Ghalib - A Novel

GHALIB - A NOVEL غالب ۔ ناول

GHALIB - A NOVEL

PKR:   700/- 490/-

Author: QAZI ABDUL SATTAR
Pages: 184
ISBN: 978-969-662-341-0
Categories: URDU LITERATURE GHALIBIYAT NOVEL URDU CLASSICS
Publisher: BOOK CORNER
★★★★★
★★★★★

اللہ بھلا کرے شکیل عادل زادہ صاحب کا جن کی معرفت قاضی عبدالستار کی کہانیاں ’’سب رنگ‘‘ میں پڑھنا شروع کیں اور پھر یاد پڑتا ہے ہر دفعہ ’’سب رنگ‘‘ کے شمارے میں قارئین بٹھل کے لاڈلے بابر زمان کو بازی گر میں تلاش کرنے کی کوشش کرتے جبکہ میری کوشش ہوتی کہ فہرست میں دیکھوں قاضی عبدالستار اور ابوالفضل صدیقی کی کہانیاں شامل ہیں یا نہیں۔ ان دونوں بڑے ادیبوں کی زبان وبیان اور کہانی پر جو گرفت ہے وہ آپ کو اور کہیں نہیں ملتی۔ میرے بک کارنر سے تعارف کی وجہ ہی قاضی عبدالستار تھے، جب فیس بک پر بک کارنر جہلم کو ان کی کتابوں کا آرڈر کیا تھا۔ یہ شاید 2012ء کی بات ہے اور کتابیں اسی وقت منگوا لی تھیں۔ اب قاضی عبدالستار کا غالب پر ناول دیکھا تو لگا اس سے بہتر کیا لکھا جائے گا۔ قاضی عبدالستار کا جادو یہاں بھی سرچڑھ کر بول رہا ہے۔ قاضی عبدالستار نے ہر کہانی میں قلم اور قارئین کے ساتھ انصاف کیا ہے.... یا یوں کہیں، غالب کے ساتھ انصاف تین لوگوں نے ہی کیا ہے ۔قاضی عبدالستار نے ناول لکھ کر کیا ہے تو گلزارؔ نے غالب پر فلم/سیزن بنا کر اور نصیرالدین شاہ نے غالب کا کردار ادا کر کے.... غالب بھی ان سب کو دُعائیں دیتے ہوں گے۔ ویسے سوچتا ہوں غالب کو اجڑی دلّی میں اگر بک کارنر جہلم جیسا کوئی پبلشر یا گلزار جیسا فلم میکر، قاضی عبدالستار جیسا ان پر لکھنے والا ادیب اور نصیرالدین شاہ جیسا اداکار دستیاب ہو جاتا تو یقین کریں شاید انہیں انگریزسرکار کو اپنی پنشن کے لیے سینکڑوں خطوط نہ لکھنے پڑتے، نہ قانونی جنگ لڑنا پڑتی اور نہ ہی قرض خوروں کی وجہ سے گھر میں چھپ کر رہنا پڑتا اور نہ ہی کسمپرسی کی حالت میں اس دُنیا سے یہ اُداس گیت گاتے رُخصت ہوتے....

ہوئے مر کے ہم جو رُسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا
نہ کبھی جنازہ اُٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا

پھر سوچتا ہوں اگر یہ سب لوگ غالب کو اس وقت دلّی میں میسّر ہوتے تو پھر ہمیں آج لیجنڈ غالب کہاں ملتا....!

رؤف کلاسرا

Reviews

Q

Qaisra Shafqat (Islamabad)

قاضی عبدالستار کا “غالب”
کہتے ہیں ۰۰۰ غالب مغل تہذیب کا فرزندِ جلیل ہے- منٹو نے ایک ڈومنی کو مرزا صاحب کے کندھے پر سوار کردیا -جسے قاضی صاحب غالب پر بُہتان سمجھتے ہیں-
لیکن جتنی گرلز فرینڈز غالب کی تھیں اُس میں غالب اپنی مثال آپ ہیں۰۰۰۰
گو میں رہا رہینِ ستم ہائے روزگار
لیکن تیرے خیال سے غافل نہیں رہا
قاضی عبدالستار صاحب کی نثر پر کوئی مجھ جیسی کچی ادیبہ لکھے ، تو کہ دیں سورج کو چراغ دکھانا ہے-
پر قاضی صاحب پر کوئی کلاسرہ صاحب میرے اُستادِ محترم جیسا پُختہ کار ادیب ، مصنف ، صحافی ، ، تجزیہ نگار و ولاگرز لکھے اُب کی شخصیت جیسا مُثبت اور جامع تبصرہ ہوگا-
اور جس کی فرمائش بھی کون کرے شکیل عادل زادہ تو بلامبالغہ کتاب چندے آفتاب و چندے ماہتاب ہوگی -
اگر میں یُوں شروع کروں کہ قاضی عبدالستار صاحب نے آغازِ کتاب میں شاہجہانی مسجد کے میناروں کو دُعا کی طرح پھیلائے ہاتھوں سے تشبیہ دی ہے اور ساتھ میں کہ دیا ہے کہ وہ دُعا جس پر قبولیت کے تمام دروازے بند ہو چُکے تھے-
پھر اُجڑی ہوئی دلی اور لیر ولیر غالب ، برباد معاشرہ ، جھوٹا بادشاہ ، جھوٹے تختِ طاؤس سے لے کر رنگون جانے والے ظلِ الہی کی اُن گھڑیوں جب وہ چاندنی چوک سے وداع ہوا اور جو اخلاقی زوال و پستی برِ صغیر کے لوگوں میں در آئی وہ سب مناظر لکھ کر کتاب میں قید کرلئے!
اور میں سوچتی ہوں کہ گر آج بھی بہادر شاہ زینت محل سمیت اور غالب اپنی اُمراؤ بیگم(وہ نہیں مانیں گی )تُرک بیگم اور چُغتائی بیگم کے جلو میں گر 2021 کے جُون
ااسلام آباد میں آنمودار ہوں تو پھر بھی اُسے یہاں حکیم آغا جان عیش جیسے مُخبر،
منشی مہرالسلام اور چودھری چمن جیسے غداروں کی کمی محسوس نا ہوگی -
یہ کتاب مجھے غالب سے زیادہ روتی بلبلاتی اور سسکتی ہوئی دلی کی داستاں زیادہ لگی-
دلی کی یہ آپ بیتی پر لگا کہ اپنے اجداد کی بدمستیوں کا خمیازہ نا صرف اُس نسل نے بھگتا
بلکہ ابھی تک کفارہ ادا نہیں ہو پا رہا-
یہ پڑھنے لائق کتاب ہے- پر اب داڑھی والا زیرِ مطالعہ ہے -
دیکھیں کیا گُل کھلاتا ہے!


RELATED BOOKS