MASLA E FALASTEEN مسئلہ فلسطین
PKR: 1,200/- 840/-
Author: EDWARD SAID
Translator: SHAHID HAMEED
Pages: 400
ISBN: 978-969-662-347-2
Categories: HISTORY POLITICS BOOKS ON SALE
Publisher: BOOK CORNER
مصنّف نے اپنی کتاب میں جن بنیادی مباحث... صیہونیت کیا ہے؟ یہ کہاں سے آئی؟ یہودیوں نے اس کے فروغ کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلے؟ مغربی سیاست دانوں نے مکر و فریب کے کیا کیا جال بچھائے؟ نام نہاد لبرل دانشوروں، ناول نگاروں، شاعروں، مقالہ نویسوں، سفرناموں کے مصنفوں اور صیہونیت کے دیگر ہمدردوں نے کیسے فضا ہموار کی؟ خود صیہونیوں نے فلسطین میں آباد ہونے کے لیے کن کن جتنوں سے کام لیا اور اپنے دعاوی کو سچا ثابت کرنے کے لیے کن کن تاویلوں کا سہارا لیا؟ جب اسرائیل قائم ہو گیا تو فلسطینیوں کو کیسے ملک بدر کیا گیا؟ اور تمام تر دعووں کے باوجود انھیں آج تک کیسے درجہ دوم کے شہری بنائے رکھا گیا؟ فلسطینیوں نے تحریکِ آزادی کیسے منظم کی اور فلسطینی شاعروں، کہانی نویسوں، دوسرے ادیبوں، مصنفوں اور دانشوروں نے کیسے اس تحریک کے لیے زمین ہموار کی اور اس کی آبیاری کی؟ پی ایل او اور دوسری تحریکیں کیسے وجود میں آئیں؟ جنگ سڑسٹھ کے کیا نتائج مرتب ہوئے؟ کیمپ ڈیوڈ کے معاہدے نے کیا گُل کِھلائے؟ فلسطینیوں کے نقطۂ نظر سے فلسطین کے مسئلے کا کیا حل ممکن ہے؟ وغیرہم... کو اپنی کتاب کا موضوع بنایا ہے اور ان پر جو سیر حاصل بحث کی ہے، وہ ہمیں اس مسئلے کو اس کے صحیح تناظر میں دیکھنے میں بہت مدد دیتی ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اس مسئلے کو پہلی مرتبہ صحیح انداز سے پیش کیا گیا ہے، تو غلط نہ ہو گا۔ ایڈورڈ سعید نے اپنی یہ کتاب صیہونیت کے اصل چہرے سے نقاب سرکانے اور اس ضمن میں مغرب کے نام نہاد لبرل سیاست دانوں اور دانش وروں نے جو مکروہ کردار ادا کیا ہے، اس کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوڑنے کی غرض سے لکھی تھی۔ وہ اپنے اس مقصد میں کہاں تک کامیاب رہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صیہونیوں نے یہ کتاب ہی بازار سے غائب کرا دی، اب تو کسی خوش نصیب کو ہی دستیاب ہوتی ہے۔
شاہد حمید
ایڈورڈ سعید یروشلم میں پیدا ہوئے۔ اُنھوں نے ابتدائی اور ثانوی تعلیم بیت المقدس اور مصر کے سکولوں میں حاصل کی، پھر وہ امریکا چلے آئے۔ بی اے انھوں نے پرنسٹن یونیورسٹی میں کیا۔ ایڈورڈ سعید نے ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں اسی یونیورسٹی سے حاصل کیں۔ یہاں انھوں نے Bowdoin انعام بھی حاصل کیا۔ 1974ء میں ایڈورڈ سعید ہارورڈ یونیورسٹی میں تقابلی ادب کے مہمان پروفیسر تھے۔ 1975-76ء میں انھوں نے سٹین فورڈ یونیورسٹی کے نفسیات اور کرداری علوم کی اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں فیلو کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں۔ 1977ء میں انھوں نے پرنسٹن یونیورسٹی میں ادبی تنقید پر لیکچر دیے۔ 1979ء میں وہ ایک اور مشہور امریکی یونیورسٹی جان ہا پکنز کے شعبہ انسانیات میں مہمان پروفیسر تھے۔ بعدازاں وہ نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی میں انگریزی اور تقابلی ادب کے پروفیسر رہے۔ انھیں مشہور ناول نگار کونریڈ پر سند تسلیم کیا جاتا ہے۔ ایڈورڈ سعید کی کتب آٹھ زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہیں اور یورپ، افریقہ، ایشیا اور آسٹریلیا میں چھپ چکی ہیں۔ کولمبیا یونیورسٹی نے اپنا پہلا سالانہ ٹریلنگ (Trilling)انعام انھیں ان کی کتاب ’’Beginnings: Intention & Method‘‘ پر دیا۔ 1978ء میں امریکا کے نیشنل بک کرٹکس سرکل ایوارڈ کے شعبۂ تنقید کے مقابلے میں ان کی کتاب ’’Orientalism‘‘ دوسرے نمبر پر آئی۔ ان کی دیگر کتب میں ’’Literature and Society‘‘ اور ’’Conrad and the Fiction of Autobiography‘‘ شامل ہیں۔ محمد حسن عسکری اور فیض احمد فیض نے ایڈورڈ سعید کا ذکر اچھے الفاظ میں کیا ہے۔ خود ایڈورڈسعید نے بیروت میں فیض احمد فیض سے اپنی ملاقات کا ذکر بڑے پیار سے اپنے ایک مضمون میں کیا ہے۔ یہ مضمون انگلستان کے ایک رسالے ’’گرانٹا‘‘ میں شائع ہوا تھا۔ فلسطینیوں کا پُرزور طریقے سے مؤقف پیش کرنے کی پاداش میں صیہونی ان پر زبانی ہی نہیں بلکہ جسمانی حملے بھی کر چکے ہیں۔ ایڈورڈ سعید فلسطینی قومی کونسل کے رُکن بھی رہے۔ اُن کی وفات 25ستمبر 2003ء کو نیویارک شہر میں ہوئی۔
Reviews
Naghmana Siddique (Sahiwal)
Hafiz Muhammad Bilal (Muzaffargarh)
فلسطین کا مسئلہ جوں کا توں ہے بلکہ کچھ اور پیچیدہ ہو چکا ہے۔ فلسطین اپنے سچے عاشق سے محروم ہو چکا ہے لیکن اس کی تحریریں عرصے تک فلسطینیوں کی اور ہماری رہنمائی کرتی رہیں گی۔ آپ بھی اگر اس مسئلے کی گتھیاں کھولنا چاہتے ہیں تو ”مسئلہ فلسطین“ کو ضرور پڑھیں۔ ”بک کارنر“ کو اور اس کے گگن شاہد اور امر شاہد کو دعائیں دیں جنھوں نے صرف کاروبار نہیں کیا، علم و ادب کے چراغ بھی جلائے۔