Hariyupiya

HARIYUPIYA ہری یوپیا

Inside the book
HARIYUPIYA

PKR:   1,250/- 750/-

Author: HINA JAMSHED
Pages: 359
ISBN: 978-969-662-461-5
Categories: NOVEL CIVILIZATION
Publisher: BOOK CORNER

ازمنۂ قدیم میں آبا پرستی بعض عقائد کا جزولاینفک تھی، دورِجدید میں آبا فراموشی زندہ روایت۔ آبا پرستی اورآبا شناسی دو مختلف معاملات ہیں۔ میں نے ایک جگہ لکھا تھا کہ جس زمین میں آنول نال دفن ہوتی ہے، وہ زمین بندے کو تاحیات اپنی اور بلاتی رہتی ہے۔ جس دھرتی میں تہذیب ِ گزشتہ پنہاں ہو، جس زمین میں مدفون اپنے اجداد درختوں، پھولوں کی صورت اُبھر آتے ہوں، جس خاک پر متواترکئی نسلوں کے شجرے نمایاں ہوتے ہوں، وہ مٹّی اپنی اولا دکو آوازیں دیتی ہے، صدائیں بلند کرتی ہے۔ کم کم ،بہت کم، ان صداؤں کو سُن پاتے ہیں۔ یہ پکاریں دِل سے سنی جاتی ہیں اور یہ آوازیں دل کی دھڑکن اور بدن کی رگوں، شریانوں میں سفر کرتے لہو سے ہم آہنگ ہوکر وجود کا حصّہ بن جاتی ہیں۔ شعور سے لاشعور میں ورود کر جاتی ہیں۔
اس دھرتی کی ایک بیٹی حنا جمشید نے ان صداؤں کو سُن لیا ہے۔ کیا خوش لحن ہے یہ گیت گاتی بیٹی، کیا مشاق وہنر مند ہیں اس کے ہاتھ جو اس مقدس مٹّی سے قدیم قیمتی طرز کے برتن ڈھالتے، من موہنی مُورتیاں تخلیق کرتے اور بام ودر بلند کرتے کرتے پوری تہذیب کے خالق ٹھیرتے ہیں۔ وہ اس تہذیب کی خالق ہے یا مخلوق، شاید دونوں۔ دریافت کنندہ ہے یا ایجاد کنندہ، شاید دونوں۔ بیٹی ہے یا ماں، شاید دونوں۔ ماں یوں کہ اُس نے تفکر و تدبر اور تحقیق و تخیّل کے ایّام سے گزر کر، تخلیق کا دردِزہ سہ کر ’’ہری یوپیا‘‘ کو جنم دیا ہے۔
اس تخلیق کو ایراوتی، سرسوتی، قدیم پانیوں اور امرت جل نے سیراب کیا ہے۔ اس کی زرخیز اور بارآور خود تراشیدہ صندلیں زبان اس کی اپنی ہے، اس کے پنکھی، مور، پکھی واس، موتی، منکے، ہاتھی دانت کے ہار، سُرمہ دانیاں، ابرق، کانسی اور تانبے کے بٹن، ہاتھ سے رنگی سُوتی پھول دار چادریں، آوے میں پکی سرخ پختہ اینٹیں، دھاتی مُورتیاں، بیل، گینڈے، شیر، مچھلی والی مہریں، مٹی کے گھگھو گھوڑے، معبد، پروہت، مقدس گیت، سنگیت، خاک اُڑاتے رتھ، شیش ناگ اور مقامی مٹی میں گندھے کردار حنا جمشید نے اپنے تخلیق کردہ سنسار کی بساط پر بچھائے ہیں، ایستادہ کیے ہیں اور متحرک کر دیے ہیں۔ اس فن پارے میں کہیں تخّیل تحقیق سے دو گام بڑھ جاتا ہے تو کہیں ہم قدم ہو جاتا ہے، وفور ِ اظہار کے چند پنچھی اس سنسار کے آکاش پر پنکھ پھیلائے حدِاعتدال کے اُس پار جا کر لوٹ آتے ہیں، سنہرے گگن پر تیرتے، جلد حقائق کی ہریالی زمین پر اُتر آتے ہیں۔
بے شک ’’ہری یوپیا‘‘ کے زمان ومکان جُست جُو اور تصّور کی بھٹی میں ڈھلے ہوئے ہیں۔ اس تخلیق کا اِک اِک حرف، ایک ایک لفظ، ہر ہر جملہ ارتکاز کی چھاننی سے گزرا، پریم کے دُودھیا نور میں دُھلا اور شیفتگی کے عود کی دھونی میں رچا ہوا ہے۔
اُردو ادب کو ایک نئی اور پُروقار آمد مبارک ہو۔
(عرفان جاوید)

ہڑپا کے بارے میں معلومات کو رومان اور تخیل میں بھی گوندھ کر ڈاکٹر حنا جمشید ایک مختصر ناول لکھ سکتی تھیں مگر انھوں نے ہڑپا میوزیم یا کھنڈرات کی بار بار سلامی کو ایک طرف اپنی تہذیبی ریسرچ سے جوڑا اور دوسری طرف اس کے کینوس کو وسعت دی کہ ہری یوپیا کی تجارت مصر اور عراق سے تھی اور خود موجودہ پاکستان کے دیگر مراکز مہر گڑھ وغیرہ سے لین دین کا رابطہ تھا۔ ہری یوپیا کے لوگ اتنے متمدن تھے کہ وہ کپڑے کے استعمال سے واقف تھے، ان کے گھروں میں غسل خانے تھے مگر ان کا امن پسند اور سادہ کار ہونا انھیں قدرتی آفات یا معبدوں میں چوری یا سازش کرنے یا جھوٹی قسمیں کھانے والوں یا پہاڑی لوگوں کے نوکیلے ہتھیاروں کے مقابل سراسیمہ کر دیتا تھا، پھر موت کا رقص کرتی یہ مہذب بستی کیسے کھنڈر یا خرابے میں تبدیل ہوگئی، حنا جمشید کا قلم اس طرح جادوئی بن گیا کہ جیسے یہ آج کا پاکستان ہے، جو سیلاب کی زد میں ہے اور ہری یوپیا کی یہ بستی بھی ایک طرح سے امن کی خواہش کے ساتھ غرقاب ہوگئی ۔
حنا جمشید کے لیے قرۃ العین حیدر کا ’’آگ کا دریا‘‘ فیض رساں بنا، شمس الرحمٰن فاروقی، مستنصر حسین تارڑ، طاہرہ اقبال اور حمیرا اشفاق بھی اس فیض رسانی میں کہیں شامل رہے ہوں گے، مگر ساہیوال کی ہماری اس قابلِ فخر بیٹی کے اپنے بہت امتیازات ہیں۔
(ڈاکٹر انوار احمد)

RELATED BOOKS