Shehar e ilm Kay Darwazay Par

SHEHAR E ILM KAY DARWAZAY PAR شہر علم کے دروازے پر

Inside the book
SHEHAR E ILM KAY DARWAZAY PAR

PKR:   1,250/- 875/-

Author: IFTIKHAR ARIF
Pages: 184
ISBN: 978-969-662-192-8
Categories: ISLAM POETRY
Publisher: BOOK CORNER
★★★★★
★★★★★

’’شہرِ علم کے دروازے پر‘‘ میری شاعری کا وہ انتخاب ہے جو میرے عقیدہ و عقیدت کی نشاندہی کرتا ہے۔ اللہ کریم مجھے صاحبانِ منتخب ومنتسب کی شفاعت سے سرفراز فرمائے۔ الحمدللہ کہ ’’شہرِ علم کے دروازے پر‘‘ کے عنوان سے حمد و نعت، سلام و منقبت پر مشتمل میری کتاب عزیزم اشفاق حسین نے مرتب کی تھی اور صاحبان دل و نظر میں پذیرائی کے بعد اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہوئے جو دُنیا بھر کے اُردو بولنے اور پڑھنے والوں میں شوق سے پڑھے گئے۔ سو ترمیم اور اضافے کے ساتھ یہ مجموعہ از سرِ نو پیش خدمت ہے۔ احسان ناشناسی ہو گی اگر اس مرحلے پر ’’بک کارنر، جہلم‘‘ کے رُوح رواں برادرم گگن شاہد اور عزیزم امرشاہد کا شکریہ ادا نہ کیا جائے، جنہوں نے اس اشاعت کو قابل توجہ بنانے کا اہتمام کیا ہے۔ ’’بک کارنر، جہلم‘‘ کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے کہ بہت کم عرصے میں اس ادارے نے بعض بہت اہم کتابیں شائع کیں جو اہلِ علم میں قابل داد و تحسین گردانی گئیں۔

(افتخار عارف)

افتخار عارف نے جدید مضامین و مطالب کی ادائیگی میں روایت کے خزینے سے یوں کسبِ فیض کیا ہے کہ تلمیح کو علامت اور علامت کو استعارے کا رُوپ دے کر نظم اور غزل دونوں کے لیے رمز و کنایہ کا نیا سامان پیدا کیا ہے۔ اس ضمن میں اب سے پہلے عشق و طلب، ایثار و جاں فروشی، جبر و تعدّی کا بیان صرف منصور و قیس اور فرہاد و جم کے حوالے سے کیا جاتا تھا۔ پھر جب گھر میں دار و رسن کی بات چلی تو مسیح و صلیب کے حوالے بھی آ گئے، لیکن المیۂ کربلا اور اس کے محترم کرداروں کا ذکر بیشتر سلام اور مرثیے تک محدود رہا۔ صرف علامہ اقبال کی نگہ وہاں تک پہنچی۔
خونِ حسینؓ بازدہ کوفہ و شام خویش را
یا
قافلۂ حجاز میں ایک حسینؓ بھی نہیں
افتخار عارف نے گزارش احوال واقعی کے لیے اس مآخذ سے بہت اثر آفریں اور خیال افروز کام لیا ہے۔

(فیض احمد فیض)

افتخار عارف کی شاعری میں دو وصف ایسے ہیںجن میں ان کا کوئی ہمعصر حصہ بٹاتا نظر نہیں آتا۔ سوان کے بل پر وہ اپنے ہمعصروں کے بیچ ممتاز نظر آتے ہیں۔ ان میں اوّل ان کی مذہبی شاعری ہے، مگر افتخار عارف نعت گو نہیں ہیں، نہ مرثیہ نگار ہیں، وہ تو بہت سے ہیں۔ ہمارے یہاں نعتیہ شاعری، مرثیے اور منقبت کی ایک بھر پری روایت ہے جو مجالس عزا اور میلاد کے واسطے سے پروان چڑھی ہے۔ ایک تیسری محفل اور ہے جس کو ہمارے زمانے کے میڈیا نے فروغ بخشا ہے، یعنی ریڈیو اور ٹی وی پر منعقد ہونے والے نعتیہ مشاعرے اور مسالمے۔ اس روایت کے بل پر نعت، منقبت اور مرثیے نے اپنا ایک لہجہ وضع کر لیا ہے۔ اب ان اصناف کے اپنے رسمی لہجے ہیں۔ افتخار عارف کی جیت یہ ہے کہ ان کے یہاں نعت، میلاد یا نعتیہ مشاعرے کے واسطے سے نہیں آئی ہے اور واقعۂ کربلا مجلس اور رسمی مرثیے کے واسطے سے موضوعِ شعر نہیں بنا ہے، یہ شاعری ان کے اندر سے ہوئی ہے، اس باطن سے جو عقیدت کے جذبے سے لبریز ہے، سو یہاں عقیدت کا جذبہ رسمی اصناف کے واسطے سے نہیں آیا، تخلیقی تجربہ کی صورت طلوع ہوا ہے۔ ہاں ایک بات اور… واقعۂ کربلا کے حوالے سے جو شاعری افتخار عارف نے کی ہے اس میں ایک علامتی سطح بھی اُبھرتی نظر آتی ہے۔ پہلی بار اقبال کے یہاں کربلا نے تخلیقی سطح پر استعاراتی شکل پائی تھی۔ دوسری مرتبہ یہ واقعہ افتخار عارف کی شاعری میں گزرا ہے۔ میں نے تخلیقی کا ٹکڑا یہ سوچ کر لگایا ہے کہ کربلا بھی تو اب ہماری شاعری میں ایک رسمی استعارہ بن چکا ہے۔ دوسرے نمبر پر ان کے یہاں بےگھری کا احساس ہے۔ اِک ہجرت اور اِک مسلسل دربدری کا قصہ۔ کس کس رنگ سے، کبھی اعلانیہ، کبھی کسی پردے میں چھپ کر کسی علامت، کسی استعارے میں گوندھ کر وہ اس شاعری میں اپنا اظہار پاتا ہے اور جب شاعر خُدا سے مکان کو گھر بنانے کی دُعا کرتا ہے تو یہ فرد کے المیہ سے بڑھ کر ایک تہذیبی المیہ بنتا نظر آتا ہے۔ وہ ایک تہذیب تھی جب آدمی منجملہ اور چیزوں کے اپنے گھر سے بھی پہچانا جاتا تھا۔ اب ہم آپ مکانوں میں رہتے ہیں، فلیٹوں میں، اپارٹمنٹوں میں، کوٹھیوں میں۔ آج یہاں کل وہاں، گھر کہاں ہے جو آدمی کو باندھ کر رکھتا ہے، جیسے اس کی بھی جڑیں ہوں اور کوئی گہری بنیاد ہے۔ تو یہ بے گھری کا جو رونا ہے وہ ایک پوری تہذیب کا نوحہ ہے۔ ہجرت کے تجربے میں تو کتنے لکھنے والے شریک ہیں مگر ہجرت کے تجربے سے جو یہ ایک جہت نکالی ہے وہ افتخار عارف سے خاص ہے۔

(انتظار حسین)

افتخار عارف کا یہ مجموعہ محض ذہنی و قلبی رسمیات کا جدلیاتی مجموعہ نہیں بلکہ کسی مطلق وجود کے وجودی مظاہر سے اپنی وجدانی وابستگی کو نامیاتی رُخ پر قائم رکھنے کی ایک کیمیائی کارروائی ہے۔ اس کارروائی کی سَرگرمی سے آدمی کے اندرون کی فضا بیرونی بے حالیوں میں بھی بحالیت کی طرف جَست کُناں رہتی ہے۔ افتخار عارف کے اندرون کی فضا ایک بحال اور نہال فضا ہے۔ یہ فضا حمدیہ، نعتیہ، منقبتیہ اور سَلامیہ برگ و بار کی نمو گسُتر تہذیب سے مرتب ہے۔ مرتب ہونے کی درجہ بدرجہ نوعیت کے باوصف یہ تہذیب مصنوعاتی نہیں توفیقاتی ہے۔ اس تہذیب کی ترتیب میں عقائدی لفظیات کے تصرفات کا یک گُونہ تجمل ہی دیدن نہیں ہے، مکنُونی اور سلُونی فرمودات سے اکتسابی توسُّل بھی بین الحروف خوب شگفتن ہے۔ توسُّل کی ایسی شگفت آوری از خود اپنا ایک نمودی اور عمودی دخل رکھتی ہے۔ دخل داری کی یہ روش آدمی کو کشاں کشاں حضوریت کی دہلیز تک لے جاتی ہے۔ حضوریت کے احاطے میں داخلے اورازاں بعد گوشہ گیر ہونے کے لیے مودّت کا سفارشی اِجازہ درکار ہوتا ہے۔ مودّت، مخلصین کے تئیں ایک تخاطُبی حوالہ اور نکتہ بین کے نزدیک جَبلِ متین کا تشریحی رسالہ ہے۔ عارفین کی صف میں مودّت سے مراد وہ رسّی لی جاتی ہے جس کے ایک سِرے پر ڈول باندھ کر کنویں سے پانی نکالنے کا کام لیا جاتا ہے۔ پانی بھرا ڈول کھینچنے والے دستکاروں کا قول ہے کہ اس نُوروں والی رسّی کی گرفت کا سارا مدار و قرار تو عارفوں کی تہجّدی ریاضت و اَصابت پر ہوا کرتا ہے۔ افتخار عارف کے اس مجموعے کی حرف گردانی سے صاحبان ظرف و صَرف کے درمیان یہ مسئلہ بھی فی البدیہہ دودُونی چار کی طرح حل پذیر ہونا چاہیے کہ افتخار عارف نے وجدانی وابستگی اور باطنی سالمیت کے نصاب میں … حضوریت کے حساب میں … اپنی آبیاری کے لیے کتنے ڈول کھینچے ہیں۔ آس پڑوس کی پُھلواری کو کتنا پانی سینچا ہے … اور پھر تمّت بالخیر… کیا کچھ ضرب تقسیم کیا ہے؟

(نصیر ترابی)

Reviews

Z

Zeshan raza (Burewala)

شہرِ علم کے دروازے پر


RELATED BOOKS