذہب اوراختیارکے نام پہ معاشرتی تسلط پرسوال اٹھاتے ہیں اورحقِ اختلافِ رائے کے ارتقاکے علم بردارہیں۔ مصنف کایہ شانداراولین ناول ایک نعرہ آزادی بھی ہے اورجبرکے خلاف جدوجہدکی دعوت بھی۔
بک کارنرجہلم نے روایتی حسن طباعت سے آراستہ کرکے چار چاندلگادیے ہیں۔ بہترین کتابت، عمدہ بائینڈنگ، خوبصورت سرورق اور چار سو اسی صفحات کے ناول کی قیمت بارہ سوروپے بہت مناسب ہے۔ ’’چاندکوگل کریں توہم جانیں‘‘ کی اشاعت پربک کارنرجہلم، مصنف اسامہ صدیق اور مترجم عاصم بخشی مبارک باد کے حقدارہیں۔