Justuju Guftugu

JUSTUJU GUFTUGU جستجو گفتگو

Inside the book
JUSTUJU GUFTUGU

PKR:   800/- 560/-

Author: MUHAMMAD HAMEED SHAHID
Pages: 280
ISBN: 978-969-662-272-7
Categories: URDU LITERATURE TANQEED
Publisher: BOOK CORNER

آپ کچھ سوالات لے کرآئے ہیں اور ایک‘‘زوردار’’مکالمے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ مکالمہ زوردار ہوگا یا نہیں، میں نہیں جانتا، تاہم اتنا جانتا ہوں کہ ادیب جس کائنات میں رہتا ہے ، اُسے قدم قدم پر حیرت سے دیکھتا ہے۔ دیکھتا ہے اور چونکتا ہے۔ اس سے اُلجھتا ہے اور اپنے باطن میں ایک اُبال کو اُٹھنے دیتا ہے تو اس کا سبب یہ ہے کہ یہی باطنی ردعمل اس کے ہاں تخلیقی عمل کو مہمیز لگاتا ہے،بالکل یوں جیسے کوئی سوار اپنی ایڑی کے کانٹے سے گھوڑے کو ایڑ دیتا ہے۔ اب اگر کوئی شخص ایسے میں اس ساری تندی اور تانت کو،جس نے اس کے باطن میں معجزہ دِکھانا تھا، اسے ہی اپنے خارج میں برت بھگت لیتا ہے اورمشتعل ہوکر شدید ردعمل کا اظہار کر دیتا ہے،تو یہ استفراغی عمل اس کے باطن میں موجودتخلیقی عمل کے رواں ہونے کے امکانات کو تلف کر دیتا ہے۔
صاحب!رہا میرا معاملہ تویوں ہے کہ میری محبوب صنف افسانے نے مجھے یہ سکھایا ہے کہ میں اپنی بات کو، اپنے رد عمل کو، اپنے غصے کو اپنے اندر روک لوں، سہار لوں ، اوراسے ایک کیمیائی عمل سے گزرنے دوں۔
فکشن لکھنے والے جانتے ہیں کہ محض اور صرف واقعہ لکھتے چلے جانے سے فکشن کا بیانیہ نہیں بنتا، لکھتے ہوئے اس صورت حال، اس کردار، اس منظر اور اس فضا میں پوری طرح اترنا ہوتا ہے؛ یوں کہ سب کچھ لکھنے والے کے اپنے وجود پر بیتنے لگتا ہے۔ اپنے مشاہدے،تجربے اور معلومات کو محض قلم کی نوک سے سیاہی کے ساتھ اُگل دینے والے یہ نہیں سمجھ سکتے کہ محض وقائع نویسی فکشن نہیں ہے۔ یہاں تو ٹھہر ٹھہر کراور رُک رُک کرلکھنا ہوتاہے؛ آوازوں کو،جذبوں اور احساس کی چھوٹی چھوٹی لہروں کو لفظوں کے اندر یا سطروں کے درمیان رکھتے ہوئے، سنبھالتے ہوئے اور سہتے ہو ئے لکھنا ہوتا ہے۔

محمد حمید شاہد
ایک گفتگو سے مقتبس


زندگی خود اتنا بڑا موضوع ہے کہ جس پر لکھنے والے لکھتے چلے آ رہے ہیں مگر تشنگی باقی رہتی ہے۔ اس تشنگی کی بقا میں ہمارے تخلیقی مزاج کی بقا ہے۔ جس روز زندگی پر لکھنے کو کچھ نہ بچا ،جانیے وہی دن ہماری تخلیقی صلاحیتیوں ، بلکہ مجھے کہنا چاہیے کہ ہماری زندگی کا آخری دِن ہوگا۔ میں سمجھتا ہوں کہ زندگی اسی تخلیقی جوہر اور اس باب کی بے پناہ تشنگی سے جڑی ہوئی ہے ۔ مجھے آپ کے سوال کے جواب میں کہنا یہ ہے کہ میرا موضوع فقط ایک ہے انسانی زندگی ، سو اسی کو لکھتا رہا ہوں مگر جتنا لکھتا ہوں تشنگی اتنی ہی بڑھتی جاتی ہے ۔

محمد حمید شاہد
ایک مکالمے سے مقتبس


ایک تخلیق کار تخلیقی عمل سے جڑے ہونے کے باعث، تنقیدی سوالات کے مقابل ہوتے ہوئے اس جانب بھی متوجہ کرلیا کرتا ہے جو بالعموم ناقدین کے ہاں کچھ زیادہ اہم نہیں ہوتے ۔ فکشن کی تنقید کا زیادہ سرمایہ ہمارے ہاں موضوعات اوراس باب کے مباحث پر مشتمل ہونے کا سبب بھی یہی ہے کہ تخلیقی عمل کے بھید سمجھنے اور اپنے قاری کو سجھانے کی اہمیت کو اس شدت سے محسوس نہیں کیا گیا جس شدت سے اس کا واسطہ ایک تخلیق کار کو اس سے پڑتا ہے۔ میں تنقید کی طرف تخلیقی عمل کو سمجھنے اور مختلف حالات کے اندر، یا پھر مختلف مزاج رکھنے والے تخلیق کاروں کے ہاں یہ کیسے کام کرتا ہے اسے سمجھنے کے لیے تنقید کی طرف آیا تھا۔ یہ ایسا بھید بھرا علاقہ ہے کہ جوں جوں آگے جاتا ہوں ایک استقبالیہ قالین کی طرح میرے سامنے کھلتا چلا جاتا ہے۔

محمد حمید شاہد
ایک مکالمے سے مقتبس

RELATED BOOKS