Krishan Chandar | 5 Golden Books | Bundle Offer

KRISHAN CHANDAR | 5 GOLDEN BOOKS | BUNDLE OFFER کرشن چندر کی پانچ نایاب کتابیں

KRISHAN CHANDAR | 5 GOLDEN BOOKS | BUNDLE OFFER

PKR:   3,800/- 1,900/-

اس نے خوبصورت ناولوں کے انبار لگا دیے۔ بڑے بڑے ناقدانِ فن سے اپنا لوہا منوایا۔ آل احمد سرور، سیّد احتشام حسین، فراق گورکھپوری، وقار عظیم اور ڈاکٹر وزیر آغا وغیرہ نے متفقہ رائے سے اسے دورِ حاضر کا عظیم فنکار قرار دیا۔ کافر سے کافر حاسد کو بھی اس پر ایمان لانا پڑا۔
کنہیا لال کپور

سچّی بات یہ ہے کہ مجھے کرشن چندر کی نثر پر رشک آتا ہے۔ وہ بےایمان شاعر ہے جو کہانی کار کا رُوپ دھار کر آتا ہے اور بڑی بڑی محفلوں و مشاعروں میں ہم ترقی پسند شاعروں کو شرمندہ کرکے چلا جاتا ہے۔ وہ اپنے ایک ایک جملے اور فقرے پر غزل کے اشعار کی طرح داد لیتا ہے اور میں دل ہی دل میں خوش ہوتا ہوں کہ اچھا ہوا کہ اس ظالم کو مصرع موزوں کرنے کا سلیقہ نہ آیا ورنہ کسی شاعر کو جینے نہیں دیتا۔
علی سردار جعفری

حبِّ بشر کی جو حرارت اور تڑپ کرشن میں ہے وہ کسی دوسرے ادیب کو میسّر نہیں۔ انسانوں سے محبّت کا کتنا بےپناہ جذبہ تھا اس میں۔
سیّد سبطِ حسن

کرشن چندر میں سب سے مقدم چیز ان کا منفرد نقطۂ نظر ہے۔ وہ سب سے پہلے کرشن چندر اور سب سے آخر میں کرشن چندر۔ انھوں نے مخصوص تحریک یا نقطۂ نظر کو اپنے اوپر حاوی ہونے دیا نہ تو پرولتاریت کو، نہ جنس کو، نہ رومانیت کو، محض ترقی پسندی کو بھی نہیں۔ وہ زندگی کو دیکھنے کے لیے کسی مخصوص رنگ کے شیشوں کی مدد نہیں لیتے۔ اس کو اپنے اوپر خاص طور سے اپنی آنکھوں پر پورا اعتماد ہے۔ ان کا ناول زندگی کا ایک ذاتی اور بلاواسطہ تاثر ہوتا ہے۔
محمد حسن عسکری

تمام ہندوستانی زبانوں کے علاوہ دُنیا کی کئی زبانوں میں ان کی کتابیں اور ترجمے شائع ہو کر مقبول ہو چکے ہیں۔ ان میں انگریزی، روسی، ڈچ، ناروی، فرانسیسی، جرمن، چیک، رومانی، پولستانی، ہنگرین اور سلواک زبانیں شامل ہیں۔ خصوصاً رُوس میں کرشن چندر بہت مقبول مصنّف ہیں، جہاں ان کی کتابوں کے متعدد ایڈیشن نکل چکے ہیں۔ انھوں نے کئی بیرون ممالک جیسے رُوس، چین، چاپان، انگلستان اور یورپ کی سیاحت کی۔
جیلانی بانو

کہنے والوں نے کرشن چندر کو اُردو افسانہ کا سب سے بڑا شاعر غلط نہیں کہا۔ اُردو نثر پر بےپناہ عبور، اُردو زبان کا خلّاقانہ استعمال، ایک پُرکیف سحر آفریں اسلوب کی کرشمہ سازیاں ہیں۔ یہ وہ صفات ہیں جو کرشن چندر کے ہر قاری سے اپنا خراج وصول کرتی ہیں۔
وارث علوی

کرشن چندر اُردو کے صفِ اوّل کے افسانہ نگاروں میں ہیں۔ بہت سے لوگوں کے لیے وہ سب سے اچھے افسانہ نِگار ہیں اور اس قول کو آسانی سے رَد نہ کیا جا سکے گا۔ ان کے افسانوں میں تازگی اور شگفتگی، شادابی اور رعنائی ہے، زبان کی لطافت، تشبیہوں کی جدّت، اُسلوب کی ندرت، موضوع اور طرزِ بیان کی ہم آہنگی، موضوع اور مواد کی سماجی اہمیت، انسانیت کا درد اور اس کی ترقّی کی اُمید، یہ باتیں جس افسانہ نِگار میں اکٹھی ہو جائیں، وہی ساحری کر سکتا ہے۔ کرشن چندر اس لحاظ سے ساحر ہیں اگر وہ کبھی کبھی یہ احساس نہ دلائیں کہ حُسن صرف پہاڑوں اور وادیوں میں ہے۔ ان کے افسانوں سے یہ ترغیب نہ پیدا ہو کہ ’’فطرت‘‘ بذاتِ خود حسین اور مکمّل ہے تو شاید تخیُّلی حیثیت سے بھی ان کے جادو پر شک نہ کیا جا سکے۔ کرشن چندر کے افسانے پڑھے جانے کا اور ان کا فن مطالعہ اور غوروفکر کا مطالبہ کرتے ہیں۔
پروفیسر احتشام حسین

کرشن چندر نے اُردو افسانہ نِگاری میں جو رنگ پیدا کیا ہے وہ بالکل ایک نئی چیز ہے۔ اور شاید اس وقت کرشن سے زیادہ کامیاب افسانہ نِگار کوئی نہیں۔ اس کے افسانوں میں ہمیں رومان و حقیقت کا امتزاج مِلتا ہے جو ہندوستانیوں کی فطرت کے عین مطابق ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہندوستانی فطرتاً تخیّل پرست اور رومانی ہیں۔ لیکن وقت اور ماحول کے تقاضوں نے ان کو حقیقت پرست اور واقعیت پسند بھی بنا دیا ہے۔ وہ اپنے انفرادی اور شخصی پہلوؤں پر نظر رکھتے ہیں اور ان میں سے زیادہ کسی اجتماعیت کو ساتھ لے کر نہیں چلتے۔ فنّی اعتبار سے وہ اُردو کا بہت بڑا افسانہ نِگار ہے۔ اس نے افسانہ اور سکیچ کے امتزاج سے اُردو افسانہ نِگاری میں بالکل ایک نئی راہ نکالی ہے جو خود زندگی سے زیادہ قریب ہے۔ اس کے بعض افسانے تو بالکل سکیچ معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن اس کی حیرت خیز صنّاعی ان میں بھی افسانویت کی ایسی جھلکیاں دکھاتی ہے جن کا کہانیوں میں بھی ملنا مُشکل ہے۔ اس قسم کے افسانوں کے ہر اشارے اور ہر کنائے میں ایک کہانی ہوتی ہے۔ کرشن کا اسلوبِ بیان اور طرزِ ادا دِل کش ہے اور شاید ایسی پیاری زبان اور شعریت سے اتنا بھرپور اسلوبِ بیان اُردو کے بہت کم افسانہ نِگاروں کو نصیب ہوا ہے۔ وہ بذاتِ خود اُردو افسانہ نِگاری کا ایک اسکول ہے جس کی بُنیاد اس نے خود ہی ڈالی اور جس کو وہ خود ہی پروان چڑھا رہا ہے۔
ڈاکٹر عبادت بریلوی

کرشن چندر کی فن پر دسترس اور عصری زندگی کی سُوجھ بُوجھ ایسی پکّی اور سچّی ہے کہ ان کی زُود نویسی کے باوجود کہیں کہیں جلوہ دِکھا جاتی ہے۔ ’’دادر پُل کے بچّے‘‘ اسی قسم کے ناولوں میں ہے۔
ڈاکٹر محمد احسن

کرشن چندر نے اس ناول میں بھگوان کو ایک ایسے متجسّس صاحبِ فہم و ذکا کے استعارے کے طور پر استعمال کیا ہے جو بمبئی کی زندگی کے شب و روز کا جائزہ لینے کے لیے نکلتا ہے اور چشمِ حیرت سے معاشرے کے رِستے ہوئے ناسوروں پر گہری نگاہ ڈالتا ہوا گزر جاتا ہے۔ یہ بمبئی کی زندگی کے وہ گھناؤنے اور تاریک پہلو ہیں جو بظاہر نظر سے ڈھکے چھپے رہتے ہیں لیکن اس کی جبیں پر بدنما داغ ہیں اور جنھیں دیکھ کر ایک حسّاس شخص کو معاشرے کے بوسیدہ اور فرسودہ ہونے کا احساس جھنجوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ اس تصنیف میں کرشن چندر نے خدا اور جنت و جہنم کے تصوّر کی بڑی بے باکی اور شدّت سے شکست و ریخت کی ہے۔ یہ عمل اُن کے اشتراکی نظریات کے عین مطابق ہے۔ یہ ناول کرشن چندر کی ایک قابلِ قدر تخلیق ہے۔
جگدِیش چندر وَدھاون

کرشن چندر کی دوسری آپ بیتی جو ’’میری یادوں کے چنار‘‘ کی طرح مقبول ہوئی۔ اس ناول کا کینوس بھی بہت محدود ہے اور اس کا تعلّق اکثر و بیشتر کرشن چندر کے سکولی دَور سے ہے۔ بدیں وجہ اس کی افادیت بطور ایک سوانح حیات کے کرشن چندر کے لڑکپن تک ہے۔ گو دو ایک ابواب متفرق موضوعات پر بھی ہیں۔ ذرا ابواب کی نوعیت ملاحظہ ہو: حاجی پیر پر کرشن چندر کی والدہ کی لاہور سے آمد اور ان کے مذہبی اعتقادات، حاجی پیر سے وابستہ یادیں، علی آباد کی راکھ (Sanctuary) سے کرشن چندر کا لگاؤ، پونچھ کی کچھ تلخ و شیریں یادیں، کرشن چندر کا سکولی دور، حسن شاہ کا کتب خانہ اور کرشن چندر کا شوقِ کتب بینی، کرشن چندر کے ناپختہ عشق کی حُسن سے اوّلین ملاقات، مہیندر کی زندگی کی سنہری یادیں، کشمیر میں ہندو مسلم تفرقات اور تنازعات کا آغاز۔ یہ تصنیف بھی اپنی پیش رو سوانح حیات کی طرح کرشن چندر کی ابتدائی زندگی کے بارے میں معلومات کا منبہ اور سرچشمہ ہے۔
جگدِیش چندر وَدھاون

RELATED BOOKS