SAB RANG KEHANIYAN (VOL: 8) سب رنگ کہانیاں (والیم 8)
PKR: 1,995/- 1,397/-
Author: SHAKEEL ADIL ZADAH KA NIGARKHANA
Editor: HASAN RAZA GONDAL
Pages: 376
ISBN: 978-969-662-578-0
Categories: WORLD FICTION IN URDU SHORT STORIES TRANSLATIONS
Publisher: BOOK CORNER
کہانیوں کے ایک کھوجی کو برمنگھم میں خیال آیا کہ 1970ء سے 1990ء کی دہائی تک شکیل عادل زادہ کی اُردو نژاد انگلیوں سے سلجھنے والی کہانیوں کی زلفیں اب اکیسویں صدی کی آغوش میں آنکھ کھولنے والے لڑکوں لڑکیوں کے شانوں پر بھی بکھرنی چاہییں۔ کھوجی تو کھوج لگا ہی لیتے ہیں۔ عشق سچا ہو تو دنیا بھی نئی مل جاتی ہے۔ یہ کہانیاں بہت نخرے والی نکلیں، پہلے تو شکیل عادل زادہ کے ناز سہے، پھر حسن رضا گوندل ان زلفوں کے اسیر ہو گئے۔ کراچی اور برمنگھم کے درمیان کتنے دشت، کتنے جنگل، کتنے نگر آباد ہیں۔ دریا، ندیاں، شاہراہیں، ان سب پر کہانیاں اپنے بال بکھرائے گھومتی رہتی ہیں۔ پیرہن بھی خود چنتی ہیں۔ آنچل کے رنگوں پر کوئی سمجھوتا نہیں، بے ذوقوں کو قریب نہیں پھٹکنے دیتیں۔ دلہنیں تیار ہو رہی ہیں۔ آرائشِ خمِ کاکل کہانیوں کی، اندیشہ ہائے دُور دراز مرتّب کے، تجوری جہلم والوں کی۔ اُردو کی فصلیں لہلہا رہی ہیں، پک رہی ہیں۔ دنیا بھر میں کہانیوں کے عشاق جھولیاں بھر بھر لے کر جا رہے ہیں۔ سب رنگ کہانیاں، تین صدیوں کی بلندئ خیال، کئی براعظموں کا ذہنی تنوع، اجنبی زبانوں کی ہم آہنگی، لوح و قلم، کی پیڈ، برقی اختلاط، بے تار رابطوں کی ایک مجسم شکل ہیں۔ نئی نسل جو حرف خوانی سے زیادہ حرف بینی میں الجھ گئی تھی، وہ پنجاب کے دو آبوں میں ہو، سندھ کے ریگ زاروں میں، بلوچستان کے دشت و صحرا میں، کے پی کے کی وادیوں میں یا سات سمندرپار اُردو کی نئی بستیوں میں، حرفِ مطبوعہ اس نسل کو پھر کتاب کے لمس کا اسیر بنا رہا ہے۔
(محمود شام)
ہم جیسے لوگوں کی اُردو ادب یا اُردو تحریروں سے کبھی واقفیت ایسی نہ رہی جیسی ہونی چاہیے تھی۔ اب آ کے کچھ چیزیں پتا چل رہی ہیں اور اسی ضمن میں یہ بھی معلوم ہوا کہ ایک سب رنگ کی دنیا ہوا کرتی تھی اور اس کے نگہبان شکیل عادل زادہ ہوتے تھے۔ دیس دیس کی کہانیوں کو اکٹھا کرنا اور پھر اُن پر ترجمے کی چھاپ ایسی لگانی کہ پڑھنے والوں کا ایک وسیع حلقہ پیدا ہو گیا جو بے تابی سے ہر شمارے کا انتظار کرتا تھا۔ اسے انگریزی میں labour of love کہتے ہیں، یہ عشق کی مزدوری تھی جو اَب بھی حسن رضا گوندل کی کاوشوں سے جاری ہے۔ کیا حیرانی کی بات ہے کہ بیٹھے برمنگھم میں ہیں اور وہاں یہ معرکہ تنہائی میں جاری کیے ہوئے ہیں۔ وہیں سے سب رنگ کی کہانیوں کو یکجا کرنے کا کٹھن کام اس دل جمعی اور خوب صورتی سے کر رہے ہیں کہ ایک خزانہ جو گم ہو سکتا تھا اُسے کتابی صورت میں چھاپ کر آئندہ وقتوں کے لیے محفوظ کر دیا ہے۔ جہلم کے شاہد برادران کو بھی داد دینی پڑتی ہے کہ ہر ایڈیشن جو نکل رہا ہے ایک شاہکار معلوم ہوتا ہے۔ اُردو زبان کے لیے یہ بہت بڑی خدمت ہے۔
(ایاز امیر)