PUR ASAR LOGON KI CHAY AADAAT پر اثر لوگوں کی چھ عادات
PKR: 600/- 360/-
Author: EDWARD DE BONO
Tag: EDWARD DE BONO
Pages: 224
ISBN: 978-969-662-266-6
Categories: CHARACTER BUILDING TRANSLATIONS BOOKS ON SALE
Publisher: BOOK CORNER
Pur Asar Logon Ki Chay Aadaat
An authorised Urdu translation of “The Six Value Medals”
by Edward De Bono
Tans. by Muhammad Hamid Rana
Jhelum: Book Corner. 2020
224p.
1. Character Building - Self Help
ISBN: 978-969-662-266-6
ایڈورڈ ڈِی بونو 19 مئی 1933ء کو مالٹا میں پیدا ہوئے۔ وہ ہمارے عہد کے مقبول ترین مصنّفین میں سے ایک ہیں۔ طب کے ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ PHD اور MD ہیں۔ وہ ماہرِنفسیات، فلسفی، موجد اور مفکر کے طور پر معروف ہیں۔ وہ ذہن کو سوچنے کی تربیت دینے میں خاص شہرت رکھتے ہیں۔ دُنیا بھر میں انہیں لیکچرز کے لیے بلایا جاتا ہے۔ ذہنِ انسانی کی مفکرانہ اور تخلیقی صلاحیتوں میں اضافے کے لیے ڈاکٹر ڈی بونو نے عملی اور سادہ طریقے دریافت کیے ہیں۔ ان کی کتابیں دُنیا بھر میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتابوں (Best Sellers) میں شامل ہیں۔ بونو کو سب سے زیادہ مقبولیت ان کی کتاب "Six Thinking Hats" سے ملی جس کا ترجمہ ’’سوچ کے نرالے ڈھنگ‘‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ اپنی اس کتاب "The Six Value Medals"میں انہوں نے ایسا طریقہ دیا ہے جس سے ہم اشیا اور مظاہر کی تمام اقدار (Values) سے آگاہ ہو سکتے ہیں۔ اسی لیے اُردو قالب میں منتقل کرتے ہوئے اس کتاب کا نام ’’پُراثر لوگوں کی سات عادات‘‘ رکھا گیا ہے اور ان چھ تمغوں (Six Medals)کو آسان پیرائے میں سمجھایا ہے کہ کامیاب اور پُراثر لوگ کیسے چیزوں کو ان کی حقیقی قدر و قیمت کے مطابق اہمیت دیتے ہیں۔ ڈاکٹر ڈی بونو کا خیال ہے کہ سوچنے کا عمل ایک مہارت کے طور پر سیکھا اور سکھایا جا سکتا ہے۔ وہ اس خیال کے بھی حامی ہیں کہ ’’سوچ کے ڈھنگ‘‘ بطورِمضمون سکولوں میں پڑھایا جائے۔ سوچنے کی سرگرمی کو منظم و منضبط کر کے سائنسی خطوط پر استوار کرنے میں ڈاکٹر ڈی بونو کا کام اساسی نوعیت کا ہے۔ انہیں اس اہم کام کی وجہ سے دُنیابھر میں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ ڈاکٹر ڈی بونو نومبر 2003ء میں دو روزہ دورے پر پاکستان بھی آ چکے ہیں۔
پیش لفظ
زندگی میں ہمارا واسطہ کئی طرح کی اشیا سے پڑتا ہے۔ اِسی طرح کوئی فیصلہ کرتے وقت کئی اقسام کے مختلف نکات ہمارے سامنے ہوتے ہیں۔ اِن اشیا یا نکات کی قدر و قیمت (Value) ایک جیسی یا ایک جتنی نہیں ہوتی۔ پھر یہ قدر و قیمت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کم یا زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔ عام طور پر ہم اشیا اور نکات کو تو پیشِ نظر رکھ لیتے ہیں لیکن ہر شے یا نکتے کی الگ الگ قدر (Value) کو مدِّنظر نہیں رکھ پاتے۔ اسی لیے ڈاکٹر ایڈورڈ ڈی بونو نے اپنی کتاب "The Six Value Medals"میں ایسا طریقہ دیا ہے جس سے ہم اشیا اور مظاہر کی تمام اقدار (Values) سے آگاہ ہو سکتے ہیں۔
ایک مثال پر غور کریں !
ایک بےروزگار نوجوان شخص کو کسی دُور دراز شہر میں نوکری ملتی ہے۔ اُسے یہ نوکری طویل انتظار کے بعد ملی ہے۔ ظاہر ہے اس نوجوان کے لیے نوکری کی قدر (Value) بہت زیادہ ہے، لہٰذا غالب امکان ہے کہ وہ گھر چھوڑ کر دُور دراز کے شہر میں جاکر نوکری جائن کر لے گا۔ دوسری طرف ایک ادھیڑ عمر شخص ہے جس کے بچے جوان ہو رہے ہیں، اُس کا گھر میں رہنا خاندان کے لیے مفید ہے۔ وہ اپنے شہر میں رہ کر نوکری کرنا پسند کرے گا تاکہ شام کو بچوں اور بیوی کے پاس گھر آ سکے۔ ظاہر ہے اس کے نزدیک گھر میں رہنے کی ویلیو، نوکری سے بڑھ کر ہے۔ اب اگر یہی شخص گھر کے اخراجات پورے نہ کر پا رہا ہو تو وہ دُور دراز بھی نوکری کرنے کو تیار ہو جائے گا۔ اس صورت میں گھر کے اخراجات کے لیے کمانا، بچوں کے پاس رہنے سے زیادہ قدر کا حامل ہو گا۔ اس صورت میں اس کی Value Judgement مختلف ہوگی۔ دراصل ہر شخص مختلف قدروں (Values) کو اپنے حساب سے دیکھتا ہے۔
ایک اور مثال دیکھیں!
کسی ہائوسنگ سوسائٹی میں اگر ایک بہت بڑا دیدہ زیب فوارہ نصب کر دیا جائے اور ایک جھیل بنادی جائے تو ان چیزوں کے اضافے سے پوری کالونی کی Value بڑھ جائے گی۔ مکینوں کو تفریح کے شاندار مواقع ملیں گے، ساتھ ہی ساتھ کالونی کے مکانوں کی قیمتیں بڑھ جائیں گی۔ اس عمل کو اصطلاح میں Value Addition کہتے ہیں۔
ایڈورڈ ڈی بونو نے ہمیں مختلف اشیا، مظاہر، فیصلوں اور منصوبوں کے اقداری جائزے سے آگاہ کیا ہے تاکہ ہم مختلف طرح کے فوائد اور اہمیتوں سے آگاہ ہوکر چیزوں کی صحیح قدروقیمت (Value) جان سکیں۔ کئی بار ہم کسی ایک پہلو کو ضرورت سے زیادہ قدروقیمت دے بیٹھتے ہیں، حالاںکہ وہ پہلو اہم ہونے کے باوجود اتنی زیادہ قدر و قیمت کا اہل نہیں ہوتا۔ اس ’’غلط بخشی‘‘ سے ہمیں نقصان بھی ہو سکتا ہے۔
ایڈورڈ ڈی بونو نے مختلف اقسام کی اقدار (Values) کے لیے الگ الگ میٹریل (Material) سے بنے میڈلز (Medals) کی علامتیں استعمال کی ہیں۔ اس سے اقداری پیمانے سمجھنے سے بہت مدد ملتی ہے۔ مثلاً سونے کا تمغا (Gold Medal) اعلیٰ انسانی قدروں کے لیے اور چاندی کا تمغا تنظیمی و ادارہ جاتی امور میں روپے پیسے سے متعلق ہے۔ ظاہر ہے آمدن اور منافع کے بغیر بھی ادارے اور زندگی نہیں چلتی۔ دیگر میڈلز (تمغے) بھی اسی طرح دوسری اقدار کی علامتیں ہیں۔
میں نے اِس کتاب پر نظر ثانی کی ہے۔ بعض جگہوں پر ترجمے کو سہل، رواں اور واضح کرنے کی خاطر تبدیلیاں بھی کیں۔ میں نے اس کتاب کو بےحد مفید پایا۔ دراصل ترجمے کا کام بہت اہمیت کا حامل ہے۔ یہ کام ایک تہذیب کی علمی ترقی دوسری تہذیب تک پہنچانے کا سبب بنتا ہے۔ اُردو کے قارئین کا بھی حق ہے دوسرے ملکوں کی جدید علمی و سماجی ترقی سے فائدہ اٹھائیں۔
اسی لیے اُردو قالب میں منتقل کرتے ہوئے اس کتاب کا نام ’’پُراثر لوگوں کی سات عادات‘‘ رکھا گیا ہے اور ان چھ تمغوں (Six Medals)کو آسان پیرائے میں سمجھایا ہے کہ کامیاب اور پُراثر لوگ کیسے چیزوں کو ان کی حقیقی قدر و قیمت کے مطابق اہمیت دیتے ہیں۔
ڈاکٹر ایڈورڈ ڈی بونو نے ذہنی استعداد بڑھانے کے طریقوں کے ساتھ ساتھ تنظیمی صلاحیتوں میں اضافے اور فیصلہ سازی کو آسان کرنے میں خاطر خواہ کام کیا ہے۔ ترجمہ نگار محمدحامدرانا نے یہ ترجمہ خوبی اور مہارت سے کیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ قارئین اس کتاب سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں اور اپنے کاروباری، سماجی، ذاتی منصوبوں میں اقدار کی اہمیت کے مطابق فیصلے کر سکتے ہیں۔ میں نے خود بھی ڈی بونو کی ایک کتاب "Six Thinking Hats"کا اُردو ترجمہ ’’سوچ کے نرالے ڈھنگ‘‘ کے عنوان پر کیا ہے جسے ’’بک کارنر‘‘ نے بہت خوبصورتی سے شائع کیا ہے۔ اس بنا پر بلاخوفِ تردید یہ کہہ سکتا ہوں کہ ڈی بونو کا کام اساسی نوعیت کا ہے اور اس سے دُنیا بھر میں فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔
زیرِ نظر کتاب میں مصنّف نے جابجا مفید مثالیں دیں تاکہ بات سمجھ میں آسکے۔ میں قارئین سے التماس کرتا ہوں کہ کتاب کو غور سے پڑھیں اور اپنی زندگیوں میں اقداری جائزے (Value Assessment) کو شامل کریں۔ اس سے ہر چیز اپنی درُست افادیت کے ساتھ ہمارے سامنے آئے گی۔ میں کتاب کے مترجم برادرم محمد حامد رانا کے ساتھ ساتھ ادارہ بک کارنر کی بھی تحسین کرتا ہوں کہ انھوں نے یہ علمی کام سر انجام دیا۔
ادارہ بک کارنر (جہلم) کے امر شاہد اور گگن شاہد علمی خزانوں کی طباعت و اشاعت کا ایک خاص سلیقہ رکھتے ہیں۔ دوسری زبانوں کی مفید اور اہم علمی و ادبی کتابوں کا اُردو ترجمہ شائع کرنے میں بھی اس ادارے کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ میں دُعا کرتا ہوں کہ اس طرح علم و ادب کے متوالوں کے لیے معیاری اور خوش نما کتابوں کی اشاعت ہوتی رہے۔ بک کارنر، امر شاہد، گگن شاہد اور محمد حامد رانا کے لیے حرفِ تحسین پیش کرتا ہوں۔
میجر (ر) شہزاد نیر