MUSHK PURI KI MALIKA مشک پوری کی ملکہ
PKR: 480/- 288/-
اس ناول کی کہانی کا مرکزی کردار ایک مادہ گلدار (چیتے کے خاندان کا ایک جانور) ہے، جو کچھ عاقبت نااندیش انسانوں کی وجہ سے آدم خور ہو جاتی ہے۔ یہاں بین السطور اس امر کی بھی عکاسی کی گئی ہے کہ انسان کی توسیع پسندانہ سوچ جب قدرت کے نظام میں بے جا مداخلت کرتی ہے تو اسے ناگہانی حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ زیرِ نظر ناول میں بھی ایک معصوم گلدار انسانوں کی بے جا مداخلت اور ظلم و ستم کا شکار ہو کر انتقام پر اتر آتا ہے اور یہ ایک اندوہناک واقعات کا سلسلہ چل نکتا ہے جو علاقے میں پئے در پئے ہونے والی انسانی اموات سے ایک خوفناک فضا پیدا کر دیتا ہے۔قصہ کچھ یوں ہے کہ کچھ شکاری اسے زخمی کر کے اس کے دو بچوں کو پکڑ کر لے جاتے ہیں اور مامتا کی ماری گلدار انتقام اور نفرت کی آگ میں سلگتی ہوئی دوپائے جانوروں (انسان) سے انتقام لینے کے لیے آدم خوری پر اتر آتی ہے۔
بظاہر یہ ناول ایک آدم خور گلدار اور شکاریوں کے بیچ ایک خوفناک آنکھ مچولی کا منظر ہے لیکن اس کے پس منظر میں مصنف نے کمال چابک دستی سے ہمارے ایک مخصوص علاقے کی مقامی پہاڑی معاشرت کی بھی عکاسی کی ہے۔ جس میں علاقے کے ایک وڈیرے حاجی نثار عباسی کے ذریعے علاقائی مافیا کی عکاسی کی گئی ہے اور یہ دکھایا گیا ہے کہ مجرم ذہنیت کس طرح اپنی مکروہ عزائم کی تکمیل کے لیے پسماندہ ذہنیت لوگوں کو اپنے چنگل میں پھانس کر رکھتے ہیں اور ان میں توہمات کو فروغ دینے اور معاشرے کے پسے ہوئے طبقوں کے دو طرفہ استحصال کے لیے پیر پرستی کو بھی استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتے۔
یہاں ہمیں حاجی نثار عباسی ایسے ہی ایک شرپسند کردار کی صورت میں بہت متحرک نظر آتا ہے جو کہ ایک طرف گورنمنٹ کی رٹ کو چیلنج کرتے ہوئے ممنوع جانوروں کا شکار کرواتا ہے تو دوسری طرف قیمتی سرکاری لکڑی کی چوری میں ملوث ہے۔ اور جب علاقے میں آدم خور نے آفت مچا رکھی ہے تو اس موقع سے بھی بھرپور فایدہ اٹھاتا ہے ایک طرف تو اپنی پروپیگنڈا مشینری کے ذریعے لوگوں میں خوف و ہراس پھیلا کر اور آدم خور کو ایک ماورائی بدروح مشہور کر کے ان سے پیر صاحب کے لیے نذر نیاز وصول کی جا رہی ہے اور دوسری طرف سیاحوں کی کمی کی وجہ سے سستے داموں ہوٹل خریدے جا رہے ہیں۔
اس کے بعد حکومتی کوششوں سے ایک مشہور شکاری کو بلایا جاتا ہے جس کے ساتھ علاقے کا ڈپٹی فاریسٹ آفیسر اپنے شوق کی تکمیل کے لیے جب کہ ایک اور اہم کردار نور محمد ہے جو آدم خور سے اپنی ہونے والی بیوی کی دردناک موت کا انتقام لینے کی خاطر شکار پارٹی میں شامل ہو جاتا ہے۔ یہاں شکار پارٹی کو صرف آدم خور سے ہی نہیں بلکہ سہ طرفہ جنگ لڑنی پڑتی ہے ایک طرف تو سادہ لوح دیہاتی ان کی مداخلت کو ہی بدروح کے غصے کی وجہ قرار دیتے ہیں اور ان سے کسی قسم کا تعاون کرنے سے گریز کرتے ہیں تو دوسری طرف عباسی کے گرگے ہیں جو ان کی راہ میں مشکلات کھڑی کر رہے ہیں۔ تیسرا اور اہم دشمن آدم خور ہے جو کہ انتقام کی آگ میں بری طرح جھلس رہا ہے۔
کہانی تب جا کر ایک نیا رخ اختیار کرتی ہے جب مادہ گلدار اپنے بچوں کی بازیابی کے لیے حاجی نثار عباسی کے چڑیا گھر پر حملہ آور ہوتی ہے اور نتیجے میں اس کا ایک بچہ بازیاب ہو جاتا ہے جبکہ حاجی نثار عباسی خود شدید زخمی ہو جاتا ہے اس واقعے کے بعد حاجی نثار مکمل طور پر پس منظر میں چلا جاتا ہے اور پھر شکار پارٹی اور آدم خور میں ایک صبر آزما اور جان لیوا آنکھ مچولی شروع ہو جاتی ہے۔ یہاں کہانی اپنے قاری کو اس قدر مبہوت کر دیتی ہے اور ایک اعصاب چٹخا دینے والا سسپنس قاری کو سانس روکنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ آنے والے لمحے تک رسائی کے لیے قاری سانس روک کر کہانی کے بہاؤ میں بہتا چلا جاتا ہے۔
اس اعصاب شکن اور صبر آزما مرحلے میں بہت سے دلگداز مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں جن کو کوئی بھی قاری محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ایک موقع پر جب دونوں شکاری اپنے جواں مرگ گلدار کی لاش پر نوحہ کناں مادہ گلدار کو مار گرانے کے لیے گھات میں بیٹھے ہوتے ہیں وہاں کی منظر نگاری ملاحظہ ہو:
ثانی نے وہاں پہنچ جو دیکھا اور سنا وہ تاعمر اس کی یادداشت میں نقش ہونے والا تھا۔وہ آدم خور گلدار سے صرف بیس پچیس گز کے فاصلے پر تھا۔ منظر یوں تھا کہ وہ ثانی کی طرف پشت کیے بیٹھی تھی۔ اس نے اگلی دونوں ٹانگیں پھیلا رکھی تھیں اور ان ٹانگوں بیچ اس کا بچہ مردہ پڑا تھا۔ ثانی نے حیران آنکھوں سے دیکھا کہ وہ رہ رہ کر آسمان کی جانب منہ اٹھاتے ہوئے ایک کربناک سے آواز نکالتی جیسے آسمان سے شکوہ کناں ہو۔ آواز کچھ ایسی تھی جیسے سرد تاریک راتوں میں بلی رویا کرتی ہے۔ ایک پرسوز لحن میں کومل سے پنچم سر کی بڑھتی ہوئی طویل غررر۔۔۔۔غرر۔۔۔۔غوووں۔۔۔۔اوووں۔ اور پھر اس کا نوحہ ایک کربناک نوٹ پر پہنچ کر تمام ہو جاتا۔۔۔۔۔ وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر تھی اور رو رہی تھی۔۔
مذکورہ بالا منظر کشی جہاں مصنف کے فن کے کمال کی عکاس ہے وہاں ایک درندے کی اندر پائی جانے والے فطری مامتا کے جذبے کی بھی بھرپور عکاسی ہے۔ اور یہ وہ جذبہ ہے جو کسی بھی دل کو پگھلانے کی قوت رکھتا ہے۔ اور مامتا کا یہی جذبہ شکاریوں کے انتقام کی آگ کو ایک دفعہ پچھاڑ کر رکھ دیتا ہے۔
آگے چل کر ایک خونریز اور خوفناک جنگ دکھائی گئی ہے جو بظاہر تو ایک انسان اور ایک درندے کی جنگ ہے لیکن در حقیقت یہ دو فطری جذبوں یعنی مامتا اور نفرت کی جنگ ہے۔ ایک طرف آدم خور اپنے بچوں کی موت کا بدلہ لینے کے لیے لڑ رہی ہے دوسری طرف ایک کمزور تر نوع اپنے سے کئی گنا طاقتور نوع سے اپنی منگیتر کے انتقام کی خاطر صرف ایک خنجر لے کر میدان عمل میں کود پڑتا ہے۔ اور یہاں قاری کو دو مختلف انواع کے درمیان جذبوں کا ایک خوفناک تصادم نظر آتا ہے۔
ناول کا اسلوب بہت سادہ اور دلکش ہے سادہ پلاٹ میں لکھے گئے ناول کو بیانیہ تکنیک کے ذریعے خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے جبکہ گاہے گاہے اس میں خوبصورت مکالمے بھی موجود ہیں۔ مجموعی طور پر ایک دلکش اور فکر انگیز ناول ہے۔
نوٹ: ناول پڑھنے کے بعد یہ برجستہ سا تبصرہ ہے املا کی غلطیاں اور بے ربطی ہو سکتی ہے۔
تبصرہ: میاں شاہد عمران