Raziya Sultana

RAZIYA SULTANA رضیہ سلطانہ

Inside the book
RAZIYA SULTANA

PKR:   700/- 420/-

Author: QAISI RAMPURI
Pages: 296
ISBN: 978-969-662-408-0
Categories: HISTORY NOVEL
Publisher: BOOK CORNER

ہم نے بچپن میں اپنے نانا قیسی رامپوری کے تین ناول والدہ مرحومہ کے پاس دیکھے جن میں ’’ٹیپو شہید‘‘، ’’فردوس‘‘ اور ’’پھیکی چاندنی‘‘ تھے۔ آج تک ان کو سنبھال کر رکھا ہوا ہے اور یہ ہمارے کتب خانے کا حصہ ہیں۔ بعد میں ہم کو بقیہ ناول بھی مل گئے۔ تنقید نگاروں نے عام طور پر تاریخی ناول نگاروں کے ناولوں پر زیادہ نشتر چلائے ہیں، جب کہ قیسی صاحب نے ’’رضیہ سلطانہ‘‘ کے پیش لفظ میں یہ بات لکھ دی ہے کہ ’’تاریخی ناول لکھنے سے بہتر تو یہ ہے کہ انسان تاریخ ہی لکھے۔‘‘ تو ان تمام ناول نگاروں کے پیشِ نظر ایک ہی مقصد تھا کہ لوگوں کو پڑھنے کے لیے اچھا فکشن میسّر آئے۔ قیسی صاحب کی زندگی کو ہم چار ادوار میں دیکھتے ہیں۔ جب وہ رامپور میں پیدا ہوئے اور وہیں پلے بڑھے اور 1924ء تک وہیں رہے۔ پھر 1924ء سے 1944ء تک اجمیر میں قیام پذیر ہوئے اور وہی دَور افسانہ نگاری اور ناول نگاری میں ان کی پہچان بنا۔ پھر آخری ڈھائی تین سال دلّی میں گزارے اور 1947ء میں پاکستان ہجرت کر آئے، پاکستان میں بھی انھوں نے بہت سے ناول لکھے۔ جب ہم نے قیسی صاحب کا تیسرا افسانوی مجموعہ ’’غبار‘‘ شائع کیا تو اپنے مضمون میں یہ لکھا تھا کہ ’’آسمانِ اُردو میں کتنے ہی ستارے کتنے ہی چاند ہر دَور میں چمکتے رہے، وقت گزرتا رہا کچھ ستارے ادب کے افق پر سدا ہی چمکتے رہے، کچھ گہنا گئے، لیکن افق سے غروب نہیں ہوئے۔ کہکشاؤں کے جھرمٹ میں کتنے ہی نام ہیں۔ کن کن کو گنوائیں۔ ایم اسلم، شوکت تھانوی، رئیس احمد جعفری، نسیم حجازی،ابن انشا، ابراہیم جلیس، رفیعی اجمیری، قابل اجمیری، نہ جانے کتنے اَن گنت نام کہ جن کے فن کی قدر شناسی دنیا کرتی آئی ہے۔ اس جھرمٹ میں وقت کی تہ میں دب جانے والے بے شمار نام، لائبریریوں میں مٹی کھاتی کتابوں کی دبیز تہوں میں دبے نام، دل چاہتا ہے کہ ان لکھنے والوں کا نام ان کی کتابیں، ان کے مضامین، ان کی شاعری جھاڑ پونچھ کر نکالی جائیں اور ایک بار پھر سے شائع کی جائیں۔ ان کے نام کو، ان کے کام کو، پھر سے جلا بخشی جائے۔ قیسی رامپوری ایسا ہی ایک نام ہے جو ایک زمانے میں اُردو ناولوں میں زبردست پذیرائی حاصل کرنے والا نام تھا۔‘‘ بک کارنر جہلم کے برادران امر شاہد اور گگن شاہد کے کام کو ہم جب دیکھتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے نئے ادب کے ساتھ پُرانے ادب کو بھی جلا بخشی ہے اور کتنی ہی کتابیں دوبارہ ایسی شائع کی ہیں جو وقت کی تہ میں دب چکی تھیں۔ ان کی ادبی کاوشوں پر ہم ان کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔

عادل حسن (کراچی)

کچھ مصنف کے بارے میں:
قیسی رامپوری (پیدائش: 20 جون 1908ء - وفات: 10 فروری 1974ء)، اُردو زبان کے معروف مصنف، ناول نگار، ڈراما نویس، مترجم اور افسانہ نگار تھے۔ وہ صاحبِ اسلوب ادیب، تذکرہ نگار اور سفرنامہ نگار ملا واحدی دہلوی کے داماد تھے۔ قیسی کی جائے پیدائش رامپور ٹھہری۔ پہلے قیسی اجمیری کے نام سے بھی لکھتے رہے۔ اصل نام حامد الدین خلیل الزماں خان، والد بزرگوار کا نام محمد زمان خان، سلسلۂ نسب چونتیسویں پشت میں حضرت قیس عبدالرشید سے جاکر ملتا تھا جن کا مزار کابل میں ہے۔ پردادا کابل سے نوشہرہ آکر آباد ہوگئے تھے۔ والد نے رختِ سفر باندھا اور ریاست کوٹہ آکر آباد ہوگئے۔ اپنے قیسی ہونے کے بارے میں ایک جگہ لکھتے ہیں، ’’قیسی نہ تو میرا تخلص ہے نہ جناب قیس عامری کی لیلیٰ پرست ذات سے میرا کوئی تعلق ہے۔‘‘ فکرِ معاش سے آزاد ہوکر ادیب فاضل کا امتحان دیا، اس کے بعد منشی فاضل کا اور آخر میں انٹر کا۔ ادبی زندگی کا باقاعدہ آغاز اجمیر سے ہوا۔ رسالہ کیف میں پہلا افسانہ ’’ایثارِ مجسم‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ وہاں ان کی ملاقات رفیعی اجمیری سے ہوئی۔ کچھ عرصہ خواجہ حسن نظامی کے ہاں دہلی میں بھی قیام کیا۔ ادب میں انھوں نے ناول نگاری کے حوالے سے اپنی الگ پہچان بنائی۔ معاشرتی، سماجی اور تاریخی موضوعات پر لاتعداد ناول تحریر کیے جس کا سلسلہ تقسیمِ ہند کے بعد ان کی وفات تک جاری رہا۔ ان کے ناولوں کی تعداد 100 سے زائد ہے جن میں رضیہ سلطانہ، چاند بی بی، ٹیپو شہید، آخری فیصلہ، خیانت، نکہت، اچھے دن، عمو، انجم، اپاہج، برہنہ، بے آبرو، چوراہا، دل کی آواز، فرزانہ، حُور، ابلیس، اجالا، تیسرا راستہ، فردوس، کلیم وغیرہ زیادہ مشہور ہیں۔ تقسیمِ ہند سے پہلے اور بعد کے کچھ ادبی جرائد کی ادارت بھی کی۔ ایک تخلیق کار، مترجم اور ادیب کے طور پر قیسی نے بھرپور زندگی گزاری۔ انھوں نے اپنی تخلیقی قوت، زورِتخیل، فنی ہنرمندی اور اندازِ بیان کی سادگی و جاذبیت کے ذریعے بیسویں صدی کی وسطی دہائیوں میں اردو کے افسانوی ادب کو کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ انھوں نے تاریخ کے موضوع پر ایک کتاب ’’دوسری جنگِ عظیم کے ہولناک واقعات‘‘ بھی تحریر کی۔ ناولوں کے تراجم بھی کیے، جن میں وِلا کیدر کے ناول ’’My antonia‘‘ کا ترجمہ ’’ویران ہے دل‘‘ خاصا مقبول ہوا۔ تھامس ہارڈی کے مشہور ناول ’’Jude the obscure‘‘ کا ترجمہ کیا تو اس کا عنوان سیماب اکبری آبادی نے ’’اے بسا آرزو کہ خاک شدہ‘‘ تجویز کیا۔ پاکستان آنے کے بعد بھی قیسی کا قلم نہیں رکا بلکہ بےشمار ناول لکھتے رہے، وہ اپنے وقت میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے ناول نگار مانے جاتے تھے۔ قیسی رام پوری 10 فروری 1974ء کو بعارضہ قلب کراچی میں انتقال کر گئے۔

RELATED BOOKS