Anwasi

ANWASI انواسی

Inside the book
ANWASI

PKR:   1,500/- 1,050/-

Author: MUHAMMAD HAFEEZ KHAN
ISBN: 978-969-662-221-5
Categories: NOVEL BOOKS ON SALE
Publisher: BOOK CORNER
★★★★★
★★★★★

قد آدم کھڑکی ہے میرے کتابوں کے کمرے کی جس میں سے ہوا، زندگی، روشنی، سبزہ، سُرخ پھولوں والا گھنا درخت اور پرندوں کی آوازیں ساتھ ہیں۔ میلہ لگا ہے۔ دو تکیے صوفے پر ڈال لیے ہیں۔ مکمل سکون ہے اور محمد حفیظ خان کا ناول ’’اَنواسی‘‘ ہے....
انواسی کون ہے؟ انواسی ایک ایسی عورت ہے جو وقت کے ہاتھوں کچلے جانے کے باوجود اپنی بقا کی جنگ اپنے کسے ہوئے کمان بدن ، منتقم دل ودماغ اور رُوح کی سفاکانہ چالوں سے لڑتی رہی۔ یہ ایک ناول نہیں ہے یہ ایک غیرمعمولی ناول جو ہر عہد میں اپنا قاری تلاش کر لے گا ۔ سنگری نام ہے مرکزی کردار کا اور یہی انواسی ہے۔ وقت کا جبر ہے۔ لگتا تھا سیدا اپنا کردار ادا کرے گا لیکن وہ محب وطن انگریز سرکار سے بر سر پیکار رہا۔ اسی بھگدڑ اور بے چین الجھی پھنسی زندگی میں ایک رات اس نے سنگری کا بدن تار و تار کر دیا اس میں بھی قصور سنگری کی ہٹ دھرم اور ضدی مزاج کے نام جاتا ہے۔ ایک کردار منگر کا ہے، لگتا ہے وہ زمانے کا ٹھکرایا ہوا ہے اور سنگری نے بھی اسے جوتی کی نوک پر رکھا اور اسی سنگری نے ایک بااثر ڈیل ڈول موٹی توند والے امام مسجد مولوی پر اپنے کمان بدن سے ایسا تیر مارا کہ وہ مرغ بسمل کی طرح اس کی رانوں کے درمیان پھڑکنے لگا اور چوبیس گھنٹے میں اس سے شادی رچائی کیونکہ سیدے کے بیج نے اس کی کوکھ ہری کر دی جسے ہر حال میں چھپانا تھا....
یہ اس دَور کی کتھا ہے جب بر صغیر میں انگریز نے زمین پر لوہا بچھانا شروع کیا جس پر کالے سٹیم انجن نے پورے خطے میں لوہے کے ڈبے کھینچ کر اسلحہ بارود اور سامان جلد سے جلد یہاں سے وہاں پہنچانا تھا.... توہمات کا عہد تھا .... جان برنٹن ایک چیف انجینئر ہے اس نے ریلوے لائین جہاں سے گزارنا تھی راستے میں ایک قدیمی قبرستان تھا جہاں سے ریلوے لائن گزرنا تھا ۔بستی والے دیوار بن گئے کہ ہم اپنے پرکھوں کی قبروں کا دفاع کریں گے ۔ ناول نگار نے اس اکھڑ پیچ جنگ کو اس طرح پینٹ کیا ہے گویا کیمرے سے عکس لیے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انگریز افسران کی باہمی مناقشت ایک دوسرے کو کچل کر اگلی سیڑھی چڑھنے میں زور آزمائی زوروں پر ہے۔ جان برنٹن کا سوتیلا بیٹا اعلیٰ افسر سے مل کر اس کے خلاف چالیں چلتا رہا۔ اس مسابقت کی دوڑ میں جونیر سٹاف سے ایک خوبصورت عورت کا جال جان برنٹن پر پھینکا گیا جس نے اپنے ریشم ایسے بدن میں جان برنٹن کو لپیٹ کر بے بس کر دیا ۔ وہ ریشم کی دلدل میں اترتا چلا گیا.... الزامات کئی نوعیت کے گھڑ لیے گئے اور اسے نوکری سے برخواست کر دیا گیا....انگریزوں نے مقامی لوگوں اور علمائے سو سے مل کر قبرستان برابر کر دیا اور ریلوے لائن گزار دی....
ابھی کہانی ندی کی طرح بہہ رہی ہے۔مولوی کے گھرانے پر کیا گزری ؟ سنگری کہاں گئی....؟ منگر کہاں گیا؟ یہ سربستہ راز ہیں جن کی کھوج میں آپ کو ’’اَنواسی‘‘پڑھنا ہے اور اُردو ادب کے عظیم ناول سے لطف اندوز ہونا ہے۔محمد حفیظ خان نے ’’اَنواسی‘‘ایسا شان دار ناول لکھا ہے جو کسی ایک صدی میں قید نہیں آنےوالےوقتوں میں بھی اس کی گونج سنائی دیتی رہے گی۔ آپ نے یہ عظیم الشان ناول نہیں پڑھا تو کیا پڑھا .... کتاب انسان کے لیے ایک روشن زندگی ہے ۔ کتاب سے پیار کیا کیجئے ۔ کتابیں بے وفا نہیں ہوتیں ....انواسی بہ خیر!
محمد حامد سراج
(چشمہ بیراج، ضلع میانوالی)


میں نے جب سے ہوش سنبھالا،ستلج کو ایسا ہی دیکھا۔ کسی ودھوا کی سیندور سے عاری اجڑی مانگ سا۔ کسی حق بخشوائی گئی ان چھوئی عورت کے دل کی طرح ویران جھلستا کلستا زندگی کے لمس سے قطعی نا آشنا۔ دامن میں حد نگاہ تک پھیلی بوند بوند کو ترستی ریت سمیٹے۔ میں آج تک ستلج کی اس ویرانی کو سندھ طاس معاہدے کا شاخسانہ ہی سمجھتی آئی۔ جس نے اس بدقسمت دریا کے حسن و شباب، سندرتا، کو ملتا کو خوب رگیدا اور اسے اس کے باکرہ پن سے محروم کر کے ’’انواسی ستلج‘‘ بنا دیا۔لیکن بھلا ہو حفیظ خان کا،جنھوں نے ’’اَنواسی‘‘ جیسا باکمال ناول لکھ کر یہ گرہ کشائی کی۔ ’’اَنواسی‘‘ داستان ہےاسی ستلج کی ریتلی دبیز تہوں میں گم ہوئے نوآبادیاتی جبر اور استحصال کے مدفن کی کھدائی کی۔ انیسویں صدی کے آخری نصف کی جب انگریز اپنا ریلوے نظام لے کر برصغیر پہنچے اور کراچی سے لاہور تک ریلوے ٹریک بچھاتے ہوئے بہاول پور کے دریائے ستلج پر ایمپریس پُل بنانے کے لیے اس دریا کی باکرہ کوکھ چیر کر لوہے کے ستون گاڑنے اور برطانوی استعمار کے ہاتھوں مقامیت برباد ہونے کا آغاز ہوا۔ ناول کی مرکزی کردار سنگری اور دریائے ستلج، دونوں کے اَنواسی پن اور ویرانی کا آغاز بھی اسی وقت ہوا جب اس کے کنارے آباد مقامی آبادی کے قدیم قبرستان کو مسمار کر کے مدت مدید سے وہاں مدفون بزرگوں اور شہدا کی گل چکی ہڈیوں کو نکالا گیا۔ درویشوں نے اجتماعی گریہ زاری کی اور آسمان کی جانب شہادت کی انگلی اٹھا کر بددعا دی:
’’برباد ہو اے ستلج کہ جس پر لوہا ڈالنے کے لیے شہدا کا مدفن اجاڑا گیا۔ برباد ہو اے ستلج کہ تیرے سبب بےگناہوں کا خون تیری گزرگاہ میں بہا۔ برباد ہو اے ستلج اس طرح کہ تو خلقت کے واسطے عذاب ثابت ہو۔ رفتہ رفتہ تیری رگوں میں بھی موت اترے، تو بھی بےآب و نشان ہو، تجھ میں کبھی ماس مچھی پیدا نہ ہو، تم پر کبھی پرندے نہ اتریں اور تو ہمیشہ زندگی کے لمس کو بھی ترسے۔‘‘
حفیظ خان، فطرت و نفسیات اور بالخصوص نسوانی نفسیات کے گوڑھے رمز شناس۔ جوان پہلوؤں کا بھی درک رکھتے ہیں جہاں تک شاید اس کے اپنے شعور کی رسائی بھی نہ ہو۔ ’’ادھ ادھورے لوک‘‘ کی تلسی، رادھی، سلمیٰ اور اب انواسی کی سنگری اس کا بین ثبوت ہیں۔
’’اَنواسی‘‘، سیدا، سنگری، منگر، ایما اور جان برنٹن جیسے خوب صورت فرضی کرداروں کے ذریعے حقیقی تاریخی تناظر میں لکھے اس ناول کو روانی بیان عمدہ اسلوب اور دل چسپ کہانی کے باعث میں نے حسب عادت ایک نشست میں ہی پڑھا۔ اس دل انگیز تحریر کے متعلق اگرچہ بہت کچھ لکھا جا سکتا ہےاور لکھا جاتا رہے گا لیکن میری محدود فکر اس ریاست، اس کے عوام اور اس کے دریا کی ویرانی دیکھ کرمصنف کے کیے ہوئے اسی سوال پر آ کر رک گئی ہے کہ کیا واقعی اس دریا، اس کی گزر گاہ اور اس علاقے کو ہمیشہ سے مظالم اور بددعاؤں کا سامنا ہے؟

ڈاکٹر عصمت درّانی
(شعبہ فارسی، اسلامیہ یونیورسٹی، بہاولپور)




دو تین دن پہلے کی بات ہے کہ فیس بک دیکھا، ایک پوسٹ نظر سے گزری:
تہلکہ مچا دینے والا اُردو ناول، اب محدود تعداد میں
ANWASI by Hafeez Khan. This week’s bestseller.
اسی پوسٹ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جون ۲۰۱۹ء میں منظر عام پر آنے والے اس نئے ناول نے اس قدر شہرت حاصل کر لی ہے کہ ایک ہی ہفتے کے مختصر سے عرصے میں اس کی پہلی اشاعت کی ۹۰ فی صد سے زائد کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں۔ یہ پڑھ کر مزید حیرت ہوئی۔ ایسا نہیں تھا کہ میں مصنف کو نہیں جانتی تھی۔مصنف سے میرا تعارف ان کے ایک اور ناول ’’ادھ ادھورے لوگ‘‘ سے ہو چکا تھا اور میں ان کی ادبی حیثیت اور اُس ناول کی پذیرائی سے بھی واقف تھی۔ پھر بھی سوچنے لگی،’’ صرف ایک ہفتہ اور اشاعتِ اوّل تقریباً ختم؟؟ ایسا کیسے اور کیوں کر ہوا؟‘‘
اسی تجسس کے ہاتھوں مزید پوسٹیں دیکھیں تو ایک اور پوسٹ پر نظر پڑی،جو غالباً مصنف یا پبلشر کی طرف سے تحریر کردہ ناول کا تعارف تھا اور کچھ یوں تھا:
’’انیسویں صدی عیسوی کے آخری نصف میں انگریز اپنا ریلوے کانظام لے کر برصغیر پہنچے اور کراچی سے لاہور تک ریلوے ٹریک بچھاتے ہوئے جب بہاول پور کے نزدیک دریائے ستلج پر ایمپریس برج بنانے لگے تو اس کہانی کا آغاز ہوا۔برطانوی استعمار نے جب مقامیت کو برباد کیا تو اس کے پردے سے سنگری جیسے کئی کردار معصوم عورت سے ’’اَنواسی‘‘ ہو گئے۔‘‘
ناول پڑھنے کا اشتیاق اور بڑھ گیا اور جب پڑھ ڈالا تو معلوم ہوا کہ ایسا کیسے اور کیوں کر ہوا؟
’’اَنواسی‘‘ درحقیقت محمد حفیظ خان کا ایک نو تصنیف ناول ہے۔ اگرچہ ناول نگار نے یہ ناول پانچ سے چھے ماہ کی انتہائی کم مدت میں تحریر کیا ہے۔لیکن اس کے ذریعے انہوں نے تاریخ کے جس اہم باب تک رسائی دی ہے،وہ قابلِ تحسین ہے۔ انہوں نے فرضی کرداروں کی معاونت سے۱۸۷۲ء اور ما بعد کے حقیقی منظر نامے سے وہ دبیز تہیں ہٹانے کی سعی کی ہے، جس کے نیچے پوشیدہ واقعات سے یقیناً بہت کم لوگ واقف ہوں گے کیوں کہ تاریخ ایسے سینکڑوں واقعات کو نو آبادیاتی جبر تلے دفن کر چکی ہے۔ لیکن مصنف نے کمال جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف اس حقیقی تناظر کے بیان پر قلم اٹھایا ہے بل کہ اسے کہانی کے تانے بانے کے ساتھ اس طرح ملا جلا کر پیش کیا ہے کہ کہانی کی سحرانگیزی سے سچائی کی تلخی اور تاریخ کی خشکی اگر پوری طرح ختم نہیں تو کسی قدر کم ضرور ہو گئی ہے۔
حقیقت کے بیان کے علاوہ بھی اس ناول میں کئی ایسے موضوعات ہیں، جو لائق توجہ ہیں، مثلاًطاقتوں اور مناصب کا بے جا استعمال، مذہبی منافرت، مشرق اور مغرب یا ان کے نمائندوں میں یکسانیت کے پہلو،مقاصد کی تکمیل کی خواہشا ت اور ان خواہشات کی حسرت میں تبدیلی، عروج سے زوال اور زوال سے عروج تک کا سفر، سیاست اور بغاوت، محبت اور نفرت، توہم پرستی، انسانی نفسیات کی لمحہ بہ لمحہ بدلتی نئی تعبیریں، کینہ، بغض، عداوت، انتقام اور اس کے علاوہ بھی اور بہت کچھ۔ لیکن ان تمام موضوعات کے بیان میں جو امر سب سے زیادہ نمایاں ہے، وہ مصنف کا قدرے غیر متعصبانہ رویہ ہے۔ چوں کہ مصنف بہ اعتبارِ پیشہ منصف ہیں اس لیے اپنی تحریروں میں بھی وہ اسی کے قائل دکھائی دیتے ہیں کہ ان کا قلم اگر ایک طرف محکوم قوم کے افراد کے پردے میں اپنے لوگوں کی خامیوں، کوتاہیوں اور کمیوں پر شاکی ہے تو دوسری طرف غیرجانب داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے حاکمِ وقت (انگریزوں) کی فہم و فراست اور یا مختلف معاملات میں ان کے مہذب ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے بخل سے کام نہیں لیتا اور یہ یقیناً بہت کم دیکھنے میں آتا ہے۔اکثر ایسے حالات میں’ اپنو ں‘ کا دفاع کرکے تمام تر ذمے داری دوسرے فریق پر ڈال دی جاتی ہے۔
جہاں تک کرداروں کا سوال ہے تو محمد حفیظ خان کا ایک مرد لکھاری ہونے کے با وصف سنگری کی صورت میں ایک مرکزی نسوانی کردار کو ناول کے باقی تمام کرداروں پر حاوی و غالب دکھانا، اگر چہ ایک نیا یا اچھوتا تو نہیں لیکن ایک جرأت مندانہ فعل ہونے کے ساتھ ساتھ اس لیے بھی لائق ِتوجہ ہے کہ یہ کردار اپنے مکالموں اور طور طریقوں کے ذریعے عورت کی نفسیات کے جن مختلف پہلو ؤں کو بیان کرتا چلا جاتا ہے، ان سے ناول کے واقعات و حالات کی بہتر تفہیم میں مدد ملتی ہے۔ جب کہ مردانہ کرداروں میں سیدے جیسے مضبوط اور روایتی کردار کے ساتھ ساتھ انجینئر جان برنٹن کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، جو نہ صرف ایک حقیقی تاریخی کردار ہے بل کہ ناول میں ’’قوتِ ارادی‘‘ اور اس کی کرشمہ سازیوں کو بروے کار لاتے ہوئے اس کردار کے ذریعے ایک شکست خوردہ آدمی کے نا مساعد حالات سے مقابلے اور اپنے (انسانی) حقوق کے حصول کے لیے لا متناہی جدو جہد کا درس بھی دیا گیا ہے۔ مغربی کرداروں کے حالات و واقعات سے مشرقی کرداروں کی مماثلت بھی ناول میں دل چسپی اور ربط پیدا کرنے کا سبب بننے کے علاوہ دونوں معاشروں میں پائی جانے والی ’اعلیٰ انسانی قدروں‘ کی موجودگی کوسمجھنے میں بھی معاون ثابت ہوتی ہے۔ جب کہ ناول میں قدم قدم پر ایک ہی ہیروئن کے مقابل اس کے ’ہیرو‘ کی مسلسل تبدیلی اور اس تبدیلی کے ساتھ ساتھ ایک مردانہ کردار کو منظر سے یک سر غائب کر کے دوسرے مردانہ کردار کو پہلے کردار سے زیادہ نمایاں اور مؤثر بنا کر پیش کرنا بھی دل چسپی کا حامل ہونے کے علاوہ قدرے مشکل امر ہے، جسے ممکن بنانے میں ناول کے مکالموں کی بر جستہ اور بر محل زبان کے علاوہ مقامی اور سرائیکی الفاظ کے قابلِ فہم استعمال نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ مزید بر آں یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ ناول کے تخلیقی تقاضوں کے پیش نظر اس میں فرضی کرداروں کی تعداد زیادہ ہے اور ناول نگار نے بھی کتاب کے آغاز ہی میں اسے فرضی کرداروں کے ذریعے حقیقی تناظر میں لکھا گیا ناول قرار دیا ہے، لیکن اگر بحیثیت مجموعی دیکھا جائے تو تمام فرضی کردار ایک سچے منظر نامے کے ساتھ اس قدر گتھم گتھا ہو چکے ہیں کہ اپنے تعامل سے حقیقی کرداروں سے کہیں زیادہ حقیقی معلوم ہوتے ہیں۔
آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ محمد حفیظ خان کا یہ ناول برصغیر کی تاریخ کے ایک انتہائی اہم، لیکن نظروں سے اوجھل باب کی روداد ہے۔ایسے افراد، جو ادب کو محض وقت گزاری یا تفریح کے حصول کا ذریعہ سمجھنے کے بجائے اپنی تاریخ، ماحول، انسانی رویوں اور نفسیات کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے کسی کتاب کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں تو انہیں یقیناً یہ ناول مایوس نہیں کرے گا کیوں کہ اس میں موجود تقریباًہر واقعہ یہ گواہی دیتا محسوس ہوتا ہے کہ ’ہاں! ایسا ہو سکتا ہے، ایسا ہوتا آیا ہے اور ایسا ہی ہوا ہو گا۔‘
ڈاکٹر بی بی امینہ
(شعبہ اُردو، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد)


پہلے مجھے اعتراف کرنے دیں کہ ناول پڑھنے تک میرا قیاس تھا کہ ’’اَنواسی‘‘ کا مطلب ہے غیر مقامی، مگر جب اس کی ہیروئن سنگری کو اس کا نیم شوہر سیدا پامال کرتا ہے اور ستلج پر ریلوے پل بنا کر وہاں سے انگریز ٹرین گزارنے کا منصوبہ بناتا ہے اور ستلج واسی اپنے دریا کی بے آبروئی پر بد دعائیں کرتا ہے تو میں نے لغت کی جگہ مصنف سے رابطہ کیا تب انہوں نے بتایا کہ جنسی اعتبار سے کھنگالی ہوئی انواسی ہوتی ہے۔ حفیظ خان بہاولپور کے ایک متمول گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں،ریڈیو پروڈیوسر رہے،سیشن جج رہے،خوبصورت اور سمارٹ انسان ہیں اس لیے خواتین کے بارے میں اتنے تیقن سے بات کرتے ہیں جو بہت بڑے ناول نگاروں کو بھی نصیب نہیں ہوتا۔ سرائیکی اور اُردو ناول، افسانہ اور ڈرامہ تواتر سے لکھا تاریخ اور تہذیب سے بھی دلچسپی ہے اس لیے ان کے اس ناول کے کئی اجزا حیرت انگیز ہیں۔ خاص طور پر آخری دو ابواب،سنگری غیر معمولی کردار ہو سکتا تھا مگر وہ بوجوہ کھنگالی گئی عورت کو لارنس آف تھلیبیا تک کی ہیروئن نہیں بننے دینا چاہتے۔ تاہم ناول کے بیان میں ڈرامائیت اور سسپنس عروج پر ہے۔ مذہبی ٹھیکیداروں سے تعاون ہی نہیں سجدہ طلبی میں انگریز حاکم کی مہارت کی نقشہ کشی قابل تعریف ہے۔
(ڈاکٹر انوار احمد)


ایک تاریخ ساز ناول جس میں خطے کی تاریخ اور انسانی نفسیات کی پیچیدگیوں کو کمال ہنروری کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔
(خالد فتح محمد)


انواسی کی ’سنگری‘ برصغیر میں صدیوں سے موجود عورت کے اس مثالی کردار میں جو رتی اور سیتا سے تشکیل ہوتا ہے ایک اہم تغیر ہے۔ عورت کے تاریخی ارتقا کو سمجھنے کے لیے سنگری ایک اہم حوالہ ہے۔ اُردو ادب میں یہ اپنی نوعیت کا اکلوتا کردار ہے۔
(منیر فیاض)


اس ناول میں تاریخ اور کہانی شیر و شکر ہیں۔ لیکن نہ تو کہانی روایتی انداز میں بیان کی گئی ہے اور نہ تاریخ۔ کردار زمینی اور حقائق ایک محقق کی جستجو کا ثمر ہیں۔ ایک اور خوبصورت تخلیق پر حفیظ خان آپ کو اور معیاری ادب کے متلاشیوں کو مبارک باد!
(ڈاکٹر اِرم سلطانہ)
( گورنمنٹ کالج جی سی یونیورسٹی، فیصل آباد)

Reviews

G

Ghazanfar Ali (Khushab)


R

Rana Arif Ali

کاش دسمبر کے اپنے سفرِ بہاول پور سے پہلے ہم نے بک کارنر جہلم کا چکر لگالیا ہوتا اور گگن بھائی سے علی اکبر ناطق کی کتابوں کے سیٹ کے ساتھ خریدا محمد حفیظ خان کا ناول “انواسی” پڑھا ہوتا تو لودھراں اور بہاول پور کے سنگم پر بنے پُل پر جب ہم سیلفی لینے کو اُترے تھے تو وہاں دوسری جانب کھڑے ایمپریس ریلوے برِج کو ہرگز نظرانداز نہ کرتے۔ریت میں منہ چھپائے اوندھے منہ لیٹے دریائے ستلج سے بھی ضرور پوچھتے کہ
“تونے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے”
ایمپریس برِج سے بھی دو دو ہاتھ کرتے کہ جان برنٹن،سنگری، سیدے اور منگر کو کن جنموں کی سزا ملی کہ یہ اور ان جیسے کتنے سینکڑوں لوگوں کی سدھروں، عزتوں اور زندگیوں کا خون اک تیرے کارن ہوگیا۔
بستی آدم واہن بھی ضرور جاتا مولوی جارُاللہ اور مولوی بخشو جیسے لوگوں سے بھی ہم کلام ہوتا کہ کیوں ان جیسے لوگوں نے انگریز سرکار کا آلہ کار بن کے اپنے ہی لوگوں کو اذیتیں پہنچائیں۔
اور سنگری کو تو شاید سیدے کے منہ چڑھنے سے بہت پہلے اپنے ساتھ بھگا لاتا۔
المیاتی ناول ہے لیکن یہ طے کرنا باقی ہے کہ یہ جان برنٹن کا المیہ ہے یا سنگری کا یا پھر خود دریائے ستلج کا۔
اور یہ بھی کہ انواسی کون ہے؟سنگری یا ستلج؟
بہت زبردست ناول۔تجسس بھری دل چسپ کہانی۔کمال منظر نگاری۔انسانوں خاص طور پر خواتین کی پیچیدہ نفسیات کی عمدہ عکاسی۔انگریز افسران اور مقامی لوگوں کی بود وباش اور طرزِ معاشرت سے مکمل آگاہی۔انگریزی،اردو اور مقامی زبان و بیان کے ساتھ پورا انصاف۔دو مختلف پلاٹ اور ان کا کامیاب باہمی ربط۔
جان برنٹن،جم،ولیم اور ایما کے کردار بھی جان دار اور ان کی کہانی بھی جان دار۔
سنگری،سیدا اور منگر کے کردار انگریز کرداروں کی بلند سطح کو نہیں پہنچ پائے۔ان کرداروں کی کہانی اور ان کی فکری سطح کے بیان میں بھی کہیں کہیں چُوک رہ گئی ہے۔
بعض واقعات پڑھتے ہوئے شہاب نامہ کی یاد بھی آتی رہی۔
جب جب جان برنٹن کی شواز کی بوتل کا ذکر ہوا یقین جانیے زبان کیا حلق تک تاثیر پہنچتی رہی 😜
ایسا عمدہ ناول تخلیق کرنے پر حفیظ خاں صاحب کو بہت مبارک


M

Muhammad Ali Ahmar (Islamabad)

سرائیکی پس منظر میں لکھے جانے والا پہلا ناول جس میں اس علاقے کی بودوباش، رہن سہن کی خوبصورت طریقے سے منظر کشی کی گئ ہے۔ وقت دکھایا گیا ہے آج سے ۱۵۰ سال پہلے کا جب گورا سرکار اپنے مقاصد کی خاطر برصغیر پاک و ہند میں ریلوے ٹریک بچھانے کے لیے کوشاں تھی۔ کہانی کا اصل ماخذ وہ قبرستان ہے جو پٹری کے راستے میں آ جاتا ہے اور گورا سرکار اس کو وہاں سے منتقل کرنا چاہتی ہے تو مقامی لوگ اپنی کمزوری و بے بسی اور تاج برطانیہ کی تمام تر ہیبت و پرشکوہ عمارت کے باوجود ان سے ٹکرا جانے کو تیار ہو جاتے ہیں
جان برنٹن، چیف ریلوے انجینئر، جو کہ برصغیر کے تقریباً تمام علاقوں میں ٹریک کامیابی سے بچھا چکا ہے اور اب چناب کے اوپر سے پل گزارنے کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ قرار دیتا ہے، کیسے محکماتی سازشوں میں (جس میں اس کا بیٹا اس کا سب سے بڑا مخالف بن کر ابھرتا ہے) گھر کر ناکام و نامراد ٹھہرتا ہے اور اپنے ہی گھر جیسے محکمے سے بےعزت کر کے نکالا جاتا ہے
سنگری، اس ناول کا ایک انتہائ اہم کردار، جو کہ اپنے خاوند کی بیوفائ کا درد اٹھاتی ہے اور اس بیوفائ کا بدلہ ۴ مردوں سے لیتی ہے۔ کیسے ایک تن تنہا چھوری ظالم سماج کے سامنے سیسہ پلائ دیوار بن کر اپنے بچے کو پالتی ہے، اور اسے پالنے کی خاطر کوئ دقیقہ فروگزاشت نہیں رکھتی پھر چاہے وہ ساٹھ سالہ مولوی سے نکاح ہو یا منگر جیسے نوجوان کے خلاف قتل کی گواہی ہو۔
سیدا، ایک بہت مضبوط کردار، جس کو بہت جلدمنظر عام سے غائب کر دیا گیا، اس کو بہت آگے تک لے جایا جا سکتا تھا۔
ناول کی زبان سادہ اور انداز دلنشین ہے کہ ہر ایک صفحہ پڑھنے کے بعد اگلے صفحے کی جستجو باقی رہتی ہے


F

Faheem Aslam (Rawalpindi)

آج کی زیر مطالعہ کتاب انواسی ، مصنف سے تعارف نہ ہونے کی وجہ سے کچھ مخمسے کا شکار تھا کہ پڑھوں یا نہ پڑھوں ، لیکن جونہی کتاب شروع کی گویا اس نے مجھے اپنی گرفت میں لے لیا، ایک خوبصورت کہانی، تسلسل، الفاظ کا چناؤ اور خوبصورت اور موقع کی مناسبت سے استعمال سب ملکر اسے ایک بہترین کتاب بنا دیتے ہیں اوپر سے بک کارنر کی ہمیشہ کی طرح طباعت اور شاعر میں کی گئی محنت نے اسے چار چاند لگا دئیے ہیں۔
ضرور وقت نکالئیے اور اس کا مطالعہ کیجئیے۔


RELATED BOOKS