YADON KA JASHAN (2ND EDITION) یادوں کا جشن
PKR: 2,000/- 1,400/-
Author: KUNWAR MOHINDER SINGH BEDI SAHAR
Tag: 4985
Pages: 526
ISBN: 978-969-662-083-9
Categories: URDU LITERATURE AUTOBIOGRAPHY MEMOIRS
Publisher: BOOK CORNER
کچھ لوگ بڑے گھر میں پیدا ہوتے ہیں، کچھ اپنی کوشش اور کاوش سے بڑے بنتے ہیں۔ کنور صاحب بڑے گھر میں پیدا ضرور ہوئے مگر وہ اپنی ذاتی صلاحیتوں سے بڑے آدمی بنے۔ لوگوں نے انھیں بڑا آدمی نہیں بنایا بلکہ ان کے بڑا ہونے کا ہمیشہ اعتراف کیا ہے۔ کنورصاحب دہلی کی تہذیبی زندگی کی جان تھے، وہ شاعر بھی تھے اور شاعر گر بھی اور اپنی ادب نوازی اور شاعر نوازی کے لیے مشہور تھے۔ کنور صاحب ایسے خاندان کے چشم و چراغ تھے جن کا سکھوں کی اور پنجاب کی تاریخ میں بہت نمایاں اور اہم رول رہا ہے۔ انھوں نے چوٹی کی تعلیم گاہوں میں تعلیم حاصل کی اور پھر عمر بھر صوبائی اور مرکزی حکومتوں کی ملازمت میں بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے۔ انھیں ملازمت کے دوران اور اس سے سبکدوش ہونے کے بعد بھی ہندوستان و پاکستان کی متعدد برگزیدہ اور صفِ اوّل کی شخصیتوں سے ملاقاتیں اور اُن سے قریبی تعلقات کا اتفاق ہوا۔ وہ رِندوں میں رِند، شاعروں میں شاعر، امیروں میں امیر، صوفیوں میں صوفی تھے۔ بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جنھوں نے ایسی بھرپور زندگی کو ایسے انداز میں بسر کیا ہو گا۔ یہ ایک شخص کی داستانِ حیات ہے۔ جس نے بالکل سچ بولا ہے۔ ’’یادوں کا جشن‘‘ کے متعدد ایڈیشن کنور مہندر سنگھ بیدی لٹریری ٹرسٹ شائع کر چکا ہے۔ بیدی صاحب کی مقبولیت پہلے بھی تھی اور اَب بھی ہے بلکہ کہنے دیجیے پہلے سے بڑھ گئی ہے۔ چند ماہ کے اندر ہی ان کے قدر دانوں میں تمام کتابیں فروخت ہو گئیں۔ اب اس کا نیا ایڈیشن شائع کرنے کی سعادت جناب امرشاہد صاحب مالک بُک کارنر جہلم کے حصے میں آئی ہے۔ وہ پاکستان میں ’’یادوں کا جشن‘‘ کا نیا ایڈیشن شائع کر رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ ایڈیشن ہندوستان کی طرح پاکستان میں بھی مقبول ہو گا کیونکہ بیدی صاحب کے چاہنے والوں کی پاکستان میں کمی نہیں ہے۔
کے۔ ایل۔ نارنگ ساقیؔ
’’یادوں کا جشن‘‘ کنور مہندر سنگھ بیدی کی نہایت دلچسپ خودنوشت سوانح عمری ہے۔ اس کا پہلا ایڈیشن1986ء میں جشن کنور مہندر سنگھ بیدی کمیٹی کی جانب سے شائع ہوا تھا اور اس کی رسمِ اجرا صدرِ ہند گیانی ذیل سنگھ نے راشٹرپتی بھون کی ایک یادگار تقریب میں انجام دی تھی اور اس تقریب کے داعی اور مہتمم کنور صاحب کے مخلص دوست جناب کے ایل نارنگ ساقی صاحب تھے۔ انہی کی سعیٔ پیہم سے اب اس کا نیا ایڈیشن سامنے آ رہا ہے جو اس کی مقبولیت کا کھلا ہوا ثبوت ہے۔ زیرِنظر کتاب صحیح معنوں میں یادوں کا جشن ہے۔ تخیلی یادوں کا نہیں، واقعاتی یادوں کا، جن سے بیدی صاحب کی رنگا رنگ شخصیت عبارت تھی۔ وہ ہر سطح پر زندگی کرنے کا ہنر جانتے تھے۔ اُن کا سلسلۂ نسب براہِ راست سکھ دھرم کے بانی، بابا گورونانک دیو سے ملتا ہے۔ زیرِنظر کتاب میں خاندانی بزرگوں، لڑکپن، ملازمت، تقریروں، مشاعروں، شکاروں، زمیں داروں، دوستیوں سب کا تذکرہ ہے اور اندازِ بیان میں لطائف و ظرائف کی چاشنی بھی ہے۔ ہر جگہ بیدی صاحب کی شخصیت صاف شفاف دکھائی دیتی ہے۔ بے لوث، بے ریا، انسانیت کا ادا شناس، خوش مذاق، خوش باش انسان جو خوش وقتی کو زندگی کا سب سے بڑا انعام سمجھتا تھا اور دوسروں کے لیے بھی اس انعام کو ارزانی رکھتا تھا۔ ’’یادوں کا جشن‘‘ اُردو کے ایک عاشقِ صادق اور بھرپور انسان کی زندگی کی دستاویز ہے۔ جس میں بیدی صاحب کی نکتہ رَسی اور داستاں سرائی نے ہمارے عہد کے بہت سے اہم واقعات کو محفوظ کر دیا ہے۔ اُمید ہے کہ کے ایل نارنگ ساقی کی بے غرض کوشش اور سحرؔصاحب سے عقیدت مندانہ جذبے کو سراہا جائے گا اور اس کتاب کے نئے ایڈیشن کی بھی پذیرائی کی جائے گی۔
پروفیسر گوپی چندنارنگ
جس شخص پر خدا اِتنا مہربان ہو کہ وہ اپنی تمام عُمر زندگی کو جشن کی مانند مناتے ہوئے گزار دے، دن بیت جانے پر اس کی مُندی مُندی آنکھوں میں شفق کے رنگوں کی دُھوم سی مچی ہوتی ہے۔ کنورمہندرسنگھ بیدی سحرؔ اپنی کتاب ’’یادوں کا جشن‘‘ کے راستے قاری کو بڑی پُروقار انکساری سے رنگوں کی اس دُھوم دھام میں لا اُتارتے ہیں اور کسی نہایت مشفق میزبان کی طرح اس کی آسائش اور شادکامی کے لیے کوئی دقیقہ فرو نہیں کرتے۔
جوگندرپال
بیدی صاحب اُردو ادب کی اُن چند شخصیتوں میں ہیں جنھوں نے بڑی بھری پُری زندگی گزاری ہے۔ انھوں نے زندگی کے رنگا رنگ شگوفوں سے بھونرے کی طرح رس پیا ہے اور اس رس کو صحت بخش شہد میں ڈھال کر دوسروں کو بخش دیا ہے۔ جن حضرات کی نظر سے اُن کی آپ بیتی ’’یادوں کا جشن‘‘ گزری ہے اُن سے یہ حقیقت پوشیدہ نہیں کہ زندگی کے ہر مشغلے اور ہر تجربے کی لذتوں سے کسی جھجک کے بغیر انھوں نے کام و دہن کو شاد کام کیا ہے۔ انھوں نے اپنے تجربوں سے زندگی کا عرفان اور دُوسروں کے تجربوں سے عبرت حاصل کی ہے۔
پروفیسر قمررئیس
کنور صاحب کو اکثر اہل اُردو شاعر کی حیثیت سے جانتے ہیں لیکن کنورصاحب کو شگفتہ، سلیس اور دل کش و دلآویز نثر لکھنے پر جو قدرت حاصل ہے وہ بہت کم لوگوں کو ہوتی ہے۔ اس کا ثبوت ان کی خودنوشت سوانح عمری ’’یادوں کا جشن‘‘ ہے۔ اس سوانح میں ہندوستان اور خاص طور سے دلّی کی ادبی، سماجی اور سیاسی زندگی پر بہت خوبصورت انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے۔
ڈاکٹرخلیق انجم
’’یادوں کا جشن‘‘ ایک اعلیٰ عہدےدار، ایک ادیب، ایک باغ و بہار شخصیت کے ایسے تاثرات ہیں جس سے مشترکہ تہذیب کی جھلک ملتی ہے۔ اگرچہ یہ تہذیب اب کمزور ہو رہی ہے مگر کتاب بتلاتی ہے کہ اس تہذیب کی بقا کے لیے کنور صاحب نے اپنا تن من دھن سب کچھ لگا دیا ہے اور اُردو کے کاز کو بڑی تقویت بخشی ہے۔
عابدعلی خاں
’’یادوں کا جشن‘‘ میں بیدی صاحب کی ہمہ گیر پہلودار اور پُرکشش شخصیت اپنی پوری شان اور آب و تاب کے ساتھ اُبھر کر سامنے آتی ہے۔ رئیس زادہ، غریب نواز، شاعر، ادیب نواز، افسر، عوام پسند، ماہر شکاری، جانوروں کا عاشق، اکھاڑے کا پہلوان، نفاست کا دلدادہ، پکا سکھ، تعصب سے پاک، ماہر انتظامیہ، سُوجھ بُوجھ اور حکمتِ عملی کا حامل … کتنی ہی صورتیں ہیں کہ عیاں ہو گئیں!!
نریندر لوتھڑ