FIRDAUS E BAREEN فردوس بریں
PKR: 700/- 490/-
Author: ABDUL HALEEM SHARAR
Pages: 184
ISBN: 978-969-662-292-5
Categories: URDU LITERATURE NOVEL URDU CLASSICS
Publisher: BOOK CORNER
اُنیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں جن ادیبوں نے اُردو ادب کو مغربی اصناف اور اسالیبِ فن سے روشناس کرایا اُن میں عبدالحلیم شرؔر کا نام نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ ان کی شہرت کا بڑا سبب تو دراصل اُن کے تاریخی ناول ہیں۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ اُن کی شخصیت بڑی ہمہ رنگ اور اُن کی صلاحیتیں بڑی متنوّع تھیں۔ ناول کے علاوہ انھوں نے انشائیہ، ڈراما، شاعری، سوانح اور تاریخ میں بھی قابلِ قدر نگارشات یادگار چھوڑی ہیں۔
مولانا عبدالحلیم شررؔ ۱۸۶۰ء میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد حکیم تفضّل حسین اودھ کے آخری تاجدار واجد علی شاہ کے ملازم تھے۔ واجد علی شاہ کی معزولی کے بعد وہ اُن کے ساتھ مٹیا برج چلے گئے اور وہیں اقامت اختیار کر لی۔ نو سال کی عمر میں عبدالحلیم شرؔر بھی مٹیابرج چلے گئے۔ وہاں انھوں نے اپنے والد اور بعض دوسرے علما سے عربی اور فارسی کی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ فنِ شاعری میں علی حیدر نظمؔ طباطبائی کے شاگرد ہوئے۔ اس کے بعد اُنھوں نے لکھنؤ اور دہلی میں مزید تعلیم حاصل کی اور انگریزی میں بھی اچھی دستگاہ پیدا کر لی۔
تعلیم کے ساتھ تصنیف و تالیف کا مشغلہ جاری تھا۔ ان کی صلاحیتوں کو دیکھ کر ۱۸۸۰ء میں منشی نول کشور نے اُنھیں اودھ اخبار، کا نائب ایڈیٹر بنا دیا اور اس میں انھوں نے مختلف موضوعات پر متعدد مضامین لکھے جو مقبول ہوئے۔ ’’روح‘‘ کے موضوع پر ان کے ایک مضمون کی سرسیّد نے نہ صرف داد دی بلکہ اس کا ایک اقتباس اپنے مضمون میں نقل کیا۔ ۱۸۸۶ء میں انھوں نے بنکم چندر چٹرجی کے ایک تاریخی ناول’’درگیش نندنی‘‘ کا انگریزی سے اُردو میں ترجمہ کیا اور پھر ۱۸۸۶ء میں جب انھوں نے اپنا رسالہ ’’دلگداز‘‘ جاری کیا تو اس میں اپنا پہلا تاریخی ناول ’’ملک العزیز ورجنا‘‘ قسط وار شائع کیا۔ اس کے بعد انھوں نے ’’حسن انجلینا‘‘ اور ’’منصور موہنا‘‘ لکھے جو بے حد مقبول ہوئے۔
۱۸۹۳ء میں شرؔر نواب وقار الملک کے لڑکے کے اتالیق ہو کر انگلستان چلے گئے۔ واپس آ کر وہ کچھ عرصہ حیدرآباد میں رہے اور پھر ۱۸۹۹ء میں لکھنؤ آ گئے۔ لکھنؤ پہنچ کر انھوں نے پھر ’’دلگداز‘‘ جاری کیا۔ ناول ’’فردوسِ بریں‘‘ انھوں نے قیامِ حیدر آباد کے زمانے میں ہی مکمل کیا تھا۔ اس کے پہلے ایڈیشن کی اشاعت کا حق انھوں نے منشی نثار حسین نثاؔر، مہتمم ’’پیام یار‘‘ کے ہاتھ فروخت کر ڈالا۔
لکھنؤ آ کر وہ پورے انہماک کے ساتھ تصنیف و تالیف کے کاموں میں مشغول ہو گئے۔ سوانحی اور تاریخی تصانیف کے ساتھ انھوں نے کم و بیش پچاس ناول اور ڈرامے لکھے، ان میں سے کچھ تراجم بھی ہیں۔ ان کے علاوہ ان کے مضامین بھی آٹھ جلدوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ اپنے رسالہ’’دلگداز‘‘ میں شررؔ نے معرّا نظم کے نمونے بھی پہلی بار اُردو میں پیش کیے اور اُردو داں طبقہ کو انگریزی شعر و ادب کے نئے رجحانات سے متعارف کرایا۔ دسمبر۱۹۲۶ء میں لکھنؤ میں ان کا انتقال ہوا۔
مولانا شرؔر کو تاریخ بالخصوص اسلامی تاریخ سے خاص دل چسپی تھی۔ اپنے بیشتر ناولوں کا مواد انھوں نے تاریخ سے ہی لیا ہے۔ ان کا تاریخ کا تصور بڑی حد تک اُن کے احیا پسندانہ خیالات کا تابع تھا۔ والٹراسکاٹ کی طرح شرؔر نے بھی اپنے تاریخی ناولوں میںمسلمانوں کے تہذیبی اور سیاسی عروج کی داستانیں سنا کر انھیں بیداری اور عمل کا پیغام دیا اور ان کی زندگی کو صحیح اسلامی شعائر سے ہم آہنگ بنانے کی کوشش کی۔
شرؔر کے بیشتر تاریخی ناول عشق و محبت اور مسلمان جانبازوں کی جرأت و شجاعت کے واقعات سے معمور ہیں۔ دراصل وہ ایک طرح کے رومانی قصّے ہیں۔ جن کی کہانیوں اور کرداروں میں ایک باشعور قاری کو اکتا دینے والی یکسانیت محسوس ہوتی ہے۔ اپنے ناولوں میں وہ نہ تو ماضی کی معاشرت اور ماحول کو زندہ کرنے میں کامیاب ہو سکے اور نہ ہی ایسے جاندار اور غیر فانی کردار تخلیق ہو سکے جو مثلاً والٹراسکاٹ کے ناولوں میں نظر آتے ہیں۔ ان کے ہیرو ہمیشہ جرأت، دلیری اور تہذیب و شائستگی کا مثالی نمونہ ہوتے ہیں۔ اسی طرح ان کی ہیروئن بھی مثالی نسوانی اوصاف کا مجسمہ ہوتی ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ وہ اپنے ناولوں میں اسلام اور مسلمانوں کے کارناموں کو دوسرے فرقوں کے مقابلہ میں انتہائی جانب داری اور مبالغہ آرائی سے پیش کرتے ہیں۔ ان وجوہ سے ان کے اکثر ناول واقعیت سے دور اور محض تخیّلی ہو کر فنی دل کشی سے محروم ہو گئے ہیں۔
ان کے ناولوں میں صرف ایک ’’فردوسِ بریں‘‘ ایسا ناول ہے جو فنی تکمیل کے اعتبار سے کامیاب کہا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے نہ صرف ان کے بلکہ اُردو کے تمام تاریخی ناولوں میں نمایاں مقبولیت حاصل ہوئی اور کم و بیش تمام نقّادوں نے اس کے پلاٹ کی دل کشی اور کردارنگاری کو سراہا۔ اس ناول کی منظر نگاری اور ماحول کشی میں شرؔر کی صنّاعی درجۂ کمال پر نظر آتی ہے۔ اس کے تمام کردار منفرد اور جاندار ہیں اور اس کے پلاٹ کی تعمیر انتہائی فطری اور متوازن ڈھنگ سے ہوئی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تمام تخلیقی صلاحیتوں اور تاریخی شعور نے اپنے مکمل اظہار کے لیے اسی ناول کا انتخاب کیا۔
گزشتہ ستّر سال میں اس ناول کے بے شمار ایڈیشن شائع ہوئے۔ لیکن جیسا کہ ہمارے یہاں ہوتا ہے، پبلشر حضرات نے اسے شائع کرتے وقت کتابت اور طباعت میں بے پروائی برتی۔ جس کانتیجہ یہ ہوا کہ ہر نئے ایڈیشن میں غلطیوں کی تعداد بڑھتی گئی۔ کہیں کہیں بے ربط عبارت دیکھ کر کاتب صاحبان نے اپنی طرف سے تحریف و اضافہ کر دیا۔ چنانچہ آج کل بازار میں اس ناول کے جو عام ایڈیشن مل رہے ہیں وہ متن کے اعتبار سے کسی طرح بھی قابلِ اعتبار نہیں۔
اس صورتِ حال میںکوشش کی گئی ہے کہ ’’فردوسِ بریں‘‘ کا یہ ایڈیشن متن کی غلطیوں سے پاک ہو۔ اس ناول کا اوّلین ایڈیشن تو دستیاب نہیں ہو سکا لیکن تین قدیم اور مستند ایڈیشنوں سے موازنہ کرنے کے بعد اس نسخہ کا متن تیار کیا گیا ہے۔ اُمید ہے کہ اہلِ نظر اس جدید ایڈیشن کو پسند کریں گے۔
ڈاکٹر قمر رئیس
دہلی