Kuttay Ka Bacha

KUTTAY KA BACHA کتے کا بچہ

KUTTAY KA BACHA

PKR:   511/-

’کتے کا بچہ‘ نامی کتاب کیا چھپی آناً فاناً ہر سُو اِس پر تبصرے شروع ہوگئے اور وہ بھی اَن دیکھے یعنی بغیر کتاب کو پڑھے رنگ برنگے مختلف تبصرے نظر سے گزرے۔

ایکسپو سینٹر لاہور میں کتابوں کی سالانہ نمائش میں اسی کی مشتہری اور پھر اردو بازار میں بینرز دیکھے۔

مختلف الخیال لوگوں کے یکسو اور متضاد تبصروں نے کتاب کی جستجو مزید بڑھائی تواپنے ایک مخلص فی اللہ دوست کو کتاب کی فراہمی کا کہا تب راز کھلا۔ ’’کتے کا بچہ‘‘ کیا ہے ؟۔

نہ تو یہ کتاب کسی مخصوص فکر کے خلاف ہے اور نہ ہی کوئی علمی حوالہ جاتی دستاویز البتہ اِس کتاب کا مخاطب عام انسان ہےاور اس کی تحریر ضمیر پر دستک ہے ۔یہ کوئی تفسیری و تشریحی ، علمی و تحقیقی اسلوب کی کتاب نہیں بلکہ افسانوی اور کہانی طرز کی تحریر ہے۔اِس میں علمی موشگافیاں نہیں اور نہ حوالہ جات کی بھر مار ہے کہ اس پر کسی سطح کی ڈگری الاٹ ہو بلکہ یہ تو ناصحانہ انداز میں عام فہم انداز سے سادہ اور سلیس اردو میں اپنے قاری کی عمومی زندگی میں اس کے رویے کی اصلاح کے لیے لکھی گئی ایک کتا ب ہے ۔

کتاب میں بے پناہ معلومات ہیں ۔ اس کا نام تجویز کرتے وقت شاید فاضل مصنف پر اندازِ ملامتیہ کا ذوق غالب تھا۔ویسے اچھنبا بھی توجہ حاصل کر نے یا کسی سمت توجہ مبذول کرنے کا بہترین ذریعہ ہے ۔

اس کتاب کو یکسوئی اور توجہ سے پڑھنے والا قاری بہت کچھ حاصل کرے گا۔ شعور کی بیداری ہی زندگی کے زاویے کو درست سمت عطا کرتی ہے ۔ صوفیا کی خانقاہیں درحقیقت تربیت گاہیں ہوتی ہیں یہ تعلیمِ بالغان کے مستقل ادارے ہوتی ہیں ۔ شیخ طریقت اور زاویہ نشین سربراہ ادارہ ہوتا ہے وہ حکیمانہ انداز اور اسلوب میں سالکین کی تربیت کرتا ہے ہر دور کے الگ تقاضے ہوتے ہیں اور شیخ وہ تمام تقاضے مد نظر رکھ کر اپنے متعلقین و وابستگان کی رہبری کرتا ہے ۔ اس کتاب کےفاضل مصنف نقشبندی محسن پیر محمد محسن منور یوسفی نے وہ تمام تقاضے سامنے رکھ کر بہت عمدہ کتاب لکھی جو سوتے انسان کو جگانے کا ذریعہ اور بہانہ بن سکتی ہے۔

ایک اچھی کتاب جو نفسیاتی اعتبار سے ایک استاذ کا درجہ رکھتی ہے لکھنے پر فاضل مصنف مبارکباد کے مستحق ہیں اور خصوصا میں اپنے عزیز دوست مدثر علی محسنی کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر اس کتاب تک میری رسائی کو ممکن بنایا۔

RELATED BOOKS