YADON KI DUNIA یادوں کی دنیا
YADON KI DUNIA یادوں کی دنیا
PKR: 1,500/- 1,050/-
ڈاکٹر یوسف حسین خاں (۱۹۰۲- ۱۹۷۹ء) کا شمار برصغیر پاک و ہند کے نامور مورّخ، ماہرِ تعلیم، دانشور، نقّاد اور ادیب کے طور پر ہوتا ہے۔ بطور ماہرِ لسانیات اُن کو عربی، انگریزی، فرانسیسی، فارسی اور اُردو زبانوں پر کامل عبور تھا۔ ان کے چھ بھائیوں میں ڈاکٹر ذاکر حسین خاں مسلم علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر، صوبہ بہار کے گورنر اور بعدازاں انڈیا کے صدرِ جمہوریہ (۱۹۶۷- ۱۹۶۹ء) رہے۔ ایک بھائی ڈاکٹر محمود حسین خاں، جو تحریکِ پاکستان میں شامل ہو گئے تھے اور بعدازاں پاکستان منتقل ہو گئے، کراچی اور ڈھاکہ کی یونیورسٹیوں میں بطور وائس چانسلر خدمات سرانجام دیتے رہے۔ اس کے علاوہ حکومتِ پاکستان میں وزارتِ دفاع اور وزارتِ تعلیم کے قلمدان بھی ان کے سپرد رہے۔ یوسف حسین خاں کی ’’یادوں کی دُنیا‘‘ کا شمار اُردو آپ بیتی اور خودنوشت نگاری کے میدان میں ایک جامع اور وقیع تحریر کے طور پر کیا جاتا ہے اور اِسے بجاطور پر دس منتخب جدید خودنوشتوں کی فہرست میں جگہ دی جاتی ہے۔ ایک مؤرّخ ہونے کے ناطے انہوں نے اپنے واقعات کا اور شخصیات کا ایک جامع مگر کڑا انتخاب کیا ہے اور بہرحال گفتنی اور ناگفتنی کا اپنے نقطۂ نظر سے بخوبی لحاظ رکھا ہے۔ یوسف حسین خاں نے ایک ایسے عہد میں جنم لیا جو برصغیر کے مسلمانوں میں سیاسی، تہذیبی اور تعلیمی لحاظ سے کھوئی ہوئی عظمت دوبارہ حاصل کرنے کی کوششوں اور آزادی کی تحریک کا زمانہ تھا۔ ڈاکٹر یوسف حسین خاں نے ’’یادوں کی دنیا‘‘ میں زبان و بیان کی آسانی اور شگفتگی کا دامن نہیں چھوڑا اور کئی واقعات کو کہانیوں اور افسانوں کے انداز میں بیان کیا ہے مگر محتاط اور شائستہ پیرائے میں۔ اس طرح انہوں نے ’’یادوں کی دنیا‘‘ کو جوش ملیح آبادی کی ’’یادوں کی برات‘‘ بنانے سے حتی الوسع شعوری احتراز کیا ہے، جو حضرت جوش جیسے جرأتِ رندانہ و بے باکانہ کے حامل شاعر کے سامنے ایک ماہرِ تعلیم اور مورّخ کے انداز کی غمازی کرتا ہے۔ مصنف داخلی جذبات کو اتنا کھل کر بیان نہیں کر سکے اور ’’کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے‘‘ کی درمیانی کیفیت کو برقرار رکھا ہے اور اسے قاری کے تخیل پر چھوڑ دیا ہے۔ اس اعتبار سے ’’یادوں کی دنیا‘‘ ایک تاریخ بھی ہے، سوانح عمری بھی اور زندگی کی داستان بھی۔ یہ خود نوشت بلاشبہ اُردو ادب کی منتخب خودنوشتوں میں شمار کیے جانے کے قابل ہے۔
(ظفر حسن رضا)