KALA PANI کالا پانی
PKR: 500/- 350/-
Author: MAULANA MUHAMMAD JAFAR THANEESRI
Pages: 144
ISBN: 978-969-662-122-5
Categories: HISTORY URDU LITERATURE AUTOBIOGRAPHY MEMOIRS URDU CLASSICS INDIAN MUTINY
Publisher: BOOK CORNER
ڈیڑھ سو برس قبل
2 مئی 1864ء کو عدالت میں جج کی آواز گونجی:
مولوی محمد جعفر!
تم بہت عقلمند، ذی علم اور قانون دان، اپنے شہر کے نمبردار اور رئیس ہو، تم نے اپنی ساری عقلمندی اور قانون دانی کو سرکار کی مخالفت میں خرچ کیا۔ تمہارے ذریعے سے آدمی اور روپیہ سرکار کے دشمنوں کو جاتا تھا۔ تم نے سوائے انکار بحث کے کچھ حیلتاً بھی خیرخواہی سرکار کا دَم نہیں بھرا اور باوجود فہمائش کے اس کے ثابت کرانے میں کچھ کوشش نہ کی۔ اس واسطے تم کو پھانسی دی جاوے گی۔ میں تم کو پھانسی پر لٹکتا ہوا دیکھ کر بہت خوش ہوں گا۔
مولوی محمد جعفر نے بے خوف کہا:
’’جان لینا اور دینا خدا کا کام ہے، آپ کے اختیار میں نہیں ہے۔ وہ رب العزت قادر ہے کہ میرے مرنے سے پہلے تم کو ہلاک کر دے۔‘‘
تاریخ گواہ ہے…
مولوی محمد جعفرؒ کی پیشین گوئی سچ ثابت ہوئی اور جج اگلے چند روز میں دنیا سے سدھار گیا۔
1۔15 دسمبر1864ء
چیف کورٹ… کا فیصلہ!
پھانسی کی سزا حبسِ دوام بعبور دریائے شور میں تبدیل ہو گئی۔
یہ کس کو سزا حبس دوام دی گئی؟ یہ کس قافلے کا رہرو تھا؟ کس تحریک کا امین تھا؟
یہ تحریک سیّد احمد شہیدؒ، جہاد اور تجدید، احیائے دین کی لے کر اُٹھے جس میں سرفروش اپنی گردنیں اپنی ہتھیلیوں پر لیے پھرتے تھے۔ سیّد احمد شہیدؒ نے طاغوت اور لرزتی کانپتی دم توڑتی سکھا شاہی حکومت کے خلاف تلواریں نیام سے نکال کر وقت کے پہیّے کو گھمایا۔ یہ وہ وقت تھا جب مسلمان شدید ابتلاء و آزمائش میں تھے۔ زندگیاں اجیرن، مساجد اور اسلامی شعائر کی اعلانیہ بے حرمتی کا دور دورہ تھا۔ جہاد کا اصل مقصد، ہدف، منزل حکومت الٰہیہ کا قیام تھا۔ وہ غلامی کی زنجیریں کاٹنے اپنے قافلہ کے ساتھ بالاکوٹ تک پہنچے۔ لیکن زمین پر میرجعفر از بنگال، میر صادق از دکن ننگ دین ننگ ملت ایسے انگریزوں اور سکھوں کے کاسۂ لیس، مسلمانوں کی صفوں میں خیمہ زن تھے۔ انہوں نے اپنے پیادے، وزیر، گھوڑے، مہرے، بساط سیاست پر ترتیب دیے اور چال چلی…
24 ذیقعدہ 1425ھ (6 مئی 1831ء) تاریخ کا وہ روشن دن ہے جس نے سیّد احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ کو سرفروشوں سمیت جامِ شہادت نوش کرتے دیکھا۔
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
سیّد احمد شہیدؒ کی تحریک پر قلم رواں ہو تو کہیں پڑاؤ ملے نہ سانس لوں اور میں لکھتا چلا جاؤں، لیکن…
بڑی طویل کہانی ہے
پھر کبھی اے دوست
اس کتاب کے قاری نے 1800ء میں سیّد احمد شہیدؒ کے ساتھ سانس لینا ہے اور اپنی سانسوں میں پاکیزگی رواں رکھنی ہے تو مولانا سیّد ابوالحسن علی ندویؒ کی ’’تاریخ دعوت و عزیمت‘‘ کی جلد ششم (حصہ اوّل، دوم) مطالعہ کر لے۔
مولانا جعفر تھانیسریؒ، سیّد احمد شہیدؒ کی تحریک کے وہ امین ہیں جنہوں نے اپنی مکمل زندگی، بیوی بچے، اپنا مال اسباب، اپنا آرام، اپنی جان اللہ کی راہ میں پیش کر دی۔
کوہِ استقامت!
تاریخ نے ورق الٹے تو میں نے ایک سو ترپّن سال بعد جانا، جیسے یہ کل کی بات ہے۔ یہ قصہ پارینہ نہیں، بلکہ ورق تازہ ہے جس پر لہو کے چھینٹوں سے نقش گری کی گئی ہے۔ صعوبت اور سختیاں جھیل کر اس ورق تازہ کی جلد بندی ہوئی ہے۔ یہ ضلع انبالہ ہے۔ میں قصبہ تھانیسر میں ہوں۔ میاں جیون ا رائیں قبیلے کے چشم و چراغ ہیں۔ آپؒ نے اپنے بیٹے کانام جو 1838ء میں پیدا ہوا، محمد جعفر تجویز کیا۔ محمد جعفر کے والد کا جلد انتقال ہو گیا۔
مولاناؒ کا کہنا ہے:
’’میں نے دس برس کی عمر تک کوئی تعلیم حاصل نہیں کی۔ اپنے باپ کے فوت ہو جانے کے بعد جبکہ میری عمر دس بارہ برس کی تھی اور میرا چھوٹا بھائی چھ مہینے کا تھا، ہم اپنی والدہ کی سرپرستی میں تربیت پانے لگے۔ میری والدہ بالکل ناخواندہ تھیں۔ انہیں کوئی مذہبی تعلیم نہ دی گئی تھی۔ لڑکپن میں مَیں نے تعلیم کی طرف مطلق توجہ نہ کی اور آزاد پھرتا رہا۔ مجھے تھوڑی سی عقل آ گئی تو تعلیم کی طرف متوجہ ہوا۔‘‘
وہی محمد جعفر، میں عرض کر رہا تھا، چشم فلک نے نظارہ دیکھا… سورج کی طرح طلوع ہوا اور تاریخ کے صفحات پر نصف النہار ہو گیا۔ قرآن کریم کے تین پارے حفظ کرنے اور سیکڑوں احادیث مبارکہ قلب میں محفوظ کر لینے والے نمازِ تہجد کے عادی مولوی محمد جعفر تھانیسریؒ نے مروّجہ تعلیم کی تکمیل کے بعد عرائض نویسی شروع کی اور اس میں مہارت کی چوٹی چھو لینے پر وکلاء، عرائض نویس قانون اور اُس کے ضابطوں کے بارے اُن سے رجوع کرنے لگے اور شہرت کو چاند لگنے لگے۔
آزادی کا سفر
ہم یوں ہی آزاد نہیں ہو گئے۔ 1947ء تک کا سفر بڑا کٹھن، جان لیوا اور اَن گنت سر کٹانے والے سرفروشوں اور مجاہدین کے لہو سے مزیّن ہے۔ وہ جو دار و رسن پر کھینچے گئے اُن کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ ایک مغل شہنشاہ کی بیٹی کے علاج کے سلسلہ میں آنے والا انگریز ڈاکٹر جس نے چوہے کی طرح نہر میں سوراخ کیا اور ایسٹ انڈیا کمپنی سوراخ سے شگاف تک کے مرحلے ٹاپتی ہندوستان پر قابض ہو گئی۔ اس شگاف کو پاٹنے میں جہاں حیدر علی اور ٹیپو سلطان نے اپنا حق ادا کیا، نواب سراج الدولہ سے علامہ اقبالؒ تک، یہ شاہراہ سرخ کارپٹ سے سجی تو ہم نے آزادی کا سانس لیا… جو قومیں اپنے محسنین کو یاد نہیں رکھتیں، وہ دنیا کے نقشے سے معدوم ہو جاتی ہیں۔
جس قافلے، جس آزادی کایہ قصہ ہے، اس قصے میں مولانا جعفر تھانیسریؒ کا روشن اور تابناک نام قیامت تک دمکتا رہے گا۔ مجاہدین نے کیسے اپنی زندگیاں وار دیں۔ اپنا آرام، عیش، گھر بار، بیوی بچے، اپنا دیار، اپنی مٹی، اپنی زمین تج دی۔ پابجولاں وہ ہنستے رہے اور سرِدار کھینچے گئے۔
کالا پانی… کالا پانی ہے…
جزائر انڈمان تک سفر کی اوگھٹ گھاٹیوں میں سے گزرنا اتنا آسان تھا کیا۔آ… میرے عہد کے انسان! تو بھی پابجولاں بھوکا پیاسا، یہ سفر کاٹ! تو بھی اٹھارہ برس اپنی مٹی سے بچھڑ کر اپنے پیاروں سے جدا ہو کر دیکھ…
سامنے دیکھ!
اک آواز سنائی دی ہے، پانیوں پر سے سرکتی کُرلاتی تلاش کرتی آواز! جب بحری جہاز، انڈمان کے کنارے لگا تو ساحل پر بیسیوں مولوی اور منشی منتظر تھے۔
’’کیا مولوی محمد جعفر اور مولوی یحییٰ علی صاحب بھی اس جہاز پر آئے ہیں؟‘‘
میں بھی وہیں تھا اُسی جزیرہ پر، میں بھی قید و بند کی صعوبتوں سے گزر رہا تھا، آواز دینے والوں میں مولوی احمد اللہؒ کے ساتھ میں بھی صف میں شامل تھا۔
نیچے اتر کر ہم کو یہاں معلوم ہوا کہ مولوی احمد اللہ صاحب ہم سے ایک برس بعد پٹنہ میں قید ہو کر 15جون 1865ء کو ہم سے چھ مہینے پہلے پورٹ بلیر میں پہنچ گئے اور ایک دوسرے جہاز کے قیدیوں سے جو ہم سے اوّل اسی جیل تھانہ سے چل کر فقط دو روز پہلے ہم سے پہنچے تھے، ہماری آمد کا حال معلوم کر کے مولوی صاحب ہمارے منتظر تھے اور یہ سب لوگ انہیں کے اشارے ہمارے لینے کو گھاٹ پر آئے تھے۔
خیر ہم لوگ بوٹ سے اتر کر اسی مجمع کے ساتھ مصافحہ اور معانقہ کرتے ہوئے اپنے چالان کے قیدیوں سے جدا ہو کر منشی غلام نبی صاحب محرر مرین ڈیپارٹمنٹ کے مکان پر پہنچے۔ وہاں مولوی احمد اللہ صاحب اور دوسرے اکثرمعزز لوگوں سے ہماری ملاقات ہوئی اور اسی مکان میں ہم تینوں آدمی رہنے لگے۔ اسی دم ہماری بیڑی کٹوا دی اور عمدہ لباس جوہمارے واسطے تیارکر کے رکھا تھا ہم کو پہنایا گیا اورتمام جلسہ کے ساتھ ہم نے دستر خوان پر بیٹھ کر کھانا کھایااور اس تاریخ سے تاریخ رہائی تک ہم نے پھر بارک یا لباس یا کھانا قیدیوں کا کبھی نہیں دیکھا۔ گو اُسی تاریخ سے ہم قید سے رہا ہو گئے۔ گواٹھارہ برس تک مثل ملزمان کالے پانی میں رہے۔
اسی شام سے گھرگھرہماری دعوتیں ہونے لگیں اور وہ وہ نفیس اور عمدہ کھانے ہم کوکھلائے گئے کہ ہند میں مجھ کو تو کبھی ایسے کھانے نصیب بھی نہ ہوئے تھے۔ وہ ہمارا خیال کہ اب ہم کو ساری عمر صرف جیل کا کھانا کھانا پڑے گا، اس قادرِ مطلق نے اس نعم البدل کے ہمارے دل سے قلع قمع کرا دیا اور اپنی قدرت کو دکھلا دیا۔
جب ہم اس جزیرے میں پہنچے ہزاروں مرد عورت قیدیوں کو دیکھا کہ ماتھا ان کا کھود کر پیشانی پر ان کا نام اور جرم اور لفظ دائم الحبس لکھا ہواہے کہ وہ نوشت مثل نوشتہ تقدیر کے تمام عمر نہیں مٹتی۔ مگر یہ تائید الٰہی سنیے کہ ہمارے پہنچنے سے کچھ عرصہ پہلے وہ حکم ماتھا کھودنے کا تمام عملداری سرکار سے ہمیشہ کے واسطے موقوف ہوگیاتھا۔ اس سبب سے اس داغِ دائم الحبس سے بھی ہم محفوظ رہے۔ ‘‘
خوبی۔۔۔
تواریخ العجائب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ صرف ایک شخص کی خود نوشت نہیں ہے بلکہ یہ کتاب ایمانیات کے درجہ میں ترتیب پانے لائق ہے۔ اس کے مطالعہ سے میں نے جانا کہ مولانا محمد جعفر تھانیسریؒ کا ربّ کریم پر ایمان اتنا پختہ اور غیر متزلزل تھا کہ کہیں ان کے پاؤں نہیں ڈگمگائے۔ وہ جس ابتلاء میں مبتلا ہوئے، رب کریم نے ان کا ہاتھ تھام لیا اور انہیں اس مشکل سے نکال لیا۔ تکالیف میں ان کے لیے آسانیوں کے دروازے کھول دیے۔ مولاناؒ نے اپنی خود نوشت میں اللہ رب العزت کے اس انعام اور شانِ کریمی کا ذکر تسلسل سے کیا ہے۔ یہ خود نوشت قاری کے دل میں موجود ایمان پر برگ و بار لاتی ہے اور انسان کا دل اس رب کریم کی رحمتوں پر پختہ سے پختہ تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ میں نے اپنے قلب پر واضح اس کتاب کے روحانی ثمرات محسوس کیے ہیں۔ میرا یہ تجربہ ہے کہ عالم باعمل کی تحریر بھی اس کی صحبت کی مثل ہوتی ہے جس کی خوشبو دل و روح میں سرایت کرتی ہے۔
یہ واقعی تواریخ عجیب ہے
جب مولانا جعفر تھانیسریؒ اٹھارہ برس کی جلاوطنی کاٹ کر وطن لوٹے تو ہر شخص کی خواہش تھی کہ اُن پتھریلے سیاہ جزائر کے بارے میں جانے جہاں انگریزوں نے عقوبت خانے تیار کیے اور باغیوں کو اُن میں مقید کر دیا۔
جزائر انڈمان خلیج بنگال کے مشرق کو 92 درجہ 470 دقیقہ طول شرقی اور 11 درجہ 43 دقیقہ عرض شمالی پر کلکتہ سے قریب چھ سو میل کے واقع ہیں۔ یہ مجموعہ جزائر 1746 میل کے گھیرے میں، جس میںقریب ایک ہزار جزیرے شامل ہیں، بنام انڈمان مشہور ہے۔ علم طبقات الارض کے محققوں کا یہ قول ہے کہ یہ جزائر کسی زمانہ میں براعظم ایشیا سے ملے ہوئے تھے۔ پھر زمانے کے پھیر پھار اور سمندر کی موجوں سے کٹتے کٹتے اوّل یہ ٹکڑا بر اعظم ایشیا سے علیحدہ ہو گیا تھااور پھر آخر کو ایک دوسرے سے علیحدہ ہوتے ہوتے چھوٹے چھوٹے جزیرے ہو گئے۔
یہاں سے پانچ روز میں کلکتہ سے اگن بوٹ پہنچتاہے اور تین روز میں رنگون سے مولین یہاں سے تین سو میل مشرق وشمال اور سنگا پور چار سو میل گوشہ مشر ق و جنوب میں اور پنانگ تین سو پچاس میل مشرق میں اور نکوباریاننکوڑی اسّی میل جنوب میں اور مدراس آٹھ سو میل مغرب اور لنکا آٹھ سومیل گوشہ مغرب و جنوب میں واقع ہیں۔ یہ جزائر سب پہاڑ ہیں، ہموار زمین بہت کم ہے۔
قریب سوبرس کے ہوئے سب سے اوّل لیفٹیننٹ بلیر ایک جہازی سردار نے یہاں آکر لنگر ڈالا تھا۔ اسی سبب سے پورٹ بلیر اس جزیرے کا نام ہوا۔ انہیں ایام میں جس کو سو برس ہوئے سرکار نے پہلے بھی قیدیانِ حبس بعبور دریائے شور کا رکھنا تجویز کیا تھا۔ مگر ناموافقی آب و ہوا کے سبب سے 1796ء میںیہ جزیرہ آباد ہو کر پھر اُجڑ گیا تھا۔ 1857ء کی بغاوت کے بعد سرکار کو پھر اس کی ضرورت ہوئی اور مارچ 1858ء سے گویا دوبارہ اس کی آبادی شروع ہوئی اور پہلے پہل بغاوت کے قیدی یہاں لاکر رکھے گئے۔
شروع آبادی میں مدت تک جنگلی لوگ سخت مخالف رہے۔ چنانچہ دومرتبہ انہوںنے ڈاکٹر واکر صاحب سپرنٹنڈنٹ اوّل کے عہد میں بڑی بھاری جنگلیوں کی فوج جمع کر کے ایک دفعہ ہدو پر دوسری بار ابرڈین پر حملہ کیا۔ آخر ملایمی اور حکمتِ عملی سرکار سے وہ فرمانبردار ہوگئے اور اب جنگل یا بستی میں جہاں کہیں وہ ملتے ہیں تو نہایت خاطر داری سے پیش آتے ہیں، گو شروع آبادی میں ان وحشیوں نے بہت خون خرابے کیے تھے۔
یہ لوگ چار فٹ سے پانچ انچ تک اونچے مثل حبشیوں کے سیاہ فام، گول سر، آنکھیں ابھری ہوئیں، سر پر بھیڑ کے سے بال مگر نہایت مضبوط اور قوی ہوتے ہیں۔ ان کل جزائر انڈمان میں ان کی بارہ ذاتیں ہیں، ایک ذات کی زبان دوسری قوم سے بہت کم ملتی ہے۔
یہ جنگلی اس بات کے قائل ہیں کہ خدا آسمان میں رہتا ہے، وہی خالق ہر شے کا ہے اور سب سے بڑا ہے۔ وہ کسی سے پیدا نہیں ہوا، وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اس کا محل بہت عمدہ اور نفیس آسمان میں ہے اس کوکوئی نہیں دیکھ سکتا۔ اسی کے گھر سے پانی برستا ہے، بجلی کا شعلہ اور کڑک بھی اسی کے پاس سے آتی ہے، موت بھی اسی کے حکم سے ہوتی ہے۔ بھلائی اور روزی بھی وہی دیتاہے۔ مسماۃ چانا پالک ایک اس کی جورو بھی ہے اس کی جورو کو بھی فنا نہیں اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوئی۔ مگر اس کا درجہ خدا سے کم ہے۔ اس کا کام ہے کہ سمندر میں مچھلیاں پیدا کرے، وہی مچھلیوں کو آسمان سے گراتی ہے۔
یہ لوگ شیطان کے بھی قائل ہیں اور سمجھتے ہیں کہ سب برے کام شیطان کراتا ہے مگر وہ کہتے ہیں کہ شیطان دو ہیں، ایک زمین کا شیطان جس کا نام اِرم چوگلا ہے۔ جب زمین پر کوئی ناگہانی موت سے مر جاتا ہے تو یہ سمجھتے ہیں کہ ارم چوگلا نے مار ڈالا ہے۔ ایک سمندر کا شیطان ہے جس کا نام جورو ونڈا ہے۔ جب کوئی آدمی ڈوب کر مر جاتا ہے توکہتے ہیں کہ اس کو جورو ونڈا نے مار ڈالا ہے۔
یہ لوگ فرشتوں کے بھی قائل ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ مرد عورت دونوں جنس سے ہیں اور جنگل میں رہتے ہیں اور انسانوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ یہ لوگ بھوت پریت کے بھی قائل ہیں مگر کہتے ہیں کہ ان کو کچھ اختیار نہیں ہے۔ یہ لوگ خدا یا غیر خدا کی کسی چیز کی پوجا نہیں کرتے۔
یہ لوگ طوفانِ نوح کے بھی قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ ایک بار زمین پرایساطوفان آیا تھا کہ ساری دنیا ڈوب گئی تھی اور ان جنگلیوں کے بزرگ ایک کشتی بنا کر اس پرسوار ہو گئے تھے اور ایام طوفان میں بہت دنوں تک اس کشتی میں سوار رہے۔ جب طوفان رفع ہوا تو وہ کشتی کسی پہاڑ منجملہ کوہ ہائے جزائر انڈمان کے ٹھہری تھی۔
’بک کارنر‘ جہلم سے طبع شدہ ’’کالا پانی‘‘ کے نسخہ کی انفرادیت و اہمیت
’بک کارنر‘ جہلم کی خواہش تھی کہ ہمارے ادارہ سے کالا پانی (تواریخ عجیب) کا صحیح ترین نسخہ شائع ہو۔ اس سلسلہ میں بہت زیادہ تگ و دو کی۔ ہری پور سے محبی زاہد کاظمی کی معاونت بھرپور رہی اور ’بک کارنر‘ جہلم کے ڈائریکٹر امر شاہد نے ذاتی دلچسپی لے کر اس کتاب کے متعدد نسخے فراہم کیے۔ یہ اُن ہی کی معاونت کا ثمر ہے کہ مجھے صحیح ترین نسخہ تک رسائی ہوئی۔ اس کتاب کا پہلا ایڈیشن بہت چھوٹے سائز پر شائع ہوا تھا، جس میں کوئی ذیلی سرخی نہ تھی۔
ڈاکٹر محمد ایوب قادری کا کہنا ہے، ’’کالا پانی کا پہلا ایڈیشن ہمیں مفتی انتظام اللہ شہابی کے ذخیرہ علمیہ سے دستیاب ہوا۔ اب یہ کتاب آل پاکستان ایجوکیشنل کانفرنس (کراچی) کی لائبریری میں موجود ہے۔‘‘ اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن پاکستان ہسٹاریکل سوسائٹی کراچی کے کتب خانہ میں موجود ہے۔ ڈاکٹر ایوب قادری مرحوم نے چھان پھٹک کے بعد انہی دو ایڈیشنوں کو سامنے رکھ کر اصل متن کی صحت کو جانچا پرکھا، اور ادارہ یادگارِغالب نے یہ کتاب 2015ء میں شائع کی۔ اسی تلاش کے سفر میں دوسرے نسخہ کی فائل دستیاب ہوئی اور اطمینان ہو گیا…
لیجیے…
مطالعہ کیجیے!
تاریخ کی سیر سے لطف اندوز ہوں اور دل و روح کو سرشار کیجیے کہ مطالعہ ہی زندگی، مطالعہ ہی سانسوں کا تسلسل ہے۔
محمد حامد سراج
خانقاہ سراجیہ
چشمہ بیراج، ضلع میانوالی
Reviews
Muhammad Jamil sahoo (Sahiwal)
Syed AbdulRaouf kazimi (Kot Addu)